Chand Tasveer Butan - Article No. 2378

Chand Tasveer Butan

چند تصویربتاں - تحریر نمبر 2378

سِیکھے ہیں مۂ رُخوں کے لئے

مشتاق احمد یوسفی بدھ 20 فروری 2019

رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی نے اپنی شاعری کے تین رنگ بتائے ہیں۔

فاسقانا،عاشقانہ اور عارفانہ۔مولانا کی طرح چکی کی مشقت تو بڑی بات ہے، مرزا عبدالودود بیگ نے تو مشق سخن سے بھی ذہن کو گراں بار نہیں کیا۔

(جاری ہے)

تاہم وہ بھی اپنے فن (فوٹو گرافی) کو انھیں تین موہلک ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ ان کے یہاں یہ ترتیب بالکل الٹی ہے۔
رہا ہمارا معاملہ، تو ابھی ہم رُوسو کی طرح اتنے بڑے آدمی نہیں ہوئے کہ اپنے اوپرعلانیہ فسق وفجور کی تہمت لگانے کے بعد بھی اپنے اور پولیس کے درمیان ایک با عزت فاصلہ قائم رکھ سکیں۔
لیکن یہ واقعہ ہے کہ مرزا کی طرح ہم بھی ہلاک فن ہیں اور ہمارا ناتا بھی اس فن سے اتنا ہی پرانا ہے۔
کیونکہ جہاں تک یاد پڑتا ہے، تختی پر ‘‘قلم گوید کی من شاہ جہانم’’لکھ لکھ کر خود کو گمراہ کرنے سے پہلے ہم ڈک براؤنی کیمرے کا بٹن دبانا سیکھ چکے تھے۔
لیکن جس دن سے مرزا کی ایک ننگی کھلی تصویر (جسے وہ فیگر اسٹڈی کہتے ہیں) کو لندن کے ایک رسالے نے زیور طباعت سے آراستہ کیا، ہماری بےہنری کے نئے نئے پہلو ان پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔

مرزا جب سے بولنا سیکھے ہیں،اپنی زبان کو ہماری ذات پر ورزش کراتے رہتے ہیں۔

اوراکثر تلمیح و استعارے سے معمولی گالی گلوج میں ادبی شان پیدا کر دیتے ہیں۔
ابھی
کل کی بات ہے۔ کہنے لگے،یار! برا نہ ماننا۔ تمہارے فن میں کوئی کروٹ، کوئی پیچ، میرا مطلب ہے، کوئی موڑ نظر نہیں آتا۔
ہم نے کہا،پلاٹ تواردوناولوں میں ہوا کرتا ہے۔زندگی میں کہاں؟بولے ہاں، ٹھیک کہتے ہو۔
تمہاری عکاسی بھی تمہاری زندگی ہی کا عکس ہے۔ یعنی اول تا آخر خواری کا ایک نہ قابل تقلید اسلوب!

ہر چند کہ یہ کمال نے نوازی ہمارے کچھ کام نہ آیا۔

لیکن یہی کیا کم ہے کہ مرزا جیسے فرزانے کان پکڑتے ہیں اور ہماری حقیر زندگی کو اعلٰی تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
یعنی اسے سامنے رکھ کر اپنی اولاد کو عبرت دلاتے ہیں،تنبیہ وفہمائش کرتے ہیں۔
ان
صفحات میں ہم اپنے اسلوب حیات کی توجیہ وتشریح کر کے پڑھنے والوں کے ہاتھ میں کید ناکامی نہیں دینا چاہتے۔
البتہ
اتنا ضرورعرض کریں گے کہ مرزا کی طرح ہم اپنی نالائقی کو ارتقائی ادوار میں تقسیم تو نہیں کر سکتے ہیں، لیکن جو حضرات ہمارے شوق منفل کی داستان پڑھنے کی تاب رکھتے ہیں، وہ دیکھیں گے کہ ہم صدا سے حاجیوں کے پاسپورٹ فوٹو اور تاریخی کھنڈروں کی توکریں ہی نہیں کھینچتے رہے ہیں۔

گزرچکی ہے یہ فل بہارہم پربھی

لیکن ہم کس شمارقطارمیں ہیں۔

مرزا اپنے آگے بڑے بڑے فوٹوگرافروں کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ ایک دن ہم نے پوچھا، مرزا! دنیا میں سب سے بڑا فوٹو گرافر کون ہے؟یوسف کا رش یاسیسل بیٹن؟ مسکراتے ہوئے بولے،تم نے وہ حکایت نہیں سنی کسی نادان نے مجنوں سے پوچھا،خلافت پرحق حضرت حسین کا ہے یا یزیدلینف کا؟ اگر سچ پوچھو تو لیلیٰ کا ہے!

ادھر چند سال سے ہم نے یہ معمول بنا لیا ہے کہ ہفتہ بھر کی اعصابی شکست وریخت کے بعد اتوار کو مکمل ‘‘سبت’’مناتے ہیں۔

اور سنیچر کی مرادوں بھری شام سے سوموار کی منحوس صبح تک ہر وہ فعل اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں،جس میں کام کا ادنٰی شائیبہ یا کمائی کا ذرا بھی اندیشہ ہو۔
چھ
دن دنیا کے،ایک دن اپنا۔(مرزا تو اتوار کے دن اتنا آزاد اور کھلا کھلا محسوس کرتے ہیں کہ فجر کی نماز کے بعد دعا نہیں مانگتے۔
اورپیرکے
تصور سے ان کا جی اتنا الجھتا ہے کہ ایک دن کہنے لگے،اتوار اگر پیر کے دن ہوا کرتا تو کیا ہی اچھا ہوتا!) یہ بات نہیں کہ ہم محنت سے جی چراتے ہیں۔
جس
شغل(فوٹو گرافی)میں اتوارگزرتا ہے،اس میں تو محنت اتنی ہی پڑتی ہے جتنی دفتری کام میں۔
لیکن فوٹوگرافی میں دماغ بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اور‘ماڈل’ اگر نچلے نہ بیٹھنے والے بچے ہوں تو نہ صرف زیادہ بلکہ بار بار استعمال کرنا پڑتا ہے۔
اس سے بچنے کے لئے مرزا نے اب ہمیں چند استادانہ گر سکھا دیئے ہیں۔
مثلاً ایک تو یہی کہ پرندوں اور بچوں کی تصویر کھینچتے وقت صرف آنکھ پر فوکس کرنا چاہئیے۔
کہ ان کی ساری شخیت کھنچ کر آنکھ کی چمک میں آ جاتی ہے۔
اور جس دن ان کی آنکھ میں یہ چمک نہ رہی، دنیا اندھیر ہو جائیگی۔
دوسرے یہ کہ جس بچے پر تمہیں پیار نہ آئے اس کی تصویر ہرگز نہ کھینچو۔
فرانس میں ایک نفاست پسند مصور گزرا ہے جو نجیب الطرفین گھوڑوں کی تصویریں پینٹ کرنے میں ید طولیٰ رکھتا تھا۔
نشاط فن اسے اس درجہ عزیزتھا کہ جو گھوڑا دوغلا یا بیس ہزار فرینک سے کم قیمت کا ہو،اس کی تصویر ہرگز نہیں بناتا تھا، خواہ اس کا مالک بیس ہزارمنتا نہ ہی کیوں پیش کرے۔

مہینہ یاد نہیں رہا۔غالباً دسمبرتھا۔دن البتہ یاد ہے،اس لئے کہ اتوار تھا۔

اور مذکورہ بالا زریں اصولوں سے لیس، ہم اپنے اوپر ہفتہ وار خود فراموشی طاری کےر ہوئے تھے۔
گھرمیں
ہمارے عزیز ہم سایے کی بچی ناجیہ،اپنی سیفو (سیامی بلی) کی قدآدم تصویر کھنچوانے آئی ہوئی تھی۔
قدآدم سے مراد شیر کے برابر تھی۔ کہنے لگی،“انکل! جلدی سے ہماری بلی کا فوٹو کھینچ دیجیے۔
ہم اپنی گڑیا کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں۔ کل صبح سے بے چاری کے پیٹ میں درد ہے۔
جبھی تو کل ہم اسکول نہیں گئے۔” ہم نے جھٹ پٹ کیمرے میں تیز رفتار فلم ڈالی۔
تینو“فلڈ لیمپ” ٹھکانے سے اپنی اپنی جگہ رکھے۔ پھر بلی کو دبوچ دبوچ کے میز پر بٹھایا۔
اور اس کے منھ پر مسکراہٹ لانے کے لئے ناجیہ پلاسٹک کا چوہا ہاتھ میں پکڑے سامنے کھڑی ہوگئی۔
ہم
بٹن دبا کر 1/100 سیکنڈ میں اس مسکراہٹ کو بقاٴے دوام بخشنے والے تھے کہ فاٹک کی گھنٹی اس زور سے بجی کی سیفو اچھل کر کیمرے پر گری اور کیمرہ قالین پر۔
ہردو کو اسی حالت میں چھوڑ کر ہم نا وقت آنے والوں کے استقبال کو دوڑے۔

حج کا ثواب نذرکُروں گا حضُور کی

پھاٹک پر شیخ محمد شمس الحق کھڑے مسکرا رہے تھے۔

ان کے پہلو سے روئی کے دگلے میں ملفوف ومستور ایک بزرگ ہویدا ہوئے،جن پر نظر پڑتے ہی ناجیہ تالی بجا کے کہنے لگی

‘‘ہائے! کیسا کیوٹ سینٹا کلاز ہے!’’

یہ شیخ محمد شمس الحق کے مامو جان قبلہ نکلے،جو حج کو تشریف لے جا رہے تھے اور ہمیں ثواب دارین میں شریک کرنے کے لئے موضع چاکسو (خورد) سے اپنا پاسپورٹ فوٹو کھنچوانے آئے تھے۔

‘‘مامو جان تو بضد تھے کہ فوٹوگرافر کے پاس لے چلو۔

بلا سے پیسے لگ جائیں، تصویر تو ڈھنگ کی آئے گی۔
بڑی مشکلوں سے رضا مند ہوئے ہیں یہاں آنے پر’’ انہوں نے شان نزول اجلال بیان کی۔

ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی شیخ محمد شمس الحق صاحب کے ماموں جان قبلہ دیواروں پر قطار اندر قطار آویزاں تو یربتاں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے لگے۔

ہر تصویر کو دیکھنے کے بعد مڑکر ایک دفعہ ہماری صورت ضرور دیکھتے۔
پھر
دوسری تصویر کی باری آتی۔اورایک دفعہ پھر ہم پر وہ نگاہ ڈالتے،جو کسی طرح غلط انداز نہ تھی۔
جیسی
نظروں سے وہ یہ تصویریں دیکھ رہے تھے، ان سے

Browse More Urdu Columns