ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے زیراستعمال45 سال پرانا امریکی ساختہ ”بیل 212“ ہیلی کاپٹر تھا

ایران کی فضائیہ اور بحریہ کے پاس مجموعی طور پر 10 ”بیل 212“ہیلی کاپٹر ہیں جو اسلامی انقلاب سے پہلے شاہ ایران کے دور حکومت میں امریکا سے خریدے گئے تھے. رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 20 مئی 2024 14:18

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے زیراستعمال45 سال پرانا امریکی ساختہ ”بیل 212“ ہیلی کاپٹر تھا
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20مئی۔ 2024 )ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے زیراستعمال45سال پرانا امریکی ساختہ ”بیل 212“ (Bell 212) ہیلی کاپٹر تھا جسے اب بیل ٹیکسٹرون کے نام سے جانا جاتا ہے 1960 کی دہائی کے آخر میں بیل 212 ہیلی کاپٹر تیار کیا گیاتھا جبکہ اسے1971میں فروخت کے لیے متعارف کروایا گیا تھا، یہ یو ایچ-ون ایروکوس( UH-1 Iroquois) ہیلی کاپٹر کا اپ گریڈ ورژن تھا، جو خاص طور پر کینیڈین فوج کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اس ہیلی کاپٹر کے ڈیزائن میں ایک کے بجائے 2 ٹربو شافٹ انجن استعمال کیے گئے تھے جس کی مدد سے زیادہ افراد اس ہیلی کاپٹر میں سوار ہوسکتے تھے.

(جاری ہے)

امریکی فوج کے تربیتی دستاویزات کے مطابق بیل 212 ہیلی کاپٹر امریکا اور کینیڈا نے بھی استعمال کیا اس مخصوص ہیلی کاپٹر میں پائلٹ سمیت 15 افراد کے سوار ہوسکتے ہیں 19 مئی کو تباہ ہونے والا ایرانی ماڈل سرکاری مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا. مختلف یورپی ممالک کی جانب سے پابندیوں کی وجہ سے ایران کو طیاروں کے پرزوں یا نئے طیاروں کے حصول میں کئی چیلنجز کا سامنا تھا بیل 212 ہیلی کاپٹر کو آگ بجھانے کے علاوہ مختلف قسم کے سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور فوجی یا سیکیورٹی مقاصد کے لیے ہتھیار بھی لے جانے کے قابل ہے.

بیل 212 کا سب سے حالیہ مہلک حادثہ ستمبر 2023 میں پیش آیا تھا فلائٹ سیفٹی فاﺅنڈیشن طیارہ متحدہ عرب امارات کے ساحل پر گر کر تباہ ہو گیا تھا بیل 212 ہیلی کاپٹر چلانے والی غیر فوجی تنظیموں میں جاپان کا کوسٹ گارڈ، مختلف قانون نافذ کرنے والے ادارے اور امریکا کا فائر ڈیپارٹمنٹ، تھائی لینڈ کی نیشنل پولیس اور دیگر شامل ہیں اگرچہ ایران کی حکومت کی طرف سے صحیح تعداد کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، ایران کی فضائیہ اور بحریہ کے پاس مجموعی طور پر 10 ”بیل 212“ہیلی کاپٹر ہیں جو اسلامی انقلاب سے پہلے شاہ ایران کے دور حکومت میں امریکا سے خریدے گئے تھے.

اس وقت سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں :

Your Thoughts and Comments