Episode 2 - Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed

قسط نمبر 2 - شاہین کا جہاں اور۔۔ (اقبالیات) - شاہدہ شاہین شہید

اقبال کا پیغام علامہ اقبال ہمارے قومی اور ملی شاعر ہیں۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان کا تصور پیش کیا بلکہ اپنے اسلامی افکار و نظریات سے مسلمانانِ ہند اور مسلمانانِ عالم کو متفق و متحد کرنے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے عالمِ اسلام اور مغربی دنیا کے عظیم مفکرین کی فکر کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور پھر نہایت تدبر وحکمت کے ساتھ اسلامی نظریات کی اشاعت کی۔
ان کا کلام پڑھنے سے نہ صرف مسلمان کے جذبہٴ حریت کو تقویت ملتی ہے بلکہ دل عشق رسول ﷺ سے بھی سرشار ہوتا ہے ۔ اقبال عظمت ِ انسانی کے قائل ہیں۔ ان کے کلام میں انسان اور انسانیت سے محبت ملتی ہے ۔ ان کے بقول اللہ تعالیٰ نے اپنی نیابت کا اہم اور مشکل ترین فریضہ سر انجام دینے کے لیے کراہٴ ارض پر انسان کا نتخاب کیا۔ لہٰذا یہ انسان ہی ہے جو اس سر زمین پر خیر کی ترجمانی کر کے اور اس فریضہٴ حیات سے بطریق احسن عہدہ برآء ہو کر فرشتوں سے زیادہ اللہ کا مقرب ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اقبال کے نزدیک دینِ اسلام ہی اعلیٰ انسانی قدروں کا علمبردار ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل اور حسب و نسب ہر انسان کو دنیا میں عزت سے جینے کا حق عطا کرتا ہے۔ اس مذہب کے مطابق انسان کا نصب العین محبت ، خدمت اور عبادت ہے۔ اعلیٰ انسانی قدریں دیانت ، انصاف اور سچائی ہیں جن سے انسانیت کو فروغ ملتا ہے۔ ان کے سارے کلام میں یہ پیغام بار بار ملتا ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا یہی مقصود ِ فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی تو رازِ کن فکان ہے ، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوعِ انسان کو اخوت کا بیان ہو جا محبت کا پیغام ہو جا یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی تو اے شرمندہٴ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا مصافِ زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پر نیاں ہو جا اقبال چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمان متحدو متفق ہو کر ایک مضبوط اسلامی بلاک کی بنیاد رکھیں ، اپنی تعلیم اور معشیت کو بھی جدید اسلامی خطوط پر استوار کریں اور اپنی اسلامی تہذیب و تمدن کا احیاء کر کے دنیا سے باطل قوتوں کی بربریت اور وحشت کا قلع قمع کریں ان کے خیال میں جو قومیں تعلیم اور ترقی میں میں پیچھے رہ جاتی ہیں انہیں کی معشیت کمزور ہوتی ہے اور مادی قوتیں انہی کا استحصال کرتی ہیں لہٰذا ملتِ اسلامیہ کی اولین ضرورت اتحاد اور تنظیم ہے ۔
وہ کہتے ہیں # ربط وضبط ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے ابتک بے خبر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لیکر تاباخاکِ کا شغر دوسری اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور طریقہٴ تدریس میں اجتہاد سے کام لیا جائے اور خود کو غلامانہ ذہنیت سے آزاد کر کے اپنی مِلّی حریت کے شایان شان نصاب تعلیم مرتب کیا جائے اور اس کے رہنما اصول قرآن اور رسالت سے اخذ کیے جائیں ۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں۔ ” دوسروں کے مال و ملک پر غاصبانہ تصرف کی کوشش ، توسیع پسند سیاسی حکمت عملی ، ایشیائی ملکوں کے معاملات میں مداخلتِ بے جا، خصوصاً مسلم ممالک ایران ، ترکی ، بلقان اور عربوں کو غلامی کے پنجوں میں جکڑ نے کی کوشش ایسی باتیں تھیں جو اقبال کو اہل مغرب سے روز بروز متنفر کرتی جا رہی تھین اور چونکہ یہ سب کچھ نتیجہ تھا مغرب کے مادہ پرستارانہ نظام تعلیم کا اس لئے اقبال تعلیم ہی کو مغربی تہذیب کی ساری خرابیوں کی جڑ خیال کرتے تھے “ اقبال اس کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف ایک اور جگہ کہتے ہیں ۔ یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات؟ جو قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم حد اسکے کمالات کی ہے برق و بخارات اقبال نظامِ تعلیم کو علم و فکر سے زیادہ جذب و شوق اور تخمین وظن سے زیادہ عشق و یقین کے جذبوں سے معمور ، تعصب و تنگ نظری سے پاک ، احترام آدمیت اور کشادہ قلب و نظر سے ہم آہنگ اور طمع و توسیع پسندی کی بجائے اخوت و محبت کی بنیادوں پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں جو مادی وسائل کے ساتھ ساتھ باطنی شعور و آگہی کی قوت سے بہرہ مند کرے۔
اقبال کو نظام تعلیم میں ذہن و قلب ، خبر و نظر ، عقل و عشق اور جسم و روح کا عدم توازن کھٹکا ہے اور وہ اس میں توازن پیداکرنا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان روحانی قدروں کی محافظت کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون سے بھی پوری طرح مسلح ہوں ایک ایسا نظام تعلیم جس میں تعلیم و تربیت پا کر ایک فرد دل و دماغ کی جملہ قوتوں کے ساتھ متوازن و مکمل شخصیت کا حامل بن سکے۔
المیہ یہ ہے کہ حصول آزادی کے بعد بھی ہمیں جو نظام تعلیم میسر رہا وہ اہل کلیسا کا پرور دہ تھا ۔ انہوں نے ملکی اور زمینی آزادی تو دے دی مگر ذہنی اور فکری سطح پر ہمیں غلام کر لیا۔ انہوں نے اپنے لیے جو نظام تعلیم وضع کیا وہ ان کی خودی کی تربیت کرتارہا اور ہماری خودی مفلوج ہوتی رہی۔ انہوں نے ستاروں پر کمندیں پھنکیں اور ہم کوچہٴ جاناں سے باہر نہ آسکے ۔
ان کی معشیت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور ہمارا کشکول ان کے آگے دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔ اس طرح مسلمانوں کی خودی مجروح ہوتے دیکھ کر اقبال کو کہنا پڑا # نہ ہے ستارے کی گردش نہ ہے بازیٴ افلاک خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ اور پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن اقبال کا پیغام روحانی اور اخلاقی ہے اور اسکی بنیاد اسلامی تعلیم پر ہے جسکا مقصد ہی دینِ اسلام کی اشاعت و فروغ ہے ان کے اس پیغام میں انسان اور انسانیت کے لیے خلوص اور احترام ہے ۔
اقبال کے نزدیک دنیا کے تمام مسلمان مجتمع ہو کر باطل مخالف قوتوں کا نہ صرف مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ کمزور قوموں کو ان کے پنجہٴ استبدادسے نجات دلا سکتے ہیں وہ مسلمان کی حالت پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہتے ہیں وائے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا مے بھی تو مینا بھی تو ساقی بھی تو محفل بھی تو شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو خوف باطل کیا ہے کہ غارت گرِ باطل بھی ہے تو بے خبر تو جوہرِ آئینہِ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے اقبال کے بقول مسلمانوں کے اقتصادی امراض کا علاج بھی قرآن نے تجویز کر دیا ہے اس میں سرمایہ داری کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کی خاطر میراث اور زکوة کا نظام تجویز کر دیا گیا ہے ۔
اس سے اسلامی شریعت کا مقصود یہ ہے کہ کوئی جماعت سرمایہ داری کی بناء پر دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے اور تمام لوگوں کو زندگی کے بنیادی حقوق حاصل ہوں ۔ اقبال اس مضبوط معاشی نظام اور اسکے مقاصد کے حصول کے لیے انفرادی اور اجتماعی خودی پر زور دیتے ہیں۔ اگر ملت کے تمام افراد اپنے جوہر خداد کو بروئے کار لاتے ہوئے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم کو شعار بنائیں اور سستی و کاہلی یا بے عملی کی زندگی ترک کر دیں تو وہ اس ایک جہاں میں کئی اور جہاں تخلیق کر سکتے ہیں۔
زندہ قوموں کی خودی فعال اور متحرک ہوتی ہے اور وہ بلند سے بلند تر مقاصد کے حصول کے لیے مستعد اور مصروف نظر آتی ہیں اور جن افراد یا اقوام کے سامنے کوئی عظیم مقصد نہ ہو انکی خودی مجروح یا کمزور ہو جاتی ہے اسلئے انہیں دوسروں کا دستِ نگر رہنا پڑتا ہے اقبال کے نزدیک انسانی تدبیر اور عمل ہی کا نام تقدیر ہے اور اقوام کی تقدیر اسی عمل سے عبارت ہے۔
اقبال کہتے ہیں ۔ خود بخود ٹوٹ کر گرتی نہیں زنجیر کبھی بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے سیاسی نظا م کی بنیاد بھی خالصتاً دین اسلام پر رکھیں کیونکہ مغرب کے نظام ہائے سیاست کی بنیاد مادیت پر ہے ۔ اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمان مادیت کے ساتھ ساتھ روحانیت سے منسلک رہیں اور انصاف اور مساوات کی بنیاد پر دنیا کے تمام انسانوں کے حقوق کا نہ صرف احترام کریں بلکہ جہاں اور جس جگہ بھی مسلمانوں کے بنیادی حقوق تلف ہو رہے ہیں ان کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اپنے معاشی اور ثقافتی حقوق کا مل کر تحفظ کریں مسلمانوں کو فرنگی تہذیب کی تباہ کاریوں سے متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں # فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف ڈاکٹر فرمان فتح پوری مغرب کی خود غرضی اور مفاد پرستی کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”اہل مغرب نے مشینی ایجادات اور مادی تر قیادت کے بل بوتے پر ممالک اسلامیہ کو مرعوب و محکوم تو بنا ہی رکھا تھا، پہلی جنگ عظیم کی قتل و غارت گری کے بعد جہاں انہوں نے یورپ کی بعض مشرقی ریاستوں کو مسلمانوں سے زبردستی چھین لیا اور ایران و ترکی و فلسطین کی گردنوں پر چھری رکھ دی وہاں اپنے اعمال و مظالم کو جائز قرار دینے کے لیے انصاف بوزنائی یا بندربانٹ کے طرز کا ایک نیا ادارہ لیگ آف نیشنز کے نام سے جینوا میں قائم کیا۔
ساری قوموں کو اس کا ممبر بنا کر یہ تاثر دیا گیا کہ دو قوموں کے درمیان اختلاف و جنگ کی صورت پیدا ہوئی تو یہ ادارہ حق و انصاف کی علمبرداری کر ے گا لیکن یہ سب دراصل مغربی طاقتوں کا ایک ڈھونگ اور مشرقی قوموں کو نئے انداز سے شکار کرنے کا ایک جال تھا۔ اقبال نے مغرب کی اس چال کو اسی وقت بھانپ لیا اور مسلمانوں کی متنبہ کیا کہ وہ جمعیت اقوام یا لیگ آف نیشنز کے فریب میں نہ آئیں اسلئے کہ یہ بزم اتحاد نہیں بلکہ بزم رِزم ہے جس میں بالکل نئی روشیں اختیار کی جائیں گی۔
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کیلئے اور کمزور قوموں کو لقمہ اجل بنانے کیلئے اس انجمن کی تشکیل کی ہے۔“ لیگ آف نیشنز کے متعلق اقبال کے اشعار ملاحظہ ہوں # اس دور میں اقوام کی محبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم اسی طرح ضربِ کلیم میں اقبال سیاستِ افرنگ کے عنوان سے لکھتے ہیں # تیری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس اسی طرح اپنی نظم” یورپ اور یہود“ میں لکھتے ہیں # یہ عیشِ فراواں، یہ حکومت، یہ تجارت دلِ سینہِ بے نور ہیں محرومِ تسلی تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے یہ وادیِ ایمن نہیں شایانِ تجلی ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیبِ جواں مرگ شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی دنیا بھر کے مسلمانوں کو اب اس حقیقت کو باور کر لینا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی تنظیم بھی اب انکے حقوق اور فسادات کا تحفظ نہیں کر سکتی۔
اس تنظیم کے اہم ترین ارکان مسلمانانِ عالم کی جمعیت کو منتشر کرنے، انہیں فنا کے گھاٹ اتارنے ، غلام بنانے اور انکی معشیت کو ملیا میٹ کرنے میں پیش پیش رہے ہیں جنگ عظیم میں ترکی جیسی عظیم سلطنت کے حصے بخرے ہوئے، فلسطین جو اسلامیانِ عالم کا دوسرا قبلہ تھا اسے راندہٴ درگاہ قوم یہودیوں کا مسکن بنایا گیا۔ اسی کے اہم ترین رکن برطانیہ کی سازش سے کشمیر کا مسئلہ پیدا ہو جو لاکھوں بے گناہ معصوم کشمیریوں کی شہادت کے با وجود آج تک حل نہ ہو سکا۔
انہی ممالک کے اہم ترین ارکان کی ہوس گیری کی مہم سے پہلے افغانستان اور پھر عراق برباد ہوئے اور اب اسرائیل جسے امریکہ کا نوزائیدہ بچہ کہا جاتا رہا جسے اب امریکہ نے ہی پال پوس کر ایک خونخوار بھیڑیے کی طرح مسلمان ملکوں پر چڑھائی کے لیے تیار کر دیا ہے جس نے ایک اور مسلمان ملک لبنان میں پے در پے حملے کر کے اور ہزاروں بے گناہ معصوم بچوں اور شہریوں کا خون کر کے اور ملک کا سارا ڈھانچہ تقریباً تباہ کر کے ہٹلر اور ہلاکو خان کو بھی مات کر دیا ہے اقوام متحدہ ان جانوں کے زیاں اور ملک کے تباہ و برباد ہونے تک کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے سے اس لئے قاصر رہی کہ امریکہ کا مقصد حاصل ہونے تک فیصلہ ہونا مشکل تھا۔
اگر امریکہ اور برطانیہ کے اپنے لوگ سراپا احتجاج نہ بنتے تو شاید یہ جنگ پورے مشرق وسطی کو لپیٹ میں لے چکی ہوتی اور امریکہ کا چین تک جانے کا منصوبہ التواء میں نہ پڑتا۔ اگر مسلمان اب بھی نہ سنبھلے اور نہ سمجھے تو نہ جانے آنے والا کل ان کے لئے کیسا ہو ۔ ہو گیا مانندِ آبِ ارزاں مسلمان کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز لہٰذا بجائے اس کے ہم ابلیسی مشن کو پروان چڑھانے میں ممدو معاون ہوں ہمیں اپنی تمام تر صلاحتیں اور قوتیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے، اپنی معشیت کو مستحکم کرنے، اپنے افراد کو تعلیم و ہنر کی طاقت سے لیس کرنے، اپنے قدرتی ذخائر کو بروئے کار لانے اور افرادی قوت کو بہتر طور پر استعمال کرنے میں صرف کرنی چاہیں اس لئے کہ اقبال کے بقول جو قوم اپنے مذہب سے رُو گردانی کر جاتی ہے وہ جلد یا بدیر دنیا کے نقشے سے معدوم ہو جاتی ہے ۔
اقبال کہتے ہیں ۔ اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولﷺ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوم قوت سے مستحکم ہے جمعیت تیری دامنِ دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی اقبال نے جو اشعار آزادی سے پہلے مسلمانوں کی دگر گوں حالت دیکھتے ہوئے کہے تھے وہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر مکمل طور صادق نظر آ رہے ہیں اگر ہم مسلمان وضع قطع میں یہود و نصاری جیسے ہوتے چلے جائیں گے اور اپنی بزدلانہ بقا کی خاطر غیر کی بات مانتے چلے جائیں گے تو نہ ہم کعبہ کے رہیں گے نہ کلیسا کے۔
ہم اپنا بھی سب کچھ کھو دیں گے اور غیر کے گھر میں بھی ہمیں پناہ نہیں ملے گی۔ہمیں چاہیے کہ مفکرِ اقبال کا پاکستان جن مقاصد کے حصول کی خاطر حاصل کیا تھا اسکو آزاد رہنے دیں اور پل بھر کو اپنا انفرادی اور اجتماعی محاسبہ کریں کہ ہم کتنے کلمہ گو ہیں۔ شداد کی بنائی ہوئی بہشت اور غرور کی جلائی آگ کو دیکھ کر ہم کتنے مرعوب یا کتنے خوفزدہ ہو چکے ہیں اور شیر کی بجائے گیڈر کی زندگی گزارنے لگے ہیں ۔
قیام پاکستان سے لیکر ابتک یہ ملک اندورونی اور بیرونی سطح پر کس کس کا غلام رہا یہاں کیا کیا سازشیں ہوئیں اور ارباب اقتدار نے کس کس کی طرح لوٹ گھسوٹ کی۔ کس قدر یہ عوام کا پاکستان رہا اور کس قدر یہ جاگیر داروں اور ہوس گیروں کے ہتھے چڑھاَ کس طرح اس کے سرمایہ کا زیاں ہوا اور کس طرح اس کو مفادات اور اغراض کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ اقبال کے بقول دنیا دار المکافات ہے اور افراد ہو ں یا اقوام جلد یا بدیر یہ انکو بے حسی اور بد عملی کی سزا ضرور دیتی ہے۔
اسرائیل یا امریکہ کا کسی ملک پر چڑھائی کرنا۔ مکافات عمل کا حصہ بھی ہو سکتا ہے ہمارے کئی مسلمان ملکوں کی طرز معاشرت اور طرز حکومت امریکیوں جیسی ہے لہٰذا ہم جنکی روش کو پسند کریں گے اور جس پر چلیں گے وہی لوگ ہم پر مُسلط بھی کر دیئے جائیں گے۔ اقبال فرماتے ہیں ۔ فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف اقبال ڈے منانے اور اقبال پر مقالے پڑھنے کی بجائے اقبال کی فکر کو عملی جامہ پہنائیں اور اسکی فکر کریں جس گرداب سے ہم گزرنے والے ہیں # وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اسکو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ” پاکستان “ والو تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں یہی آئینِ قدرت ہے یہی اسلوبِ فطرت ہے جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے

Chapters / Baab of Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed