Lockdown - Article No. 2580

Lockdown

لاک ڈاون - تحریر نمبر 2580

جوں جوں منزل قریب ہوتی جا رہی تھی، عقیدت کی پھوار اس کی آنکھوں میں چمک کی صورت پھوٹ رہی تھی، کچھ بعید نہیں تھا کہ سفر کی طوالت اس کے معصوم سے دل کو کچوکے لگا کر زخمی کر دے

اسحاق عباس پیر 15 جون 2020

جوں جوں منزل قریب ہوتی جا رہی تھی، عقیدت کی پھوار اس کی آنکھوں میں چمک کی صورت پھوٹ رہی تھی، کچھ بعید نہیں تھا کہ سفر کی طوالت اس کے معصوم سے دل کو کچوکے لگا کر زخمی کر دے اور جو رقت اس پر طاری تھی آنسووں کے سیلاب میں بدل جائے۔
گاڑی جب چوک سے بائیں جانب مڑی تو سنہری حروف میں جگمگاتا ہوا نام، وہ نام جس کو دیکھنے کی تمنا نے کتنے ہی دن اسے الجھائے رکھا، ماضی کی ان حسین یادوں نے کتنی ساعتیں اس کو کھلی آنکھوں‌ سپنے بننے پر مجبور کئیے رکھا، اس نام کو اپنی نگاہوں کے سامنے پا کر وہ بےخود سی ہو گئ، اسے اپنی آنکھوں پر چنداں‌ یقین نہ آتا اور وہ ان لمحوں کو بھی خواب گردانتی اگر ڈرایور گاڑی روک کر نہ کہتا  کہ "بی بی جی آپ ادھر اتر جائیے آگے کافی رش ہے"‌- اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ منظر، وہ عمارت، وہ نام کسی طویل اور صبر آزما تیزو تند آندھیوں اور ابر آلود موسموں کے بعد ابھرنے والے پرکشش سورج کی مانند اپنی بھرپور آب و تاب کے ساتھ ایک بار پھر دمک رہا ہو۔

(جاری ہے)


اس کی بھرپور آنکھوں نے وہ تمام مناظر اس ایک عرصے کے بعد جب دوبارہ دیکھے تو آنسووں کی ایک لڑی جس میں خوشی اور آزادی کی آمیزش تھی، اس کے رخسار سے پھسلنے لگی اور وہ کسی ننھے بچے کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر پلٹ جھپٹ کر آس پاس کے نظاروں سے ایسے لطف اندوز ہونے لگی جیسے وہ شاہراہیں، وہ گاڑیاں، وہ دکانیں، وہ سب کچھ کسی طلسمی دنیا کے شاہکار ہوں، اور وہ خود کبھی بہت پرانے زمانوں میں ان کا حصہ رہی ہو اور افتخار عارف کا مشہور مصرع اس کی زبان پر رقص کرنے لگا -
~ یہ بستی جانی پہچانی بہت ہے
جب سے لاک ڈاون کے خاتمے کا اعلان ہوا تھا یہ پہلی بار تھی کہ اس نے گھر سے باہر قدم رکھا تھا۔
سخت کرفیو اور باہر پھیلتی ہوئ بیماری کے خوف نے اس کی شدید ترین خواہشات پر ایک عرصہ سے پہرے بٹھا رکھے تھے۔ اس لیئے آج جب کہ اس کے انتظار کی یہ گھڑیاں ختم ہونے کو تھیں وہ اپنے جزبات کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بلاوجہ ہی کھل کھلا کر ہنس رہی تھی۔ گاڑی جونہی اس جگمگاتی عمارت کے سامنے رکی وہ بے اختیار اس سے اتری اور تیز قدموں سے چلتی ہوئ عمارت کے بلند و بالا بیرونی دروازے کی جانب لپکی اور شدت جزبات میں آکر اس کے مرمریں فرش کو کسی عقیدت مند کی مٹی سے عقیدت کی طرح چومنے لگی اور اس کی رقت آمیز سسکیاں زار و قطار رونے میں تبدیل ہوتی گئیں اور وہ روتے روتے بیہوش ہوگئ۔

آج مہینوں بعد اس کے ہر دلعزیز شاپنگ پلازہ کے کھل جانے کی خوشی اور اس جگمگاتے ہوئے بلند و بالا مال(mall) کی بہال ہوتی چکاچوند اور ایک بار پھر خریداری کی مردہ ہوچکی خواہشات کے زندہ ہوجانے سے اس کے اعصاب پر بہت گہرا اثر پڑا تھا۔

Browse More Urdu Columns