نصرت فتح علی خان کی آج اکسٹھویں سالگرہ منائی جارہی ہے

منگل 13 اکتوبر 2009 11:03

کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین۔13اکتوبر 2009 ء)شہنشاہ قوالی کہلانے والے نصرت فتح علی خان کی مُنفر د آواز سرحدوں کی قید سے آزاد تھی۔ تیرہ اکتوبر 1948ء میں فیصل آباد میں پیدا ہونے والے اس فن کار نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ٹائم میگزین نے 2006ء میں \"ایشین ہیر و ز\" کی فہرست میں اُن کانام بھی شامل کیا۔ بہ طور قوال اپنے کیریر کا آغاز کرنے والے نصرت فتح علی خان کو کئی بین الاقومی اعزازات سے نوازا گیا۔

نصرت فتح علی کے والد کا نام فتح علی خان تھا ۔ وہ خود بھی نامور گلوکار ، سازندے اور قوال تھے۔ نصرت فتح علی کی چار بڑی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ ان کا بچپن فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں گزرا۔ ان کی شادی ان کی عزیزہ اور سلامت علی خان کی بیٹی ناہید سے ہوئی۔

(جاری ہے)

ان کی ایک بیٹی ہے جس کا نام ندا ہے۔ ابتدا میں ان کے والد یہ نہیں چاہتے تھے کہ نصرت خاندانی پیشہ اختیار کریں بلکہ وہ بیٹے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے لیکن بیٹے کا رجحان اور جذبہ قوالی کی طرف دیکھ کر انہوں نے بیٹے کو قوالی کی باقاعدہ تربیت دینا شروع کردی۔

نصرت فتح علی نے گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھنے سے قبل طبلہ بجانے سے فنی تربیت کا آغاز کیا۔ ابھی یہ تربیت جاری تھی کہ 1964میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کے بعد انہوں نے اپنے چچا استاد سلامت علی اور استاد مبارک علی کے زیر سایہ اپنی تربیت مکمل کی۔ انہوں نے اپنی پہلی پرفارمنس اپنے والد کی موت کے چالیس دن بعد دی۔ 1971ء میں استاد مبارک علی کے انتقال کے بعد قوال پارٹی کے رہنما کی ذمے داری نصرت فتح علی پر آگئی۔

ان کی پہلی پبلک پرفارمنس ریڈیو پاکستان پر جشن بہاراں پروگرام میں ہوئی۔اُن کی قوالیوں کے 25 البمز ریلیز ہوئے جس کی وجہ سے انہیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں جگہ حاصل ہوئی ۔ کیر یر کی ابتدا میں ”حق علی علی“ اور ”دم مست قلندر “ وہ کلام تھے، جنہوں نے انہیں شناخت عطاکی۔ ان کے مزید مشہورگیتوں میں اکھیاں اڈیکدیاں دل واجا ماردا، ایس توں ڈاڈا دکھ نہ کوئی، یار نہ بچھڑے ، میرا پیا گھر آیا،تیرے بنا،میری زندگی ہے تو اور دلوں میں اتر جانے والی حمدوہی خدا ہے قابل ذکر ہیں۔

،،ہالی وڈ کی فلم ”ڈیڈمین واکنگ“ کے ساؤنڈ ٹریک کے لیے انہوں نے امریکی راک بینڈ ”پر ل جیم“ کے ساتھ کام کیا اور یوں اُن کا ہُنر مغرب تک پہنچا۔ پھر کینیڈین موسیقار مائیکل بروک کے ساتھ اُن کے اشتراک نے سامعین کو موسیقی کا بیش بہا خزانہ دیا۔ پھر پیٹر گیبریل کے ساتھ کام اور بالی وڈ کی فلم ”دی لاسٹ ٹیمپٹیشن کرائسٹ “نے انہیں شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا۔

پیٹر گیبر یل کے ساتھ اُن کے پانچ البم ریلیز ہوئے۔ انہیں ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیر ائی ملی جہاں اُنہوں نے جاوید اختر،لتا منگیشکر،آشا بھوسلے اور اے آر رحمن جیسے فن کاروں کے ساتھ کام کیا۔ سولہ اگست1997ء میں اُن کی موت دنیا ئے موسیقی کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھی۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ اُن کی عمر 48سال تھی اور وفات کے وقت وہ اپنے کیر یر کے عروج پرتھے۔

کئی بین الاقومی فن کار اسے اپنی خوش قسمتی قراردیتے ہیں کہ انہوں نے نصرت فتح علی خان کے ساتھ کام کیا۔ اُنہوں نے مغربی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے حسین امتنراج سے قوالی کو ایک جدت عطاکی اور خیال کی گائیکی کے ساتھ قوالی پیش کی۔ انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل تھاکہ ان کی دھنوں پروہ سامعین بھی جھوم اٹھے جو اُن کی زبان سے نا واقف تھے۔نصرت فتح علی خان کو مشرق بعید میں بہت مقبولیت حاصل تھی ، خاص کر جاپان میں جہا ں انہیں” گاتا ہو ابودھہ“ کے خطاب سے نواز ا گیا، جب کہ تیونس میں انہیں ” انسانی گائیکی کا جوہر “ قرار دیا گیا۔

امریکامیں وہ ”بہشت کی آواز“ قرارپائے اور فرانس میں ” مشرق کی آواز“ کہے گئے ۔ غرض یہ کہ انہوں نے ہرجگہ اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور پاکستان کی پہچان بن گئے۔
وقت اشاعت : 13/10/2009 - 11:03:40

Rlated Stars :