Madari Ki Aqalmandi - Article No. 1913
مداری کی عقلمندی - تحریر نمبر 1913
میرے بندر کو اس کا حصہ دیا جائے یا پھر میرے ہیرے واپس کیے جائیں
ہفتہ 6 مارچ 2021
پرانے وقتوں کی بات ہے کسی ملک کا بادشاہ بہت ظالم تھا۔وہ غریبوں کا مال ہڑپ کر جاتا تھا۔معمول کے مطابق بادشاہ کا دربار سجا ہوا تھا اچانک ایک مداری اپنا بندر لیے دربار میں دوڑتا ہوا داخل ہوا اور چیخنے چلانے لگا۔دروازے پہ کھڑے دربانوں نے اسے روکنا چاہا مگر وہ سیدھا اندر چلا آیا اسے زبردستی اندر آتے دیکھ کر بادشاہ نے دربانوں کو اسے اندر لانے کا کہا بادشاہ نے اسے پوچھا تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟وہ کہنے لگا۔میں آپ کے بھائی کا مالک ہوں۔کیا مطلب؟بادشاہ نے ماتھے پر بل چڑہاتے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔مداری پورے اعتماد کے ساتھ بولا میں اس بندر کا مالک ہوں اور یہ بندر آپ کا بھائی ہے اور آپ کی بادشاہت اور دھن دولت میں آپ کا برابر کا حصے دار ہے۔
(جاری ہے)
اس کا کہنا تھا کہ پورے دربار میں ہلچل مچ گئی اور بادشاہ یک دم طیش میں آکر یک دم کھڑا ہو گیا۔کیا بکواس کر رہے ہو؟یہ بندر اور میرا بھائی!
مداری کہنے لگا جی ہاں!اور بندر کے مالک کی حیثیت سے میں آپ کو قاضی کی عدالت میں لے کر جاؤں گا۔
بادشاہ گرج دار آواز میں بولا!یہ کون گستاخ ہے؟اسے دربار سے باہر نکالا جائے۔مداری نے بڑی ہوشیاری سے کام لیا اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا۔دیکھو لوگو!یہ ہے تمہارا بادشاہ!جس کے انصاف کے تم لوگ گن گاتے ہو۔یہ میرے بندر کا حصہ ہضم کرنے کے لئے ایسا واویلا مچا رہا ہے۔یہ سننا تھا کہ ایک درباری اٹھا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت!جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔اگر آپ سچے ہیں تو آپ کو ڈر کس بات کا؟آپ قاضی کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ساتھ ہی مداری سے مخاطب ہو کر بولا اگر تم بادشاہ کے بھائی ہو تو اس کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟یہ ثبوت تو میں قاضی کی عدالت میں ہی دوں گا۔ مداری نے جواب دیا۔پورا دربار اس شخص کی ہاں میں ہاں ملانے لگا۔بادشاہ پر دباؤ بڑھ گیا اور اسے ان کی بات ماننی پڑی۔
عدالت لگتی ہے۔مداری اپنی رام کہانی سنانا شروع کرتا ہے۔جناب والا میں ایک کسان تھا۔اپنی تھوڑی سی زمین پر کاشت کیا کرتا تھا۔ایک دن ہل چلاتے ہوئے مجھے اپنی زمین سے ایک تھیلی ملی۔جب میں نے اسے کھولا تو اس میں سے یک دم تیز روشنی نکلی۔اس میں بہت چمکدار ہیرے تھے جن کی روشنی دور دور تک پھیلتی تھی میں فوراً سے وہ ہیرے گھر لے آیا اور انہیں اپنے گھر میں چھپا دیا مگر ان کی روشنی کچھ ایسی تھی کہ ہر نئی صبح اس کی روشنی دوگنی ہو جاتی۔میں چاہتا تھا کہ اس ہیروں کا کسی کو پتا نہ چلے مگر ان کی روشنی روز بہ روز بڑھتی چلی گئی بلا آخر میرے گھر سے نکلنے والی تیز روشنی کی خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی اور بات بادشاہ تک پہنچ گئی۔
بادشاہ نے مجھے دربارمیں بلایا اور مجھ سے وہ ہیرے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔جب میں نے وہ ہیرے بادشاہ کو دکھائے بادشاہ نے ہیرے اپنے قبضے میں کر لیے۔ میں کئی بار بادشاہ کے دربار میں وہ ہیرے لینے گیا مگر ہمیشہ یہ کہہ کر نکال دیا جاتا کہ ان ہیروں پر بادشاہ اور بادشاہ کے خاندان کا حق ہے۔تو اب تم کیا چاہتے ہو؟قاضی نے مداری سے پوچھا۔میرے بندر کو اس کا حصہ دیا جائے یا پھر میرے ہیرے واپس کیے جائیں۔مداری نے جواب دیا۔اب سب جان چکے تھے کہ بندر کا در حقیقت بادشاہ سے کوئی تعلق نہیں۔انصاف کی تلاش میں مداری نے یہ چال چلی تھی۔لہٰذا یہ تمام باتیں سننے کے بعد قاضی نے بندر کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ یا تو بادشاہ مداری کے ہیرے لٹا دے یا اس کے برابر رقم ادا کرے۔اب بادشاہ کو چارونا چار مداری کو ڈھیر ساری رقم ادا کرنی پڑی مداری رقم وصول کرکے اپنے بندر سمیت چلتا بنا۔پورا دربار مداری کی عقلمندی پر عش عش کرنے لگا۔
Browse More Mutafariq Mazameen
وطن کی مٹی گواہ رہنا…!!
Watan Ki Matti Gawah Rehna
ڈھنڈورا
Dhindhora
دو بھائیوں کی کہانین
Do Bhaio Ki Kahani
سفر ہے شرط
Safar Hai Shart
شادی اور کھانا
Shaadi Or Khana
محبت ایک دولت
Muhabbat Aik Dolat
Urdu Jokes
ایک دوست دوسرے سے
Aik dost doosre se
قیمہ
Qeema
ماں بیٹے سے
Maa bete se
نجات
nijat
استاد شاگرد سے
Ustad Shagird se
چیری بلاسم
cherry blossom
Urdu Paheliyan
دھرتی ہی سے رشتہ جوڑے
dharti hi se rishta jory
بن کھانے کی چیز کو کھایا
bin khane ki cheez ko khaya
منہ میں پڑی رہی اک بوٹی
munh mein pari rahi ek boti
ہر اک جانے اس کا نام
har ek jaane uska naam
کبڑی ماں نے بچے پالے
kubri maa ne bache paale
بے شک پاؤں کے نیچے آئیں
beshak paon ke neeche aaye