پاکستان کو کب ملے گاحقیقی رہنما؟

Pakistan Ko Kab Mille Ga Haqeeqi Rehnuma?

Junaid Nawaz Chaudhry جنید نوازچوہدری (سویڈن) منگل 21 مارچ 2023

Pakistan Ko Kab Mille Ga Haqeeqi Rehnuma?
پچھلے دنوں کسی کام کے سلسلے میں دبئی جانے کا اتفاق ہوا تو ایسا لگا کے میں کسی اور ہی دُنیا میں آگیا ہوں۔ میں یورپ کے ایک ترقی یافتہ ملک سوئیڈن میں سکونت پذیر ہوں مگر دبئی کی ترقی کے سامنے یورپ کی ترقی ماند پڑتی دکھائی دی۔ میں دعوے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کے اتنے کم وقت میں اتنی زبردست ترقیاتی منصوبہ بندی شاید تو کیا یقیناً مغربی ممالک بھی نہیں کر پائے ہوں گے کہ جتنی جلدی دبئی نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا کہ تیزی سے ترقی کر لی ہے۔

آسمانوں سے چھوتی عمارتیں، کاروباری سہولیات، سرمایہ کاری کے مواقع، روزگار کی تلاش میں تیسری دُنیا کے تقریباً تمام ممالک کے باشندے جنہیں دبئی نے کسی ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے رکھا ہے، سیاحت کے دلدادہ پوری دُنیا سے آنے والے سیاحوں کے لئیے دلچسپی کے تمام لوازمات، غرض یہ کہ سادہ لفظوں میں دبئی میں سب کے لئیے سب کچھ ہے کہنا کچھ غلط نا ہو گا۔

(جاری ہے)

اتنا سب کچھ دیکھنے اور تجربہ کرنے بعد ایک عجیب سے احساس نے جنم لیا اور وہ یہ تھا کہ کیا کبھی میں اپنی زندگی میں اپنے پیارے ملک پاکستان کو بھی اسی رفتار کے ساتھ اسی طرح ترقی کرتے دیکھ سکوں گا یا نہیں؟ دِل نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھ سکتا ہوں مگر اس کی صرف ایک ہی صورت ہے اور صورت کیا ہے آئیے جانتے ہیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے “اگر ساری زندگی وہی کرتے رہو گے جو ساری زندگی کرتے آئے ہو تو وہی ملے گا جو ساری زندگی ملتا رہا ہے”- پچھلے 75 سالوں سے ہر نئی آنے والی حکومت نے ملک پاکستان میں وہی دو جمع دو چار والی پالیسی کو اپنایا جو اُن کے آنے سے پہلے والی حکومتیں کرتی آئیں ہیں، مطلب فارن ریزروز کم ہو رہے ہیں تو امپورٹ بند کر دیں، ڈالر کو اپنے کنٹرول میں لے لیں مسئلہ حل ہو جائے گا، مُلک میں بین الاقوامی کمپنیاں لے آئیں مسئلہ حل ہو جائے گا، جس نقطہ نظر سے ہم اپنے مُلک کو پچھلے 75 سالوں سے چلا رہے ہیں وہ نقطہ نظر اب چلتا نظر نہیں آ رہا۔

اب اس ذہنی نقطہ نظر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب ایک جامع ، ٹھوس اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے لئیے موافق حالات بھی پیدا کرنے ضروری ہیں۔ آج تک پاکستان میں “تھنک ٹینک” کا قیام ممکن نہیں ہو سکا کہ جو طویل مدتی منصوبوں کی بنیاد رکھ سکتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ اداروں کی سیاست میں مداخلت بھی ہے جس کے ذمہ دار ادارے اور سیاستدان دونوں ہی ہیں۔

نا ہی شہری حکومتوں کا قیام وجود میں آ سکا ہے جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئیے انتہائی ضروری ہوتا ہے بلکہ جس کے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ سادہ الفاظ میں ایک حقیقی اور مخلص سیاسی قیادت کا فقدان ہے جو سنجیدگی سے مل بیٹھ کر عوام کی فلاح و بہبود کے لئیے ان مسائل کو حل کر سکے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکے جیسے کے خلیجی ممالک کے سربراہان نے مل بیٹھ کر کی ہے۔

جیسے ہی اُن کو یہ احساس ہوا کے مغربی ممالک تیل سے اپنا انحصار ختم کر کے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے متبادل کے طور پر متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو فوراً تمام خلیجی ممالک کے سربراہان نے سوچ میں فرق ہونے کے باوجود سر جوڑ لئیے اور اپنی آمدن کے لئیے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئیے تیل پر انحصار کرنے کے بجائے سرمایہ کاری کے ایسے منصوبے متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

جبکہ ملک پاکستان جو ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالامال ہے جس کے پاس گوادر جیسی پورٹ موجود ہے، جس کے پاس سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ موجود ہے کیوں ترقی نہیں کر پا رہا؟ کیوں ہمُ بھکاریوں کی طرح پوری دُنیا میں کشکول لئیے پھر رہے ہیں؟ اس کی صرف اور صرف دو وجوہات ہیں اور وہ ہیں اداروں کی سیاسی مداخلت اور بدلے کی سیاست۔ جب کوئی پارٹی اداروں کی پشت پناہی ہے اقتدار میں آتی ہے تو اس وقت اپوزیشن کو ہر طرح سے نشانا بنایا جاتا ہے بدلے کی سیاست کو فروغ دیا جاتا ہے اور درحقیقت عوام اس بدلے کی سیاست کا نشانہ بن رہی ہوتی ہے پھر جب وقت بدلتا ہے اپوزیشن کسی طرح سے اداروں کو رام کر کے اگلی بار حکومت میں آتی ہے تو پچھلی حکومت کے سیاستدانوں سے چن چن کر بدلے لیتی ہے اور اگر یہ نا ہو تو کوئی ڈکٹیٹر آئین کو پیروں تلے روندتے ہوئے عدالتوں کو باندی بنا کر “میرے عزیز ہم وطنوں” کا نعرہ لگا کر آئین اور قانون کے دھجیاں اُڑاتے ہوئے جو دِل میں آئے وہ کرتا ہے۔

عوام تو بس اس ساری کہانی میں محض مظلوم تماشائی کے کردار میں نظر آتے۔ ان سب عوامل کی وجہ سے آج ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ایک طرف شدید اندرونی سیاسی کشمکش چل رہی ہے اور دوسری طرف بیرونی دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ کچھ طاقتوں کے ایما پر ملک کو سیاسی کشمکش کے ذریعے اندرونی طور پر کمزور کرواکے اس نہج پہ لیجانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جہاں ملک کے ایٹمی ہتھیاروں تک کسی طریقے سے رسائی حاصل کی جا سکے جو شروع دن سے اُن طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔

اس کی ایک بڑی مثال اس وقت آئی۔ایم -ایف کی پاکستان کی طرف سے تمام شرائط پوری ہونے کے باوجود قرضوں کی منظوری میں دیر اور بے جا حیلے و بہانے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بہت طریقے سے پاکستان کو کسی ایسے جال میں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس کا مقصد صرف اور صرف ملک سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ بد قسمتی سے عوام کو اسوقت سیاسی لڑائی لڑنے کے اور کچھ نظر نہیں آ رہا۔

اس وقت پاکستان کو ایک ایسے حقیقی رہنما کی ضرورت ہے جو ایک جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ ملک کو آگے لے جا سکے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکے۔ آپس میں مل بیٹھ کر سب سے پہلے ملک کو معاشی بحران سے نکالیں، پھر انگریزوں کے دور کے بنے ہوئے قوانین میں تبدیلیاں کی جائیں، عدالتوں کو غیر جانبدار بنایا جائے، نئے سماجی معاہدے ترتیب دئیے جائیں، ٹیکس کے نظام میں تبدیلیاں کی جائیں، قبائلی عوام کو اُن کے حقوق دئیے جائیں، سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کی جلد سے جلد تکمیل کی جائے تو یقین جانئیے کہ ملکِ پاکستان اگلے پانچ سالوں میں خطے میں چین کے بعد دوسرے نمبر کا ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔

پاکستان کے تمام مسائل کا اس وقت صرف اور صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ایک حقیقی، سچا، کھرا اور دلیر رہنما۔ اس سلسلے میں عوام کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ عوام کو بجائے اس کے کہ اللہ کرے عمران خان آ جائے، اللہ کرے نواز شریف آ جائے، اللہ کرے شہباز شریف آ جائے کی بجائے یہ دُعا کرنی چاہئیے کہ یا الٰہی ہمارے ملک کو ایک حقیقی، سچا، کھرا اور دلیر رہنما عطا فرمائیے جو ہمارے اور ُملک کے حق میں بہتر ہو۔ آمین ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :