Afwahon Ke Lateefe - Article No. 2308

Afwahon Ke Lateefe

افواہوں کے لطیفے - تحریر نمبر 2308

خداکی ماراس کھوجڑے پیٹی لڑائی کو۔ نئےکےآباکوخبرنہیں ہوکیاگیا ہےکسی نےکچھ کھلادیاہے

جمعہ 16 نومبر 2018

قیصرہ کےبچےکوسنےمیں آتےہیں

خواجہ حسن نظامی

خداکی ماراس کھوجڑے پیٹی لڑائی کو۔

نئےکےآباکوخبرنہیں ہوکیاگیا ہےکسی نےکچھ کھلادیاہےیاکچھ کردیاہےیا دشمنوں کےدماغ میں کچھ خلل آگیا ہے۔

(جاری ہے)

لڑائی
کے پیچھے ایسے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں کہ کسی ارمان ادھر سے خیال نہیں ہٹتا۔
لاکھوں عورتیں بیوہ ہوگئیں۔بےشماربچےیتیم ہوگئے۔گھربارجڑوں سےکھد گئے۔ لیکن ننےکےابا کےسرسےلڑائی کا جن نہ اترا۔
نوج
ایسےمردودے بہی کس کام کے۔مجھاتےسمجھاتےسرچکرا گیا۔ مگران کےکان پرجوں تک نہ چلی۔

خدارکھےمیرےجوان جمان لالوں کوخواہ مخواہ ساری دنیاکےکوسنےمیں آتے ہیں۔

بھاڑمیں جائےیہ بادشاہی چولھےمیں جائےیہ تخت وبخت۔ مجھےدو روکھی سوکھی روٹیاں بس ہیں۔
میں
کل کل کی بادشاہی ایک دم کوبھی نہیں چاہتی۔ میرے بچے جئیں بیسا سوبرس۔
بس یہی میری بادشاہی ہے۔

قیصرہ دل ہی دل میں یہ باتیں کررہی تھی کہ سامنےسےولی عہد آتادکھائی دیا اور دور سےبولاامان امان بھوک امان روٹی۔

قیصرہ نےولی عہد کی چٹ چٹ بلائیں لیں۔ اورکہا چلوبیٹا۔

دسترخوان بچھا ہوا ہے ذرا تمہارے باواجان کو بلالوں سب مل کرکھانا کھانا۔

ولی عہد نےٹھنک کرکہا۔ نہیں بی ہمیں تو ابھی کھلادو۔ ابا جی خبرنہیں کب تک آئیں گے وہ تو لڑائی کے کاغذ پڑھ رہے ہیں۔

ولی عہد کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ قیصرہ کی چھوٹی لڑکی بسورتی ہوئی آئی اورماں کےلہنگے کو پکڑ کر کہا۔

اری بی آج روٹی دوگی۔ یا بھوکا ماروگی۔

قیصرہ بچوں کو لےکردالان میں گئی۔

کھانےپربٹھایا۔ اورلپکی ہوئی قیصرکے پاس پہنچی۔ قیصراس وقت اپلوں کی دھونی رمائےایک کھوپڑی سامنےرکھے کچھ منترپڑھ رہا تھا۔
کالےماش
آگ میں ڈالتا جاتا تھااورسیندورکےٹیکے کھوپڑی میں لگارہا تھا۔

قیصرہ یہ تماشہ دیکھ کر پہلے تو بہت ڈری۔ مگر پھر ذراجی کڑاکر کے بولی:۔

اے تم کیا کررہے ہو،چلتے نہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے۔ قیصر نےایک ہوں کی اور ہاتھ کے اشارے سے کہا تم چلو بچوں کو کھلاؤ میں ابھی آتا ہوں۔

قیصرہ بولی۔ بس ہوں۔ ہاں ہو چکی۔ لونا چماری کوبلاچکے۔

دو نوالےچل کر کھلاؤ۔ بچوں کوکھلاؤ جو بھوک کےمارے بلبلائےجاتے ہیں۔

قیصر نےیہ سنکر تیوری چڑھائی۔ اور زور سےدھتکارنے کی ایک ہوں کی۔

بےچاری قیصرہ کانپ گئی اورآنکھوں میں آنسوبھرےوہاں سےالٹی پھری۔

راستہ میں اس نے کہا ارے میری تو قسمت پھوٹ گئی۔
خدا کی سنواراس موئے پادری کو جس نےاس دیوانےمجذوب سےمیرا نکاح پڑھایا۔
میں کیاجانتی تھی کہ میری تقدیر ایسے پتھر پڑجائیں گے۔

یہ کہتی ہوئی دسترخوان پرآئی اورروٹی کا ٹکڑا توڑ کرکھانےلگی۔

اتنے میں قیصر بھی آیا اور چپ چاپ کھانا کھانے لگا۔

قیصرہ سے بات کی نہ بچوں سے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد قیصرہ بولی۔

اے دیکھنا میں تم سےایک بات کہوں۔اگرخفا نہ ہو۔ میراتوتمہارے مزاج سےناک میں دم آگیا ہے۔

بات کہتےکلیجہ لرزتا ہے۔

قیصر نے گردن موڑ کر کہا کیا بکتی ہو۔

منہ سے پھوٹ چکو۔ جو بکنا ہے بکو۔

قیصرہ سہم گئی اور کہا اسی واسطے تو میں تمہارے منہ نہیں لگتی۔

بات کہنا ظلم ہے۔ اٹھے پھاڑ کھانے کو۔

قیصر نے نرمی سے کہا۔

کہو گی بھی آخر کیا بات ہے۔

قیصرہ نے کہا میں اس موذن لڑائی کے واسطے کہتی تھی۔

میرا تو دم سناٹوں میں جاتا ہے۔دیکھو اس بھونچال کا انجام کیا ہوتا ہے۔
اوتقدیر کیا کیا چکردکھاتی ہے۔ تمہیں تولڑائی بھڑائی میں مزہ آتا ہے۔
اورمیرے بچے مفت میں کوسنے کھاتے ہیں۔

قیصرنےابھی کچھ جواب نہ دیا تھا۔

کہ ولی عہد بولا۔ کہ ہاں ابا ابا جی سچ تو کہتی ہیں۔
آپ ناحق دنیا میں خون خرابا کرتے ہیں۔ ساری دنیا سے آپ کیوں کر جیت سکیں گے۔
خدا دیکھا نہیں عقل سے پہچانا۔

قیصریہ سن کرمسکرایا۔ اوراپنی جیب میں سےایک بکس نکالا اور اس کو کھول کر بکس کے اندر ایک جزدان تھا۔

اس کو کھولا تو ایک اور جزدان نکلا۔ اس کو کھولا تو تیسرا نکلا۔
غرض اسی طرح سے سات جزدانوں کے اندر سے ایک آئینہ برآمد ہوا۔
قیصر نے اس آئینہ کو دھوپ کے رخ چمکایا۔ تو یکایک سامنے ایک باغ پیدا ہوگیا۔
قیصرہ اور ولی عہد اس باغ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
اس
کے بعد قیصر نے اس آئینہ کو پھر چمکایا۔ تووہ باغ جل کرخاک ہوگیا۔

قیصر یہ تماشہ دکھا کر بولا دیکھا میرے منتروں کو۔ جب یہ آئینہ میرے پاس ہے تو میں کوسنے کاٹنے کی کیا پروا کروں۔

میرا کسی کے کوسنے سے بال بیکانہ ہوگا۔

قیصرہ اور ولی عہد ششدر بت بنے کھڑے تھے اور کہتے تھے کہ بے شک اس جادو کا جواب دنیا میں کہیں نہیں۔

یہ آئینہ کی افواہ دلی میں بہت مشہورہوئی تھی۔ اوراس کےاورکچھ اورحواشی بھی تھےجن کا لکھناعبث تھا۔

لہٰذاصرف آئینہ کی افواہ پرمیں نےدہلی کی مستورات کے ولولہ کا رنگ چڑھادیا۔
اورسمجھ
لیا کہ وہ قیصرجرمن وقیصرہ نہیں دہلی کےکوئی زرکوب یا روزگارکا خاندان ہوگا۔
جن
کی حالت پریہ خیال تصنیف کیا گیا۔ اور سننے والوں کو اس نے مزہ دیا۔

Browse More Urdu Mazameen