افغانستان کی جنگ کے تناظر میں بنائی رومانوی فلم ’ہجرت تکنیک کے لحاظ سے کمزور اور بوجھل قرار دیدی گئی

ہفتہ 23 اپریل 2016 16:28

افغانستان کی جنگ کے تناظر میں بنائی رومانوی فلم ’ہجرت تکنیک کے لحاظ سے کمزور اور بوجھل قرار دیدی گئی

کابل، اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔23 اپریل۔2016ء) افغانستان کی جنگ کے تناظر میں بنائی رومانوی فلم ’ہجرت‘ پاکستان کے کیمپوں میں مقیم افغان مہاجرین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کی پہلی پاکستانی فلمی کوشش ہے۔تاہم بکھری ہوئی کہانی، کمزور تکنیک اور کردار کے حساب سے انتہائی غیر موضوع اداکاروں نے اس فلم کو بوجھل اور دلچسپی سے عاری رکھا۔

اس فلم کے مصنف، ہدایتکار اور پروڈیوسر فاروق مینگل ہیں جنہوں نے 12 کروڑ کی لاگت سے یہ فلم تین سال کے طویل عرصے میں بنائی اگرچہ فلمانے کا کْل دورانیہ صرف 45 دن ہی کا تھا۔اس فلم کی کہانی ایک افغان مہاجر کیمپ میں جیا (رابعہ بٹ) اور مراد (اسد زمان) درمیان ہونے والی محبت ہے۔ اس کیمپ میں جس کے ارد گرد جا بجا بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اور جہاں غربت، بے سروسامانی اور موت ہر وقت منڈلاتی رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

مراد کا تعلق استنبول سے ہے اور وہ اپنی ماں کہ کہنے پر اس کیمپ کے بارے میں ایک رپورٹ لکھنے کے لیے آتا ہے جبکہ جیا ایک معالج ہے جو اس کیمپ میں رضاکارانہ طور پر مہاجرین کی طبی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔مراد کی منگنی استنبول میں ایک لڑکی ماہی (رباب علی) سے طے ہوتی ہے جبکہ جیا کا منگیتر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک دہشتگردی کے واقعے میں ہلاک ہوگیا تھا۔

اس فلم میں ان دونوں کے درمیان جاری محبت کی کشمکش کے دوران میں کیمپ میں پیش آنے والے واقعات جن میں وقتاً فوقتاً وہاں لائی جانے والی لاشیں اور مختلف بیماریوں سے بچوں کی اموات کو دکھا کر جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی المیے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہیں کہیں استنبول کی رنگ و نور سے بھری زندگی دکھا کر کہانی کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی سعی بھی کی گئی ہے۔ایوب کھوسہ نے ایک بار پھر ایک افغان کا کردار ادا کیا ہے اگرچہ مختصر ہی سہی مگر ان کے چند ڈائیلاگ نے افغان عوام کو درپیش مشکلات کا احاطہ بخوبی کیا۔تاہم کئی اعتبار سے یہ انتہائی کمزور فلم ہے۔

وقت اشاعت : 23/04/2016 - 16:28:43

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :

متعلقہ عنوان :