کامیابی اور ناکامی کا معیار

Kamyabi Aur Nakami Ka Mayyar

Mian Muhammad Nadeem میاں محمد ندیم منگل 4 اپریل 2023

Kamyabi Aur Nakami Ka Mayyar
وہ اپنے وقت کا ایک معروف شخص تھا اس کے گرد ایک ہجوم رہتا وہ جنہیں دوست سمجھتا تھا جونہی اچھا وقت ختم ہوا سب غائب ہوگئے ‘سالوں کی دوستیاں گھنٹوں میں بھلادی گئیں یہاں تک جنہیں وہ سب سے قریبی دوست سمجھتا تھا انہوں نے کبھی فون کرکے بھی نہیں پوچھایہی وقت تھا جب اسے گہرے ڈپیریشن نے آن گھیرا-چند دوست تھے جو اسے ملنے آجاتے ‘اس کا ڈیپریشن بڑھتا جارہا تھا میں اس کی کہانی میں دلچسپی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ میں بھی ان حالات سے گزرا تھا‘خود کو صحافتی سیاست کے برج کہلانے کئی سیاسی بونے اس کی فناسنگ پر سیاست کرتے تھے-بڑے‘بڑے پھنے خان کی گاڑیوں کا پیٹرول اور سگریٹ تک وہ خریدکردیا کرتا جس کا میں عینی شاہد ہوں‘ہمارا تعلق دہائیوں پر مشتمل ہے ‘اکھٹے کام بھی کیا اور سیاست بھی لاہور کی کاروباری شخصیات سے اس کی ذاتی دوستیاں تھیں ‘دوستوں کو اکھٹا کرنا‘کھانے کھلانا اس کا شوق تھا مگر جب برا وقت آیا تو سارے پرندے اڑگئے-اس نے کئی ”دوستوں“کو ان کاروباری شخصیات سے ملوایا اور ان ”دوستوں“نے سب سے سے پہلے اس کی ہی جڑیں کاٹیں شاید انہیں خوف تھا کہ اس کی موجودگی میں ”مقاصد “حاصل کرنا ممکن نہیں پھر ہمارا دوست بیماری کا شکار ہوکر کئی سال تک گھر تک محدودہوگیا ایک انتہائی مخلص اور نیک سیرت دوست نے اس کا کچن چلانے کے لیے اسے ایک نوکری دیدی- یوں اس کا کچن چلتا رہا میں نے اسے منع کیا تھا کہ وہ اپنے سارے تعلقات ان پر ظاہر نہ کرئے مگر اس سادہ لوح بندے کو کیا علم تھا کہ یہی لوگ اسے ان محفلوں میں اجنبی بنادیں گے جن میں انہیں متعارف کروانے والا وہ تھا‘ایک ملاقات میں ہماری دیر تک ایک معاملے پر بحث ہوئی تو آخرکار وہ مان گیا اگلے دن اس نے مجھے فون کرکے بتایا کہ میں نے سرینڈر کردیا ہے میرے لیے وہ بہت خوشی کا دن تھا کیونکہ جب ساری دنیا آپ کو چھوڑجائے اور صرف اللہ سبحان وتعالی کی ذات ہی ساتھ رہ جائے تو اس سے بڑی خوش بختی کوئی نہیں ہوتی -اللہ سبحان وتعالی نے ہمارے دوست کو اپنی قربت سے نوازنے کے لیے لوگوں سے دور کردیا تھاوہ جونہی اللہ سبحان وتعالی کے قریب ہوتا گیا اس کا ڈپیریشن کنٹرول ہوتا چلا گیا ‘انسان ہیں کبھی ‘کبھار گلا کرتا ہے مگر منیرنیازی کی طرح اس نے بھی ایک ”ڈیفنس میکنزم“قائم کررکھا ہے جب بھی ذہنی دباﺅ بڑھتا ہے تو وہ خود کو ایک خول میں بند کرلیتا ہے ایسا خول جس میں زمان ومکاں کی قید رہتی ہے نہ ہی کسی منافق کی منافقت اثراندازہوتی ہے-چند روزپہلے رات دو بجے کے قریب آگیا ہم دونوں  قریبی مسجد میں جابیٹھے کہ جتنا سکون اللہ کے گھر میں ملتا وہ کسی بڑے سے بڑے محل میں بھی میسرنہیں ہوتا اس نے بتایا کہ رمضان کے علاوہ بھی اس کی راتیں اپنے رب سے باتیں کرتے گزرتی ہیں ‘کہنے لگا کہ میں ہررات اپنی عزت کا صدقہ کرتا ہوں”نبی رحمت صل اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوکرپوچھا کہ رات کو صدقہ کس نے کیا ہے؟تو سب خاموش رہے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کواپنی عزت کا صدقہ کس نے کیا ہے؟تو ایک غریب صحابی کھڑے ہوگئے اور عرض کیا یارسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال نہیں تو میں کیا صدقہ کروں؟جب مجھے کچھ سمجھ ناں آیا میں نے سجدے میں گرکراللہ کو پکارا کہ جس ‘جس نے مجھے بے عزت کیا‘ذلیل کیا‘حقیرجانا میں اپنی عزت کا صدقہ کرتے ہوئے انہیں معاف کرتا ہوںجس پر نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی کہ میرے رب کا پیغام ہے کہ تیرا صدقہ قبول ہوچکا ہے-حدیث مبارکہ کے اس مفہوم نے مجھے ہلا کررکھ دیا کہ ہم کتنی کدورتیں ‘نفرتیں اور حسد پال کر زندگی گزار دیتے ہیں اور ہمیں کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا میں اپنے دوست کا ممنون ہوں کہ اس رات کے بعد میں نے بھی اسے معمول بنالیا ہے کہ سونے سے پہلے کم ازکم ایک بار اس عمل کو دہراتا ہوں چونکہ ہم انسان ہے دل میں دوبارہ غبارآجاتا ہے تو اس کو پھر دھولیا کریں -اللہ کے نبی علیہ اسلام نے حضرت انس رضی اللہ وتعالی عنہ کو نصیحت فرمائی تھی کہ اپنے دل کو دن ‘رات دھویا کرو ‘انس رضی اللہ وتعالی نے تو بچوں کی طرح آپ ﷺ کے کی خدمت اقدس میں پرورش پائی تھی انہیں دن‘رات دل کو دھونے کی نصیحت فرمائی گئی ہم تو ان کے جوتوں کی خاک کے برابربھی نہیں مگر کوشش کرتے رہنا چاہیے -ہاں یہ درست ہے کہ کچھ ”اپنوں“کے دیئے زخم بھلائے نہیں بھولتے مگر کوشش کرنی چاہیے کہ انہیں بھی معاف کردیں تاکہ اللہ سبحان وتعالی ہم پر رحم فرمائیں باقی یہ چار دن کی زندگی تو محض ایک امتحان گاہ بیوقوف ہیں جو مال ودولت کو کامیابی سمجھتے ہیں ‘کامیابی کا فیصلہ تو رب العزت محشرکے روزفرمائیں گے اس دن پتہ چلے گا کہ کامیاب کون ہوا اور ناکام کون رہا؟ آپ اپنے گرد نگاہ دوڑائیں آپ کو اکثریت ایسے بیوقوں کی ملے گی جو دنیا کے مال ومتاع کو کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ جنہوں نے کسی نہ کسی حد تک خود کو دین سے جوڑا ہوا ہے انہیں دقیانوسی‘ دیوانے جبکہ فراڈ‘دھوکہ دہی‘رشوت یہاں تک کہ قبیح ترین ذرائع سے پیسہ کمانے والوں کو ”سمارٹ“ کہتے ہیں-زندگی میں معمول بنالیں کہ سونے سے پہلے آخری اور صبح جاگنے کے بعد سب سے پہلا کام اپنے دل کو دھوئیں گے ‘اللہ سبحان وتعالی سے معافی مانگیں وہ بڑا کریم ہے ‘استغفار کے لیے کوئی بھی دعا کسی بھی زبان میں مانگی جاسکتی ہے مگر ایک دعا خود اللہ سبحان وتعالی نے سورة المؤمنون کی آیت نمبر118 میں ان الفاظ میں بیان فرمائی "وَ قُلۡ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ”
ترجمہ:اور کہو کہ اے میرے رب! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں سے بہتر مہربانی کرنے والا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :