Kanwaro Ki Confernce - Article No. 2391

Kanwaro Ki Confernce

کنواروں کی کانفرنس - تحریر نمبر 2391

اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس ہے جو انعقاد پذیر ہونے جارہی ہے۔ پوراپنڈال کنواری لڑکیوں سے بھرا ہے۔ نقرئی قہقہے ہر سمت گونج رہے ہیں۔

منگل 19 مارچ 2019

اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس ہے جو انعقاد پذیر ہونے جارہی ہے۔

پوراپنڈال کنواری لڑکیوں سے بھرا ہے۔

(جاری ہے)

نقرئی قہقہے ہر سمت گونج رہے ہیں۔

عطر اور سینٹ کی خشبو سے فضا معطر ہے۔لباس کی رنگا رنگی عجیب دلکش منظر پیش کر رہی ہے۔
بعض لڑکیاں اس قدر اور چست لباس میں ملبوس ہیں کہ ان کا فرش پر بیٹھنا دشوار ہو رہا ہے۔
ساڑی اور غرارے میں ملبوس لڑکیاں انہیں بڑی پسندیدہ نظر سے دیکھ رہی ہیں........ یہ ٹیڈی گرلز تہذیب نو کی نمائندہ جو ٹھہریں...... جب لڑکیوں کے شور و غل اور قہقہے انتہائی عروج کو پہنچ جاتے ہیں تو ایک صاحبزادی مائک پر تشریف لاکر یوں لب کشائی فرماتی ہیں:۔

‘‘بہنو! بن بیاہیوں کی کانفرنس کی کاروائی شروع ہونے جارہی ہے اگر چہ خلاف توقع بہنوں کو زحمت انتظار اٹھانی پڑی ہے جس کے لئے معذرت خواہ ہوں..... میں دیدہ دلیر بہن کا نام اس کانفرنس کی صدارت کے لئے پیش کرتی ہوں۔

آپ کی کرتوتوں سے کون واقف نہیں بھلا۔ آپ وہ مشہور و معروف ٹیڈی گرل ہیں جن پر راہ چلتے انگلیاں اٹھتی ہیں۔
کالج کا کونہ کونہ آک کی خوش مذاقی کا گواہ ہے۔
آپ کی ہستی اس نقطۂ نگاہ سے سبھی باعث فخر ہے کہ آپ کو بوائے فرنڈ بنانے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔
میں امید کرتی ہوں کہ دیدہ دلیر بہن ہماری استدعا کو شرف قبولیت بخش کر کانفرنس کی کاروائی جلد شروع کرنے کی زحمت گوارہ فرمائیں گی۔

دیدہ دلیر صاحبہ عشوۂ و انداز کرسئ صدارت سنبھالتے ہی فضا میں نغمے بکھیرتی ہیں۔

‘‘میں اس لائق تو نہ تھی کہ صدارت جیسے بار گراں کی متمحل ہو سکوں۔

لیکن جب ازراہ خلوص اس شرف سے نوازا گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے کو اس کا اہل نہ سمجھوں..... لیجئے کانفرنس کی کاروائی شروع کئے دیتی ہوں...... سب سے پہلے بہن فتنۂ دوراں سے گزارش ہے کہ تشریف لائیں اور اپنے خیالات زریں کا اظہار فرما کر ہمیں اور سامعین کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
’’

فتنۂ دوراں کالج کی ہونہار طالبہ ہیں۔ بڑی ذہین و فتین اور تیز و طرار۔

یہ صاحبزادی جمپر اور غرارہ زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ مگر دوش مر مریں اوڑھنی سے بےنیاز ہے۔
دو بڑی بڑی چونٹیاں دونوں شانوں پر ہیں جن کی لمبائی قد کی لمبائی سے شاید ہی کچھ کم ہو تو ہو۔
موصوفہ سامنے آتے ہی ایک فلمی گیت الاپتی ہیں۔

تم ہم کو بھول جاؤ اب ہم نہ مل سکیں گے

جی ہاں، یہ فلمی گیت محض تفریحاً پیش کیا گیا ہے۔

لیکن اس کے زیر اثر پنڈال میں پن ڈروپ سائنس کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ بہنیں کانفرنس کی کاروائی سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہیں.... تو پیاری بہنو! بن بیاہیوں کی کانفرنس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالنے کے چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس پلیٹ فارم پر ہم سبھی ایک ہی جذبہ کے تحت اکٹھے ہوئے ہیں۔
یہ غورو خوض کرنے کے لئے کہ ہماری حالت اس قدر ناگفتہ بہ کیوں ہے اور کیا وجہ ہے کہ ہمارا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جارہا ہے۔
مجھےاس سےانکار نہیں کہ ہمارا یہ سن و سال نافہمی، ناعاقبت اندیشی اور الھڑپن کا ہے۔
ہمارے خیالات میں نہ پختگی ہے اور نہ تجربہ کاری کےعناصر ہی۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔
یا اچھی اور بری باتوں کی تمیز کا فقدان ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہماری بے زبانی سے جو کنوار پنے کا طرۂ امتیاز ہے، بے جا فائدہ اٹھایا جائے۔
سبھی
بہنیں واقف ہیں کہ رواجاً اور رسماً شادی بیاہ کے معاملہ میں ہماری پسند اور ہماری مرضی کا کوئی دخل نہیں۔
بلکہ ہمارا زبان ہلانا ہی ہماری دیدہ دلیری اور بے باکی تصور کی جاتی ہے۔
مقام
حیرت ہے بہنو کہ جس کی شادی ہونےجارہی ہو،اسی کےمنہ پرتالےلگائےجاتے ہیں۔
اشارتاً
بھی کچھ کہنے کا حق نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ مرضی کے خلاف دو بول پڑھوا کر والدین اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں چاہےاس سبکدوشی کی جدو جہد میں کالج کی فضا میں پروان چڑھنے والی لڑکیاں کسی ایسےفرسودہ خیال کےپلےکیوں نہ پڑ جائیں جن کی قربت پرجہنم کوترجیح دی جا سکتی ہو۔
لیکن ہماری اس بے بسی اورحرماں نصیبی پرکوئی آنسو بہانے والا نہیں۔
ہمارے
حسین اور سنہرے خواب شاذو نادر ہی شرمندۂ تعبیر ہوتے ہیں۔
انتہائے ستم یہ ہے بہنو کہ اگر ہم کالج کے کسی قبول صورت لڑکے کو اپنا بنانا چاہیں تو ہرچہار جانب سے ہم پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔
اور ہم اپنے ارادے میں اتفاق ہی سے کامیاب ہوتے ہیں۔
مگر
سماج کی دو رنگی ملاحظہ ہو کہ ان چھوکروں کو عام چھوٹ ہے کہ وہ اپنی پسند کی لڑکیوں سےعہد و پیماں باندھتے پھریں۔
والدین پر دباؤ ڈال کر اپنی پسندیدہ لڑکی کو شریک زندگی بنائیں۔
لیکن سارے قاعدے اور قوانین ہیں تو ہم بے بس، مجبور اور بے زبان کے لئے۔
گویا لڑکیاں پروان چڑھائی جاتی ہیں صرف اس لئے کہ جوان ہو کر کسی کے گھر کی رونق قرار پائیں۔
اور تا عمر کسی کے حکم کی بجا آوری ہی ان کاحاصل زندگی ہو۔
بہنو! ہمارا لکھنا پڑھنا اور اعلی تعلیم حاصل کرنا صرف بھاڑ جھونکنے کے لئے ہے۔
کیونکہ ادھر ہم سن بلوغ کو پہنچے نہیں کہ باواجان پر ہمارے لئے ایک شوہر خریدنے کا بھوت سوار ہوتا ہے تلاش و تجسس کے دوران کسی نہ کسی قیمت پر ایک الو کا پٹھا مل ہی جاتا ہے۔
ادھر اپنا گھر پھونک کر اس نامعقول کو انہوں نے اپنی فرزندی میں قبول کیا نہیں کہ ہمارے لکھنے پڑھنے پر پانی پھرا۔
ہمیں اپنی ذات پر بھی اپنا اختیار نہیں رہتا۔ ہماری زندگی صورت پر کار ایک ہی نقطہ کے گرد گردش کرنے لگتی ہے۔
یعنی چولھا پھونکنا، بچے کھلانا، حکم کی تعمیل اور ناز برداریاں......لعنت ہے ہماری زندگی پر۔
تف ہے ہمارے کنوارپن پر۔ اور پھٹکار ہے ہماری روشن خیالی پر۔
’’

اب بے باک بانو تشریف لائیں۔

‘‘بہنو! ابھی ابھی فتنۂ دوراں نے جن کئی خیالات کا اظہار فرمایا ہے وہ دراصل ہم سبھی بن بیاہیوں کے حالات اور خیالات کی صحیح ترجمانی ہے۔

ان پر مزید روشنی ڈالنے کی کوشش تضیع اوقات کو راہ دینا ہے۔
وقت کی تنگی کے پیش نظر نہ تو اس کی گنجائش ہے اور نہ چنداں ضرورت۔
اس لئےمیں صرف اپنےذاتی اظہارخیال پراکتفاکروں گی....... یعنی یہ مرد نگوڑے جو ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر روز اول سے ہمارے سرتاج بنتے چلے آرہے ہیں اور ہم ان کےتابع فرمان،تو اس کی کہیں انتہا بھی ہے یا یہ چکر قیامت تک یوں ہی چلتا رہے گا۔
زمانہ کہاں سے کہاں نکل گیا۔ لوگ چاند پر پہنچ رہے ہیں۔
مشرق کا سرا مغرب سےملایا جارہا ہے۔ روئے زمین کا نقشہ بدل رہا ہے۔
لیکن ہم ہیں کہ سابق دستور مردوں کا کھلونا۔ بچہ پیدا کرنے کی مشین اور کسی اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلی ہیں سو ہیں۔
اور اس فرسودہ ڈھکوسلےسےنجات کی صورت نظر ہی نہیں آتی۔جب کہ دو بول پڑھوا کر ہمیں کسی ایسےاجنبی کےحوالہ کیا جاتا ہے جس سےکبھی کی جان پہچان نہیں۔
اس پریہ دباؤ کہ اس بھڑوے کو اپنا سرتاج اور خدائے مجازی سمجھیں......بہنو! ہم اپنے والدین کے ظلم و ستم کا بہت شکار

Browse More Urdu Columns