Sag E Laila - Article No. 2053

Sag E Laila

سگِ لیلیٰ - تحریر نمبر 2053

کتے پر بہت سے لوگوں نے مضامین لکھے ہیں لیکن کسی کتے نے انسان پر کوئی مضمون لکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی (شاید وہ انسان کو اس قابل نہیں سمجھتے)۔۔۔

جمعہ 29 اپریل 2016

امین گھانی والا:
کتے پر بہت سے لوگوں نے مضامین لکھے ہیں لیکن کسی کتے نے انسان پر کوئی مضمون لکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی (شاید وہ انسان کو اس قابل نہیں سمجھتے) کئی نامور کتوں پر لکھا گیا ہے کئی بد نام کتوں پر تحریر کیا گیا ہے لیکن سگِ لیلیٰ پر قلم اٹھانے کی سعادت صرف ہم کونصیب ہوئی ہے۔
ویسے ہم لیلیٰ مجنوں کے قلمی مقروض ہیں اس لیے لیلیٰ کے کتے پر مضمون باندھ کر یہ قرض اتاریں گے لیکن اس میں لیلیٰ بھی ماڈرن ہے اوراس کا کتا بھی نئی نسل کا ہے۔

ماڈرن لیلیٰ کا جنم ایک نو دولتیے خاندان میں اماوس کی رات میں ہوا اور پیدائش کے وقت اس کی کالی صورت دیکھ کر اس کے ممی اور ڈیڈی نے اس کا نام لیلیٰ رکھا اور مزید بچوں کو نہ پیدا کرنے کی قسم کھائی ۔

(جاری ہے)


ایک دن لیلیٰ سرکس دیکھنے گی تو ہاتھی سے بہت متاثر ہوئی اورڈیڈی سے ہاتھی پالنے کی فرمائش کر دی چنانچہ ڈیڈی نے اسے ہاتھی کے بجائے کالے رنگ کاکتا دلا دیا اور کہا یہ بڑا ہو کر ہاتھی بن جائیگا۔


کتے کے ساتھ ساتھ لیلیٰ بھی بڑی ہوتی گئی ایک کی عقل برھتی گئی ایک کی کم ہوتی گئی ۔ کتے نے لیلیٰ کی بہت سی عادتیں اپنا لیں اور لیلیٰ نے کتے کی بہت سے عادتیں پال لیں ۔
اب ہم ماڈرن اور قدیم لیلیٰ کا تقایلی مقابلہ کر کے دیکھتے ہیں۔ دونوں کا قدرتی رنگ کالا، یہ موٹی وہ دبلی ۔ یہ ٹھگنی وہ لمبی، یہ بھینگی یقینا وہ بھی بھنیگی ہوگی اس لیے اس کو کتے سے عشق اس کو مجنوں سے محبت، پھر یہ بھی ناقص عقل وہ بھی ناقص عقل۔
لیلیٰ کے تقایلی مقابلے کے بعد ضروری ہے ان کے کتوں کے اوصافِ حمیدہ کا مقابلہ کیا جائے۔
یہ ماڈرن شہری وہ دیہاتی، یہ سیاہ وہ سفید،یہ کانا وہ بہرہ، یہ لنگڑہ وہ لولا، یہ نکٹا تو وہ کن کٹا،یہ بے نسل تو وہ اعلیٰ نسل لیکن ایک چیز جو مشترک ہے وہ یہ کہ دونوں ہی بھونکنے والے کتے ہیں۔
لیلیٰ کی زندگی میں چند ماہ سے لے کر چند گھنٹے تک کئی مجنوں آئے لیکن سب دم دبا کر بھاگ گے فقط کتا ہی تھا جو ہڈی خاطر دم ہلاتا تھا۔
لیلیٰ بھی اسے ہر وقت اپنی بھینگی بھینگی نظروں کے سامنے ہی رکھنا چاہتی تھی کہ ایک رات وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا تمام شب آوارگی میں گزار کر جب پوپھٹے تھکن سے چور گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو لیلیٰ نے اسی قدم پر ایسا ڈنڈا دے مارا کہ وہ لنگڑا ہو گیا۔ اس حرکت پر تحفظ حیوانیات والوں نے کتے کی ذاتی زندگی میں لیلیٰ کے دخل کو بیجا قرار دیا۔
سگِ لیلیٰ اصلاح معاشرہ پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں مختلف حادثات سے گزرا ہے مثلا ایک دن خاتون کتے کی گلی میں غلط گاڑی چلا رہی تھی کتے سے یہ نہ دیکھا گیا اصطلاح کی خاطر س پر بھونکا تو محرمہ بدگ گئی اور ایک گڑھے میں گاڑی گرا دی جس سے ایک دروازہ ازخود کھل کر سیدھا کتے کے سیدھے کان کو چیرتا ہوا نکل گیا اس طرح وہ کن کٹا ہو گیا، اس پر لیلیٰ نے کتے کی جانب سے اس خاتون پر ہاجانے کا دعویٰ کر دیا۔

کتے کے محلے میں ایک دن ایک چوراورچار سپاہی چھپم چھپائی کھیل رہے تھے جس میں سپاہی چھپے ہوئے تھے اور چور بہادر بن کر ان کو تلاش کر رہا تھا۔ کتے سے سپاہیوں کا یہ بزدالانہ رویہ نہ دیکھا گیا چنانچہ اس نے ایک سپاہی کی پتلون کو منہ میں لے کر اس زور سے کھنیچا کہ وہ اتر گئی سپاہی کو پتلون کی شرم نہیں تھی بلکہ چور کا خوف تھا ۔ چنانچہ اس نے کتے پر بندوق کے بٹ سے وار کیا جس سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی اس طرح وہ کانا ہو گیا۔

ان پے درپے حادثات کی وجہ سے لیلیٰ نے کتے کو کتون کے مقابلے میں اس لیے نہیں بھیجا کہ اسے نظر لگ گئی ہے حالانکہ آخری مقابلے میں اس کا 100 کتوں میں سے پورا 100 واں نمبر آیا تھا نہ ایک کم نہ ایک زیادہ پھر بھی لیلیٰ نے انتظامیہ پر اقربا پروری کا الزام دھردیا تھا۔
ان حادثات سے ایک عقلمند جو سبق سیکھتا ہے وہ اس نے بھی سیکھا چنانچہ اب وہ ہر گز اس شخص پر نہیں بھونکتا تھا جو اس پر بھونکتا ہے ، بلکہ اب یہ صرف اس پر ہی آواز کستا ہے جو خاموشی سے جار رہا ہوتا ہے یا پھر خاص خاص موقعے پر ہی بھونکتا ہے مثلاََ شادی مرگ، کرفیو، فسادات ، چھاپا یا مخبری سے صرف دو گھنٹے بعد۔

اس کتے کے عادات واطوار نہایت اعلیٰ تھے وہ بد کردار لوگوں کو مثلاََچوروں اور ڈاکووٴں کو نظریں اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا بلکہ اپنی مالکن کے حکم کی تعمیل میں شریف پڑوسیوں کے اخبار، گیندیں اور مرغے حاضر خدمت کیا کرتاتھا۔
عام طور پرکتے کا شجرہ نصب دیکھا جاتا ہے کہ یہ ملکو وکٹوریہ کی نسل کا ہے یا ہٹلر کے ساتھ جس محبوبہ اور کتے نے خودکشی کی تھی اس سے ہے یانپولین کی قید تنہائی کا ساتھی؟ یا دھوبی کا کتا؟
لیلیٰ کا کتا بے شجرہ سہی بے وفا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی دم ٹیڑھی نہیں بلکہ جلیبی کی طرح گول ہے گوکہ اسے ٹھیک کرنے کے لے لاکھ جتن کئے گئے پھر بھی گول ہی گول رہی۔

یہ کتا اپنی مالکن کی طرح بے حد مصروف زندگی گزارنے کا عادی ہو گیا تھا مثلا کبھی کھانا، کبھی پینا تو کبھی ناشہ کرنا پھر کبھی گھر کے اندر سونا تو کبھی گھر کے باہر لیٹنا پھر کبھی چھت پر قیلو لے کرنا گویا کہ دم کھجانے کی بھی اس کو فرصت نہیں ملتی تھی تھک کر چور ہو جاتا ہے بقول شاعر:
”نہ کئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے
پھر اس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے“
لیلیٰ کو اپنے دیگر افراد خانہ سے بھی زیادہ کتے سے پیار تھا اس لیے وہ اس کی غذا میں خصوصی اہتمام و اختیاط برتتی تھی کتے کو درآمد شدہ بسکت ،ٹین ڈبے کی خوراک اور گھر کے پکوان کھلانے سے پہلے خود اس کی آدھی غذا چکھ کر تسلی کرلیتی تھی اور اسی محبت سے کتا بھی پیش آتا تھا۔
وہ بھی مالک کی نصف غذا چکھ لیتا تھا۔ ان ہی احتیاط دراحتیاط کے پیش نظر کتے کو سوئٹ ڈش سے محروم رکھا گیا تھا کہ مبادہ ذیابیطس نہ ہو جائے جبکہ کتے کو میٹھی چیز کھانے کا بہت چکسا تھا جہاں ملتی جیسی ملتی یپٹ میں ڈال لیتا۔ بلدیہ والوں نے آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے زہریلے گلاب جامن ڈالے ہوئے تھے بس یہی اس کی زندگی کا آخری گلاب جامن ثابت ہوا۔
لیلیٰ کی زندگی میں پہلے مجنون کے بعد کبھی دوسرا مجنون نہیں آیا تھا ۔ہماری ماڈرن لیلیٰ کی زندگی میں بھی یہ پہلا کتا تھا یہی آخری کتا رہا۔ اس کے بعد اس کی ویران زندگی میں کوئی نیا کتا نہیں آیا۔
”دیوانہ تھا مر گیا ویرانے پہ کیا گزری “

Browse More Urdu Mazameen