
بابوسر کی بلندیوں سے بہتے سیلاب تک ایک خاموش خطرہ ایک بے آواز پکار
Babusartop Ki Bulandiyon Se Behte Seelab
فخر عالم (صحافی و کالم نگار) بدھ 30 جولائی 2025

یہ منظر کسی خواب کی تعبیر لگتا ہے آسمان کو چھوتے برف پوش پہاڑ وادیوں میں جھومتی ہوائیں بادلوں میں گم ہوتا سورج اور دل موہ لینے والی سبز پوش چراگاہیں۔
بابوسر ٹاپ گلگت بلتستان کی پہچان قدرت کا وہ شاہکار ہے جسے دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں سیاح سینے میں خواب آنکھوں میں چمک اور موبائل میں کیمرہ لئے پہنچتے ہیں۔ مگر قدرت کے اس حسین چہرے کے پیچھے ایک ایسا تلخ سچ بھی چھپا ہے جس کا ادراک وقت قیامت ہی ہوتا ہے۔ اور قیامت؟
وہ یہاں اکثر بارش کے ایک طویل جھونکے کے بعد سیلاب کی صورت نازل ہوتی ہے۔
بابوسر صرف ایک سیاحتی مقام نہیں بلکہ یہ گلگت بلتستان کو خیبرپختونخوا سے جوڑنے والی ایک اہم شاہراہ ہے۔ یہی وہ سنگلاخ راستہ ہے جس پر سفر کرنے سے شاہراہ قراقرم کے مقابلے میں تین سے چار گھنٹے کی بچت ہوتی ہے اور یہی مجبوری اکثر سیاحوں کو اس پر سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
مگر افسوس کئی سیاح قدرتی موسموں کے رنگوں سے نابلد اپنے ہی شوق کی قربان گاہ پر چڑھ جاتے ہیں۔
جون اور جولائی کا مہینہ اس علاقے کے لیے خاموش تباہی کی گھڑی ہوتا ہے۔ یہاں سیلاب صرف پانی کا بہاؤ نہیں بلکہ پہاڑوں سے دھاڑتے ملبے، دیوقامت پتھروں، اور جڑوں سے اکھڑی درختوں کا ایک قافلہ ہوتا ہے جو ہر اس شے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے جو اس کی راہ میں آتی ہے خواہ وہ گاڑی ہو یا انسان۔ مکان ہو ہوٹل۔
گزشتہ دنوں بابوسر تھک کے مختلف مقامات میں جو کچھ ہوا وہ قدرت کی ایک اور وارننگ تھی۔
شدید بارشوں نے پہاڑوں کے سینے چاک کئے اور ان چاک سینوں سے جو طوفان نکلا اس نے درجنوں گاڑیوں سیاحوں اور مقامی آبادی کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا۔
پاک فوج ضلعی انتظامیہ اور مقامی رضاکاروں کی بروقت کارروائی نے بڑے سانحے کو ٹال دیا مگر یہ واقعہ ایک سنگین سوال چھوڑ گیا کیا ہم سیکھیں گے؟
سیاحت بلاشبہ خوشی کا ذریعہ ہے مگر یہ خوشی عقل احتیاط
اور مقامی معلومات کے بغیر عارضی اور اکثر مہلک ہو سکتی ہے۔
بابوسر ٹاپ سے زیرو پوائنٹ چلاس تک کا راستہ تقریباً 47
کلومیٹر پر مشتمل ہے جو مکمل طور پر ڈھلوان ہے۔ ایسے راستوں پر بھاری گیئر کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کئی سیاح اس بنیادی اصول کو نظرانداز کرتے ہیں۔
اس علاقے میں کمیونٹی پولیس کے نام سے ایک مقامی رضاکار فورس تعینات ہے جو انتہائی قلیل معاوضے پر دن رات سیاحوں کی حفاظت کے لیے کوشاں رہتی ہے۔
ان کا کام نہ صرف ٹریفک کو منظم رکھنا ہے بلکہ گاڑیوں کی بریک چیک کرنا لینڈ سلائیڈنگ کی پیشگی وارننگ دینا اور خطرناک مقامات پر سیاحوں کو رکنے سے روکنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اکثر سیاح ان ہدایات کو غیر ضروری یا اپنی مرضی کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ وہ کمیونٹی پولیس کی وارننگ کو نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں اور نتیجتاً وہی ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے حادثہ، سانحہ، نقصان۔۔۔
گزشتہ دنوں کا ایک منظر اب بھی آنکھوں میں تازہ ہے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں سیاح خود اعتراف کرتے ہیں کہ کمیونٹی پولیس نے ہمیں روکنے کی کوشش کی لیکن ہم نے نظرانداز کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑی سمیت سیلاب کی زد میں آگئے۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں یہ سبق ہے۔
بابوسر کا سیلاب کسی کو معاف نہیں کرتا نہ مقامی کو نہ مہمان کو۔ پہاڑوں کے یہ خاموش دروازے جب کھلتے ہیں تو صرف پتھر پانی اور ہولناک چیخیں نکلتی ہیں۔
تو کیا کیا جائے؟
سب سے پہلا قدم ہے معلومات حاصل کرنا۔ جون اور جولائی میں گلگت بلتستان کا سفر کرنے سے قبل محکمہ موسمیات ٹورسٹ پولیس یا مقامی انتظامیہ سے موسم اور راستے کی صورتحال معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔
دوسرے اگر بارش ہو رہی ہو تو پہاڑوں کے درمیان گاڑی روکنے سے پرہیز کریں۔لینڈ سلائیڈنگ کبھی پیشگی اطلاع دے کر نہیں آتی۔
تیسرےہمیشہ ان جگہوں پر رکیں جہاں آبادی موجود ہو۔ پہاڑوں میں وہ مقامات جہاں ماضی میں سیلاب آ چکے ہوں دوبارہ سیلاب آسکتے ہیں۔ ایسے مقامات پر رکنے سے گریز ہی بہتر ہے۔
اور سب سے اہم احتیاط انکساری اور مقامی افراد کی بات پر اعتماد۔ ہم جب کسی اور سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو محض مہمان ہی نہیں ہوتے بلکہ اس زمین کی روح کے محافظوں کی امانت بھی ہوتے ہیں۔ ان کی ہدایات صرف قوانین نہیں بلکہ تجربے کی متکلم صدائیں ہوتی ہیں۔
بابوسر آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ بادل آج بھی اس کے ماتھے پر جھومتے ہیں۔ سیاح پھر آئیں گے تصاویر لیں گے قہقہے لگائیں گے۔ مگر اگر ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھا تو قدرت کی اگلی پکار شاید اتنی مہلت نہ دے۔
احتیاط کیجئے زندگی کی سیاحت چلتی رہے گی۔
بابوسر ٹاپ گلگت بلتستان کی پہچان قدرت کا وہ شاہکار ہے جسے دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں سیاح سینے میں خواب آنکھوں میں چمک اور موبائل میں کیمرہ لئے پہنچتے ہیں۔ مگر قدرت کے اس حسین چہرے کے پیچھے ایک ایسا تلخ سچ بھی چھپا ہے جس کا ادراک وقت قیامت ہی ہوتا ہے۔ اور قیامت؟
وہ یہاں اکثر بارش کے ایک طویل جھونکے کے بعد سیلاب کی صورت نازل ہوتی ہے۔
بابوسر صرف ایک سیاحتی مقام نہیں بلکہ یہ گلگت بلتستان کو خیبرپختونخوا سے جوڑنے والی ایک اہم شاہراہ ہے۔ یہی وہ سنگلاخ راستہ ہے جس پر سفر کرنے سے شاہراہ قراقرم کے مقابلے میں تین سے چار گھنٹے کی بچت ہوتی ہے اور یہی مجبوری اکثر سیاحوں کو اس پر سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
(جاری ہے)
مگر افسوس کئی سیاح قدرتی موسموں کے رنگوں سے نابلد اپنے ہی شوق کی قربان گاہ پر چڑھ جاتے ہیں۔
جون اور جولائی کا مہینہ اس علاقے کے لیے خاموش تباہی کی گھڑی ہوتا ہے۔ یہاں سیلاب صرف پانی کا بہاؤ نہیں بلکہ پہاڑوں سے دھاڑتے ملبے، دیوقامت پتھروں، اور جڑوں سے اکھڑی درختوں کا ایک قافلہ ہوتا ہے جو ہر اس شے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے جو اس کی راہ میں آتی ہے خواہ وہ گاڑی ہو یا انسان۔ مکان ہو ہوٹل۔
گزشتہ دنوں بابوسر تھک کے مختلف مقامات میں جو کچھ ہوا وہ قدرت کی ایک اور وارننگ تھی۔
شدید بارشوں نے پہاڑوں کے سینے چاک کئے اور ان چاک سینوں سے جو طوفان نکلا اس نے درجنوں گاڑیوں سیاحوں اور مقامی آبادی کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا۔
پاک فوج ضلعی انتظامیہ اور مقامی رضاکاروں کی بروقت کارروائی نے بڑے سانحے کو ٹال دیا مگر یہ واقعہ ایک سنگین سوال چھوڑ گیا کیا ہم سیکھیں گے؟
سیاحت بلاشبہ خوشی کا ذریعہ ہے مگر یہ خوشی عقل احتیاط
اور مقامی معلومات کے بغیر عارضی اور اکثر مہلک ہو سکتی ہے۔
بابوسر ٹاپ سے زیرو پوائنٹ چلاس تک کا راستہ تقریباً 47
کلومیٹر پر مشتمل ہے جو مکمل طور پر ڈھلوان ہے۔ ایسے راستوں پر بھاری گیئر کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کئی سیاح اس بنیادی اصول کو نظرانداز کرتے ہیں۔
اس علاقے میں کمیونٹی پولیس کے نام سے ایک مقامی رضاکار فورس تعینات ہے جو انتہائی قلیل معاوضے پر دن رات سیاحوں کی حفاظت کے لیے کوشاں رہتی ہے۔
ان کا کام نہ صرف ٹریفک کو منظم رکھنا ہے بلکہ گاڑیوں کی بریک چیک کرنا لینڈ سلائیڈنگ کی پیشگی وارننگ دینا اور خطرناک مقامات پر سیاحوں کو رکنے سے روکنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اکثر سیاح ان ہدایات کو غیر ضروری یا اپنی مرضی کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ وہ کمیونٹی پولیس کی وارننگ کو نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں اور نتیجتاً وہی ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے حادثہ، سانحہ، نقصان۔۔۔
گزشتہ دنوں کا ایک منظر اب بھی آنکھوں میں تازہ ہے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں سیاح خود اعتراف کرتے ہیں کہ کمیونٹی پولیس نے ہمیں روکنے کی کوشش کی لیکن ہم نے نظرانداز کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑی سمیت سیلاب کی زد میں آگئے۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں یہ سبق ہے۔
بابوسر کا سیلاب کسی کو معاف نہیں کرتا نہ مقامی کو نہ مہمان کو۔ پہاڑوں کے یہ خاموش دروازے جب کھلتے ہیں تو صرف پتھر پانی اور ہولناک چیخیں نکلتی ہیں۔
تو کیا کیا جائے؟
سب سے پہلا قدم ہے معلومات حاصل کرنا۔ جون اور جولائی میں گلگت بلتستان کا سفر کرنے سے قبل محکمہ موسمیات ٹورسٹ پولیس یا مقامی انتظامیہ سے موسم اور راستے کی صورتحال معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔
دوسرے اگر بارش ہو رہی ہو تو پہاڑوں کے درمیان گاڑی روکنے سے پرہیز کریں۔لینڈ سلائیڈنگ کبھی پیشگی اطلاع دے کر نہیں آتی۔
تیسرےہمیشہ ان جگہوں پر رکیں جہاں آبادی موجود ہو۔ پہاڑوں میں وہ مقامات جہاں ماضی میں سیلاب آ چکے ہوں دوبارہ سیلاب آسکتے ہیں۔ ایسے مقامات پر رکنے سے گریز ہی بہتر ہے۔
اور سب سے اہم احتیاط انکساری اور مقامی افراد کی بات پر اعتماد۔ ہم جب کسی اور سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو محض مہمان ہی نہیں ہوتے بلکہ اس زمین کی روح کے محافظوں کی امانت بھی ہوتے ہیں۔ ان کی ہدایات صرف قوانین نہیں بلکہ تجربے کی متکلم صدائیں ہوتی ہیں۔
بابوسر آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ بادل آج بھی اس کے ماتھے پر جھومتے ہیں۔ سیاح پھر آئیں گے تصاویر لیں گے قہقہے لگائیں گے۔ مگر اگر ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھا تو قدرت کی اگلی پکار شاید اتنی مہلت نہ دے۔
احتیاط کیجئے زندگی کی سیاحت چلتی رہے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔
© www.UrduPoint.com
تازہ ترین بلاگز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.