Wafa - Article No. 1375

Wafa

وفا - تحریر نمبر 1375

دوپہر کا وقت تھا گرمی انتہا پر تھی‘خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان دمشق میں اپنے محل میں بیٹھے ہوئے تھے۔محل کے دریچے سے سامنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔

بدھ 17 اپریل 2019

کامران امجد خان
دوپہر کا وقت تھا گرمی انتہا پر تھی‘خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان دمشق میں اپنے محل میں بیٹھے ہوئے تھے۔محل کے دریچے سے سامنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔دُور دُور تک کھلا میدان تھا اچانک خلیفہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو افتان و خیزان ننگے پاؤں قیامت کی اس گرمی میں محل کی طرف بڑھ رہا تھا۔خلیفہ نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا”جس شخص کو اس گرمی میں بھی اس طرح سفر کرنے کی مجبوری ہے اس سے زیادہ بد نصیب اور کون ہو سکتاہے۔

“حاضرین میں سے ایک شخص نے عر ض کی”امیر المومنین ممکن ہے کوئی حاجت اسے آپ کے پاس کھینچ لائی ہو۔“
خلیفہ نے کہا”واللہ ا گر یہ شخص میرے پاس کوئی حاجت لے کر آیا ہے تو میں اس کی حاجت پوری کرونگا۔

(جاری ہے)

“پھر ایک خادم کو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ دروازے پر کھڑا رہے اور اگر یہ شخص مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اسے میرے پاس آنے سے نہ روکا جائے۔

چند لمحوں بعد وہ شخص خلیفہ کے سامنے حاضر تھا۔خلیفہ نے اس سے پوچھا۔
”کونسی حاجت تمہیں یہاں لائی؟“
”جناب میں شکایت لے کر آیا ہوں مجھ پر ظلم ہوا ہے ‘میں انصاف کا طلب گار ہوں۔“
”اعرابی ! کس نے تم پر ظلم ڈھایا ہے ؟“خلیفہ نے پھر پوچھا ۔اس شخص نے جواب دیا”مروان بن حکم نے ‘جسے آپ نے ہمارا والی بنا کر بھیجا ہے اور یہ شخص ہمارے لئے وبال جان بن گیا ۔
میرے لئے اور میری بیوی کے لئے تو اس شخص نے ظلم کی انتہا کردی ہے ۔خدا را اپنے اس والی کیخلاف میرے حق میں انصاف فرمائیے۔“
خلیفہ نے کہا”اعرابی مجھے اپنا پورا قصہ سناؤ۔“
اعرابی بولا!”جناب میری ایک بیوی تھی میں اس کا عاشق زارتھا ۔ہمارے پاس اونٹوں کا ایک قافلہ تھا جس سے ہم با آسانی گزر بسر کر لیتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ ہمارے علاقے میں قحط پڑ گیا ۔
میری حالت ابتر ہوگئی اور میرے پاس مال ودولت میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا ۔میری بیوی سعاد‘کے باپ کو جب میری اس حالت کی خبر ہوئی تو وہ زبردستی میری بیوی کو میرے گھر سے لے گیا۔میں نے مروان بن حکم کے پاس شکایت کی ‘مروان نے میری بیوی کے باپ کو بلا بھیجا۔اس نے مروان کے سامنے غلط بیانی سے کام لیا اور کہا کہ میری بیٹی سعاد اس مفلوک الحال شخص کے پاس رہنے کیلئے رضا مند نہیں ہے ۔
میں نے مروان سے سعاد کو بلا کر اس کی رضا پوچھنے کی درخواست کی چنانچہ مروان نے سعاد کو طلب کیا مگر جب سعاد حاضر ہوئی اور مروان کی نظر اس پر پڑی تو وہ مروان کو پسند آگئی اور بجائے انصاف کے وہ اُلٹا میرا دشمن بن بیٹھا۔اس نے مجھے بلا قصور بُرا بھلاکہنا شروع کر دیا اور مجھے جیل میں ڈالنے کا حکم جاری کر دیا۔پھر سعاد کے باپ سے طے کر لیا کہ وہ ایک ہزار دینا رحق مہر کے بدلے مجھ سے طلاق کے بعد سعاد کا نکاح مروان سے کر دے گا۔
مجھ سے طلاق دلوانے کا ذمہ مروان نے خود لیا۔
مروان نے مجھے طلب کیا اور سعاد کو طلاق دینے کا حکم دیا۔میں نے انکار کیا تو اُس نے مجھ پر تشدد کا حکم دیدیا۔جب تشدد حد سے بڑھا تو میں مجبور ہو گیا اور میرے پاس سوائے طلاق دینے کے کوئی چارہ نہ رہا چنانچہ میں نے طلاق دیدی اور عدت گزرنے کے بعد مروان نے سعاد سے شادی رچالی۔“
یہاں تک کہنے کے بعد اعرابی رونے لگا۔
پھر بے حال ہو کر لڑکھڑایا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
غصہ خلیفہ کے چہرے پر ٹپکنے لگا اور کہنے لگا ”مروان نے اللہ کی حدود میں دست اندازی کی ہے اور ایک مسلمان کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے ۔“
پھر قلم اور کاغذ منگوایا اور مروان بن حکم کے نام لکھا:
”مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسلام کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کیا ہے اور اپنی رعیت کے ایک شخص پر ظلم ڈھایا ہے ۔
اب تمہارے جیسے شخص کو حرص و ہوس سے باز رکھنا لازمی ہو گیا ہے ۔“پھرد وشعر لکھے جن کا مطلب یہ تھا”میرے پاس ایک سنگین معاملے کی شکایت کی گئی ہے جس کا تمہیں علم نہیں میں تمہارے جیسے گنہگار کے کام سے اللہ سے استغفار کرتا ہوں تم فوراً سعاد کو طلاق دے کر نصر بن ذبیان کے ہمراہ ہمارے پاس روانہ کردو۔“
مروان کو جب یہ حکم ملاتو تعمیل حکم کے بغیر اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا چنانچہ اس نے فوراً سعاد کو طلاق دیدی اور نصر بن ذبیان کے ہمراہ اسے دمشق روانہ کر دیا ۔
ساتھ ہی شعروں کی زبانی ایک خط ارسال کیا جس میں لکھا تھا۔
”اے امیرالمومنین میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے۔میں اپنے اس فعل پر شرمندہ ہوں اور معذرت خواہ ہوں مگر آپ جب اسے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انسان کی تمام آرزوئیں ایک جسم میں مجسم ہیں ۔آپ کے پاس سورج کی مانند ایک حسین صورت آرہی ہے ایسی صورت کسی انسان نے کبھی دیکھی ہوگی نہ کسی جن نے۔

خلیفہ نے خط پڑھاتو مسکرائے اور حکم دیا کہ سعاد کو حاضر کیا جائے۔
سعاد دربار میں حاضر ہوئی۔جب خلیفہ کی نظر اس پر پڑی تو واقعی خلیفہ نے محسوس کیا کہ وہ حُسن و جمال میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔پھر جب خلیفہ نے اس سے بات کی تو مزید حیران ہوئے۔
فصاحت‘بلاغت اور ذہانت میں بھی اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔پھر انہوں نے میاں بیوی کے باہمی خلوص کو پر کھنا چاہا‘اور اعرابی کو مخاطب کرکے کہا”تجھے اس کے بغیر کیوں سکون نہیں آتا میں اس کے عوض تجھے چاند جیسی حسین وجمیل تین کنیزیں عطا کروں گا اور ہر کنیز کے ساتھ ایک ایک ہزار دینار کا عطیہ بھی ملے گا اور پھر تجھے بیت المال سے اتنا کچھ عطا کروں گا کہ تیرے لئے کافی ہو جائے گا۔

اعرابی نے جب یہ سناتو چیخا”مروان بن حکم کے ظلم کے خلاف میں نے آپ سے انصاف مانگا تھا․․․․اب میں آپ کے ظلم کے خلاف انصاف کس سے مانگوں؟“
خلیفہ مسکرائے اور بولے”تجھے اقرار ہے کہ تُو نے سعاد کو طلاق دیدی تھی۔مروان بھی اسے طلاق دینے کا اقراری ہے اب ہم سعاد کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ جسے چاہے اپنے لئے اختیار کرلے۔

پھر سعاد کی طرف دیکھ کر اسے کہنے لگے۔
”سعاد!اب تم بولو تم کسے اختیار کر نا چاہتی ہو اور تمہیں کون زیادہ پسند ہے ۔تین شخصوں کے درمیان تمہیں فیصلہ کرنا ہے ۔ان میں سے ایک ہے امیر المومنین اپنے محل وحشم وحذم کے ساتھ‘دوسرا ہے مروان بن حکم اپنے ظلم وہوش کے ساتھ اور تیسرا ہے اعرابی اپنے افلاس اور بدحالی کے ساتھ۔“
سعاد نے شعروں کی زبان میں فوراً جواب دیا۔

”اگر چہ یہ شخص مفلس اور بدحال ہے مگر میرے نزدیک اپنی ساری قوم اور سارے عزیزوں سے زیادہ باعزت ہے ۔اور یہ مجھے عزیز تر ہے۔“پھر کہنے لگی:”اے امیرالمومنین!زمانے کے حوادثات اور وقت کی تبدیلی سے میں شکست خوردہ نہیں ہوں گی۔میرا اور اس اعرابی کا ساتھ بڑا پرانا ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اس محبت کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔
جب میں نے خوشحالی کے زمانے میں اس کی رفاقت سے لطف اٹھایا ہے تو اب پریشان حالی میں بھی میراسب سے زیادہ حقدار ہے ۔“
خلیفہ نے جب سعاد کی یہ وفا اور خلوص دیکھا تو مسرت سے جھوم اُٹھے اور بولے”سعاد میں نے صرف تمہارے خلوص اور وفا کا امتحان لینے کے لئے یہ باتیں کہیں تھیں ۔تم امتحان میں پوری اُتری ہو۔واقعی ایک مسلمان بیوی کا اخلاق ایسا ہی ہونا چاہئے۔“پھر سعاد اور اس کے اعرابی خاوند کو دودو ہزار دینار عطا کئے جانے کا حکم صادرفرمایا۔

Browse More True Stories