ابراہیم رئیسی کے مختصر حالات زندگی:ایرانی صدر اور ان کے ساتھیوں کی نمازجناز ہ مشہد میں امام علی رضا علیہ کے روضہ اقدس پر اداکی جائے گی

دوسری نمازجنازہ دارالحکومت تہران میں اداکی جائے گی ‘صدررئیسی کوممکنہ طور پر مشہد میں ہی سپرد خاک کیا جائے گا. ایرانی ذرائع ابلاغ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 20 مئی 2024 12:41

ابراہیم رئیسی کے مختصر حالات زندگی:ایرانی صدر اور ان کے ساتھیوں کی نمازجناز ہ مشہد میں امام علی رضا علیہ کے روضہ اقدس پر اداکی جائے گی
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20مئی۔2024 )ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی نمازجناز ہ مشہد میں امام علی رضا علیہ اسلام کے روضہ اقدس پر اداکی جائے گی جبکہ دوسری نمازجنازہ دارالحکومت تہران ‘صدررئیسی کوممکنہ طور پر مشہد میں ہی سپرد خاک کیا جائے گاوہ سال 2021 میں ایران کے صدر منتخب ہوئے 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہونے والے ابراہیم کے والد ایک بڑے دینی عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے روایت کے مطابق وہ سر پر سیاہ عمامہ باندھتے تھے جو ان کے آل رسولﷺ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے انہوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا وہ ایک انتہائی ذہین طالب علم کے طور پر جانے جاتے تھے.

ایک طالب علم کے طور پر انہوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا شاہ ایران 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہوکر ملک سے فرارہوگئے اسلامی انقلاب کے بعد ابراہیم رئیسی نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں انہیں اسلامی قوانین اور فقہ پر عبور حاصل ہے اس کے علاوہ انہوں نے مغربی قانونی نظام کو بھی پڑھا.

انہیں آیت اللہ خامنائی سے دینی وسیاسی تربیت حاصل کرنے کا موقع بھی ملا آیت اللہ حامنہ ای 1981 میں ایران کے صدر بنے ابراہیم رئیسی صرف25سال کی عمر میں تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اسلامی انقلاب کے ٹربیونلز کا حصہ تھے ان پر بطور جج بڑے پیمانے پرموت کی سزائیں دینے کے الزامات لگتے رہے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے دی جانے والی سزائیں رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتاوی کی روح سے جائزتھیں .

ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں سال2016میں آیت اللہ خامنائی نے ا نہیں ایران کی سب سے اہم مذہبی تنظیم ”آستان قدس رضوی“ کا نگہبان نامزد کردیایہ تنظیم مشہد میں آٹھویں امام حضرت امام رضاعلیہ اسلام کے مزار کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے 2017 میں رئیسی صدارت کے امیدوار بنے 2017 کے انتخابات میں حسن روحانی نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی.

ابراہیم رئیسی کو”کرپشن مخالف جنگجو“ کہا جاتا رہا ہے 2017 کے الیکشن میں 38 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے تھے 2019 میں آیت اللہ خامنائی نے انہیں عدلیہ کے سربراہ (چیف جسٹس آف ایران)کے عہدے پر نامزد کردیا اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے جو کہ 88 رکنی علما کا ادارہ ہے جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے.

بحیثیت عدلیہ کے سربراہ رئیسی نے اصلاحات نافذ کیں جس کی وجہ سے ملک میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائئیشوں کے خلاف کریک ڈاﺅن جاری رکھا جو ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف تہران دشمن طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے تھے.

ابراہیم رئیسی اپنی نجی نجی زندگی کو منظرعام پر لانا پسند نہیں کرتے اس لیے ان کے اہل خانہ کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں سوائے اس کے کہ ان کی اہلیہ جمیلہ ابراہیم تہران کی شاہد بہشتی یونیورسٹی میں استاد ہیں وہ مشہد کی جامع مسجد کے امام آیت اللہ احمد علم الہدیٰ کی صاحبزادی ہیں وہ 63سال کی عمر میں ہیلی کاپٹرحادثے میں خالق حقیقی سے جاملے.

اس وقت سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں :

Your Thoughts and Comments