ًًًًًًًًًًEpisode 5 - Teen Safar By Wazir Agha

قسط نمبر 5 - تین سفر - وزیر آغا

۱۹/ اگست آج ہم صبح دس۱۰ بجے و ِکٹوریا اَینڈ البرٹ میوزیم پہنچ گئے اَور پھر تقریباً تین۳ گھنٹے تک اُس کی سات۷ میل لمبی گیلریوں میں پھرتے رہے۔ لندن کے دُوسرے میوزیم بھی بہت شاندار ہیں مگر یہ میوزیم اپنی وسعت اَور تنو ّع کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ اِس میں کیا کچھ ہے یا کیا کچھ نہیں ہے‘ اِس کا اَندازہ اِس بات سے لگائیے کہ قدیم مجسموں اَور تصویروں کے علاوہ پوری کی پوری دیواروں‘ میناروں اَور دروازوں تک کی نقلیں اِس خوبی سے تیار کی گئی ہیں کہ اصل اَور نقل میں تمیز کرنا مشکل ہے۔
اِس میوزیم میں قدیم اَور جدید کا خوبصورت اِمتزاج نظر آتا ہے۔ نیز یہ میوزیم Spatial Aspects اَور Temporal Aspects کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ مراد یہ کہ کلچر کے لا تعداد مظاہر اَور ز ِندگی کے بے شمار شعبوں کو یکجا دیکھنے سے اِس کرہ ٴ اَرض کی ُبو قلمونی اَور وسعت اَور پیٹرن کا احساس اُبھرتا ہے جو اِس کے اُفقی رُخ کا نمائندہ ہے… بالکل جیسے ہم زمین پر بچھا ہوا کوئی قالین دیکھ رہے ہوں؛ لیکن جب ہم اِس کرہ ٴ اَرض کی تہذیب کو وقت کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو پیٹرن کے بجائے آہنگ کا احساس ہوتا ہے جو تاریخ کے مراحل کو عبور کرتے ہوئے اَساطیر کے زمانے تک کے مد و جزر کا منظر د ِکھاتا ہے۔

(جاری ہے)

اِس میوزیم میں اگر چند گھنٹے َصرف کیے جائیں تو ز ِندگی بیک وقت اپنے سارے پیٹرن اَور آہنگ کے ساتھ کروٹیں لیتے محسوس ہوتی ہے اَور دیکھنے والے کو یوں لگتا ہے جیسے وہ خود بھی ز ِندگی کے اِس بے کنار اَور عمیق سمندر کی ایک لہر ہے۔ دو۲ بجے کے قریب واپس کن وے سٹریٹ پہنچے تو میں ُمو ُبمو ُچور اَور عضو عضو نڈھال تھا جبکہ سلیم کو شکایت تھی کہ وہ پوری طرح گھوم پھر نہیں سکا۔
لہٰذا وہ مجھے سیون اَپ کے چند ڈ ِبوں اَور ٹیلی و ِژن کی معیت میں چھوڑ کر خود گھومنے چلا گیا اَور میں شام تک سیون اَپ پینے اَور ٹیلی و ِژن دیکھنے میں مصروف رہا۔ یہاں کے ٹیلی و ِژن کے چار۴ چینل ہیں۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ٹیلی و ِژن جاگ اُٹھتا ہے اَور پھر رات بارہ۱۲ بجے تک نان سٹاپ چلتا ہے۔ ہفتہ اَور اِتوار چھٹی کے د ِن ہیں… اِن دو۲ د ِنوں میں زیادہ تر ڈاکومنٹریز (documentaries)د ِکھائی جاتی ہیں یا پھر طویل فلمیں اَور جادُو گروں کے کرتب اَور بچوں کے پروگرام وغیرہ؛ مگر باقی پا۵نچ د ِنوں میں خبر کو زیادہ اَہمیت ملتی ہے۔
اِس کرہ ٴ اَرض کے بعید تریں گوشے میں ہونے والا واقعہ بھی آ ِن واحد میں سکرین پر آ جاتا ہے اَور پھر یہ نہیں کہ ٹیلی و ِژن والے خبر کی ترسیل کے بعد خواب ِ خرگوش میں مبتلا ہو جاتے ہوں‘ وہ لمحہ بہ لمحہ خبر کا اِس طور ساتھ دیتے ہیں جیسے ِشگفتن گل کا سارا منظر د ِکھا رہے ہوں۔ صبح کی خبر شام ڈھلنے تک اپنے پورے سیاق و سباق کے ساتھ ناظرین کے سامنے آ چکی ہوتی ہے۔
مثلاً برمنگھم کے ایک ہسپتال میں کسی عورت کے ہاں بیک وقت سات۷ بچے پیدا ہوئے تھے… اِس بات کو کئی روز گزر گئے ہیں مگر ہر روز اِن بچوں کے بارے میں بڑے اِلتزام کے ساتھ خبریں پیش کی جا رہی ہیں۔ آج تک ٹیلی و ِژن والے اِن میں سے پا۵نچ بچوں کی موت کی خبریں اَور اِن خبروں پر تبصرے ٹیلی کاسٹ کر چکے ہیں۔ خیال ہے کہ آئندہ دو تین د ِنوں میں باقی دو۲ بچوں کی موت کی خبریں بھی سنا دیں گے کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق اُن کے جانبر ہونے کا اِمکان بہت کم ہے۔
دو تین روز ہوئے‘ یہ خبر آئی تھی کہ ایک بچہ کسی مشینی جھولے سے ِگر کر َ مر گیا… یہ حادثہ دیکھنے والوں میں سے دس۱۰ آدمی وہیں بے ہوش ہو گئے اَور اُنھیں ایمبولنس میں ڈال کر ہسپتال پہنچانا پڑا۔ یہ لوگ شخصی سطح پر اِتنے رحم د ِل اَور ہمدرد ہیں کہ پرندے یا جانور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے… یوں لگتا ہے‘ جیسے َجین َمت کے پیرو کار ہوں۔
مگر اِن پر اِجتماعی طور پر ‘پاگل پن کی ایک خاص قسم کا حملہ وقتاً فوقتاً ہو جاتا ہے۔ مثلاً ٹیلی و ِژن پر خبر آئی ہے کہ لندن سے سا۶۰ٹھ میل دُور، ہنگر فورڈ کے قصبے کا ایک باسی‘ جو بظاہر نارمل ز ِندگی بسر کر رہا تھا‘ یکایک ابنارمل حرکات کرنے لگا… بندوقیں اَور رائفلیں جمع کرنا اُس شخص کی ہابی (hobby) تھا اَور وہ ایک مانا ہوا نشانچی بھی تھا مگر ِخلق خدا سے کٹا ہوا‘ تنہائی کی ز ِندگی بسر کرتا تھا… عمر تقریباً ستائیس۲۷ برس تھی: اچانک اُس کے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ (اِس میں موسم کا ہاتھ بھی ہوگا کیونکہ پچھلے دو ایک روز سے‘ یہاں کے لوگوں کے مطابق ،سخت گرمی پڑ رہی تھی اَور درجہ ٴ حرارت ۲۷ سنٹی گریڈ تک چلا گیا تھا: ہمارے ہاں اگر ۲۷ سنٹی گریڈ ہو تو ہم خدا کا شکر بجا لاتے ہیں کہ موسم خوشگوار ہو گیا) اُس نے اپنی ماں کو گولی مار دی‘ پھر اپنے گھر کو نذر ِ آتش کیا‘پھر چینی کلاشنکوف لے کر سڑک پر نکل آیا اَور ایک پولیس مین اَور ٹیکسی ڈرائیور سمیت چودہ۱۴ اَفراد کو مار دیا اَور تقریباً اِتنے ہی لوگوں کو زخمی کر دیا؛ پھر اُس نے سکول کی ایک عمارت میں پناہ لے لی اَور جب اُس نے دیکھا کہ پولیس نے عمارت کو گھیرے میں لے لیا ہے تو رائفل سے خود کو بھی ہلاک کر لیا… چلیے قصہ ختم ہوا… ایک بالکل بے معنی واردات جس کا نارمل ز ِندگی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں تھا… اِس قسم کے واقعات کہیں سالوں بعد رُونما ہوتے ہیں ‘ورنہ عام ز ِندگی میں یہاں کے باشندے قانون اَور ضابطے کے اِس قدر پابند ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
۲۰/ اگست افتخار عارف تشریف لے آئے۔ اِس سے قبل وہ دو تین بار ٹیلیفون کر چکے تھے مگر رابطہ قائم نہ ہو سکا تھا؛ پھر اُن کی اپنی مصروفیات بھی تھیں۔ بہر حال جب ملے تو تاخیر کی پوری طرح تلافی ہو گئی۔ نہایت محبت کرنے والے دوست ہیں۔ ہم دیر تک بیٹھے‘ لندن اَور اُردو مرکز اَور پاکستان کی باتیں کرتے رہے۔ اُنھیں اُردو مرکز پہنچنا تھا اَور وہ مجھے اُردو مرکز د ِکھانا چاہتے تھے۔
دُوسری طرف ہم نے نیشنل گیلری آف آرٹ دیکھنے کا اِرادہ کر رکھا تھا۔ سو یہ طے پایا کہ ہم نیشنل گیلری دیکھنے کے بعد دو۲ بجے دوپہر اُردو مرکز پہنچ جائیں گے۔ میرے لیے اِس گیلری میں گھومنا ایک رُوحانی تجربہ تھا۔ میں مصو ّری کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہا ہوں اَور بعض شاہکاروں کی تصاویر بھی دیکھ ُچکا ہوں؛ مگر د ِل میں اصل شاہکاروں کو دیکھنے کی خواہش ہمیشہ رہی ہے۔
نیشنل گیلری آف آرٹ میں داخل ہو کر احساس ہوا کہ میں تو صرف چند مشہور مصو ّروں کے نام اَور کام سے واقف تھا جبکہ غیر معروف مصو ّروں نے بھی کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ سپین‘ اٹلی‘ ہالینڈ اَور اِنگلستان وغیرہ کے مصو ّروں کی الگ الگ گیلریاں تھیں۔ بعض کی تصاویر تو میں کئی بار دیکھ ُچکا تھا اَور وہ میرے ذہن میں اِس قدر تازہ تھیں کہ میں دُور ہی سے اُنھیں پہچاننے پر قاد ِر تھا۔
مثلاً مجھے ایک جگہ Valesoueze کی Toilet of Venus د ِکھائی دی تو میں بے اِختیار سا ہو کر اُس کی طرف لپکا اَور دیر تک کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔ اِسی طرح Turner کی Sunrising through Vapours نے بھی قدموں اَور آنکھوں کو گویا ”پکڑ“ لیا۔ میں بطور ِ خاص Pousin Goya اَور Rembrandt کے شاہکار دیکھنا چاہتا تھا۔ ریمبراں کے بہت سے شاہکار دیکھنے کو ملے‘ بالخصوص اُس کے شاہکار Portrait of Fredrick Richel نے بہت متاثر کیا۔
اِس گیلری میں اُستاد اللہ بخش اَور عبدالرحمن چغتائی کو کوئی جگہ نہیں ملی تھی (بہت افسوس کی بات ہے)۔ چغتائی کا فن ا ِہل مغرب کے لیے اجنبیت کا حامل ہو سکتا ہے مگر اُستاد اللہ بخش کے پورٹریٹ نیز دیہی مناظر کی مصو ّری ”چیزے دیگر است“ اَور نیشنل گیلری آف آرٹ کے Portraits دیکھنے کے بعد تو یہ بات ذہن میں پوری طرح واضح ہو گئی کہ اُستاد اللہ بخش کی تصویریں کسی صورت بھی اِن Portraits سے کم مرتبے کی نہیں ہیں۔
خود عبدالرحمن چغتائی نے جو Portraits بنائے تھے اَور جنھیں اُنھوں نے بوجوہ اپنے گھر کے بالا خانے میں مقفل کر دیا تھا (ایک بار اُنھوں نے مجھے اَور عارف عبدالمتین کو بطور ِ خاص یہ پورٹریٹ د ِکھائے تھے اَور ہم حیرت زدہ ہو کر َرہ گئے تھے)‘ مصو ّری کے ناقا ِبل فراموش نمونے ہیں۔اُنھیں چاہیے کہ یہ نمونے حاصل کرکے‘ نیشنل گیلری میں محفوظ کر لیں! شام کو پرم روز ِہل دیکھنے کا اِرادہ تھا۔
اُردو مرکز میں بیٹھے بیٹھے پا۵نچ بج گئے تو ہم‘ افتخار عارف سے اِجازت لے کر اَور دُوسرے روز آنے کا وعدہ کرکے‘ پرم روز گارڈن کی طرف چل دیے۔ سلیم حسب ِ معمول پیدل چلنے پر بضد تھا۔ گو کہ میں اپنے گاوٴں میں ہر روز تین چار میل پیدل چلنے کا عادی ہوں مگر لندن میں آٹھ دس میل چلنا میرے بس کا روگ نہیں۔ میں ہر میل دو میل چلنے کے بعد کسی نہ کسی بنچ پر بیٹھ جاتا ہوں اَور مطالبہ کرتا ہوں کہ پہلے مجھے سیون اَپ پلایا جائے‘ پھر آگے چلوں گا: سو سلیم اِدھر اُدھر بھاگتا ہے‘ کہیں سے سیون اَپ کا ڈ ِبا حاصل کرتا ہے اَور میں اُسے پیتا ہوں اَور اگلے بنچ کی طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔
آج شام بھی یہی کچھ ہوتا رہا مگر پرم روز گارڈن میں سیون اَپ دستیاب نہیں تھا۔ مجھے پیاس بھی بہت لگی تھی اَور آج گرمی بھی خاصی تھی۔ تاہم اِس گارڈن کی پہاڑی پر چڑھ کر لندن کو دیکھنا بھی ضروری تھا۔ بہر حال ہم نے پہاڑی پر چڑھنا شروع کیا۔ سلیم نے مجھ سے وعدہ لے لیا تھا کہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنے سے قبل‘ َمیں ُمڑ کر لندن کو دیکھنے کی کوشش نہیں کروں گا تاکہ منظر اَپنی پوری وسعت کے ساتھ مجھے ایک ہی بار د ِکھائی دے۔
جب ہم چوٹی پر پہنچ گئے اَور میں اپنا سانس درست کر ُچکا تو سلیم کے کہنے پر اچانک ُمڑ کر لندن پر ایک نظر ڈالی تو ایک ِسحر زدہ اِنسان کی طرح لندن کی بڑی بڑی عمارتوں کو اَپنے قدموں میں شطرنج کی بساط کی طرح بچھے ہوئے دیکھتا چلا گیا۔ لندن میں پھرتے ہوئے اِس کی عمارتوں‘ پارکوں اَور سڑکوں کو دیکھنے کا موقع تو ملتا ہے‘ مگر پورے لندن کو دیکھنا ہو تو اِس کے لیے پرم روز کی پہاڑی سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔
۲۱/ اگست آج میں نے پہلا کام یہ کیا کہ پکاڈلی سرکس میں کتابوں کی ایک بہت بڑی دُکان میں گھس گیا۔ کتابوں کی بڑی بڑی دُکانیں تو لاہور اَور کراچی میں بھی ہیں مگر لندن کی دُکانوں کی خوبی یہ ہے کہ اِن میں تازہ تریں کتب کے علاوہ بہت پرانی کتب بھی دستیاب ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ کون سی کتاب خریدوں اَور کون سی چھوڑ دُوں۔
پھر جیب کی تنگ دامانی بھی ہمہ وقت نظروں کے سامنے تھی۔ لہٰذا میں دُکان کے اَنڈر گراوٴنڈ حصے میں چلا گیا جہاں پیپر بیک کتابوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ میں نے سات۷ کتابیں خریدیں جن میں رولاں بارت کی کتاب Mythologies اَور Feminist Literary Criticism کے بارے میں ایک کتاب Making a Differenceبھی تھی… مجھے ایک عرصے سے اِن دونوں کتابوں کی تلاش تھی۔ کتابیں خریدنے کے بعد ہم اُردو مرکز پہنچ گئے جہاں رضا علی عابدی سے ملاقات ہوئی؛ وہیں محمود ہاشمی اَور کچھ اَور لوگ بھی آ گئے۔
دیر تک اُردو زبان و اَدب کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ ٹیلیفون پر مشتاق احمد یوسفی اَور شاہد ملک سے بھی رابطہ ہوا۔ مشتاق احمد یوسفی سے تو ابھی ملاقات نہیں ہوئی‘ البتہ آج شام شاہد ملک سے ملاقات ضرور ہو گئی۔ اُنھوں نے مجھے بی بی سی کے بش ہاوٴس میں بلایا تھا کہ وہ بی بی سی کی اُردو سروس کے لیے میرا اِنٹرو ِیو لینا چاہتے تھے۔ محسن شمسی‘ محمود ہاشمی اَور سلیم میرے ساتھ ہی گئے۔
وہاں ثریا بھی مل گئیں۔ شاہد ملک سے کسی زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ملاقات ہوئی تھی۔ جدید اُردو نظم کے عاشق ہیں اَور خود بھی نظمیں لکھتے ہیں۔ اُنھوں نے میرا اِنٹرو ِیو لیا …وہ پچھلے چالیس۴۰ برس کی تخلیقات اَور اِس عرصے میں اُبھرنے والی اَدبی تحریکات کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ اِنٹرو ِیو خاصا طویل تھا؛ اُنھوں نے بتایا کہ اگلے ماہ‘ دو۲ مختلف موقعوں پر نشر ہوگا۔
واپس اپنے کمرے میں آئے تو جتندر بلو اَور راج کھیتی سے مل کر جی خوش ہو گیا۔ کسی زمانے میں راج کھیتی سے خط کتابت ہوئی تھی۔ اُنھوں نے اپنی نظموں اَور غزلوں کا تازہ مجموعہ عنایت کیا۔ اِس کا پیش لفظ بلراج کومل نے لکھا ہے۔ ۲۲/ اگست آج دوپہر ہم دونوں کیو گارڈن دیکھنے گئے۔ لندن میں خوبصورت پارکوں کی کوئی کمی نہیں؛ مگر کیو گارڈن کی بات ہی نرالی ہے۔
یہ اِنگلستان کے بادشاہوں کا باغ تھا مگر اَب اِسے پبلک کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ تاہم اِنگلستان کی ملکہ اَب بھی کبھی کبھی یہاں آ تی ہیں۔ یہ جگہ بیک وقت ایک باغ بھی ہے‘ جنگل بھی اَور دُنیا بھر کے ناد ِر و نایاب پودوں کا عجائب گھر بھی! ہم اِس کے اَندر دو تین فرلانگ ہی گئے تھے کہ وقت کے اَندر ہزاروں برس کی َمسافت طے کر گئے… یہاں ایسے عجیب و غریب‘ نہایت قدیم درخت تھے کہ ہم جگہ جگہ اُنھیں دیکھنے اَور چھونے کے لیے رُک جاتے۔
اِس باغ میں ندیاں اَور جھیلیں بھی ہیں۔ سامنے پگوڈا کا ایک بلند و بالا مینار نظر آیا تو ہم سڑکوں اَور رو ِشوں کو ترک کرکے جنگل کے راستے اُس کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر اُس کے پاس ایک بنچ پر بیٹھ گئے اَور تادیر اُس عمارت کو دیکھتے رہے۔ معاً آسمان سے گرج سنائی دی اَور جنوب کی طرف سے کالی گھٹا اُٹھتے ہوئے نظر آئی۔ ہم بھاگ کر کیو گارڈن کے کیفے ٹیریا میں گھس گئے۔
اڑھائی بج رہے تھے اَور سینکڑوں سیاح کھانے پر جھپٹ رہے تھے۔ ہم نے بھی کاغذ کی پلیٹیں اُٹھائیں اَور مختلف قسم کے کھانے لیے کاوٴنٹر پر آ گئے؛بل ( تقریباً ساڑھے چار پاوٴنڈ) اَدا کیا اَور پھر ایک میز پر قبضہ کرکے کھانے میں مصروف ہو گئے۔ اِسی دوران میں باہر بوندا باندی شروع ہو گئی۔ ہم نے کھانے کی رفتار کم کر دی تاکہ بوندا باندی ختم ہونے تک ہم کیفے ٹیریا ہی میں بیٹھے رہیں۔
بوندا باندی رُکی تو ہم Temperate House کی طرف روانہ ہوئے۔ شیشے کی اِس عمارت میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے ہم لندن میں نہیں‘ ایک اُڑن کھٹولے میں بیٹھے دُنیا جہاں کے دُور اُفتادہ جنگلوں اَور وادیوں میں گھوم رہے ہیں۔ اِس عمارت کا ٹمپریچر ایک خاص حد کے اَندر رکھا گیا ہے تاکہ گرم مرطوب ممالک کے پودے‘ درخت اَور جھاڑیاں محفوظ رہ سکیں۔ نیوزی لینڈ‘ امریکہ‘ افریقہ حتیٰ کہ مشر ِق بعید اَور جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر خاص پودے اَور درخت اِس عمارت میں موجود ہیں۔
ہم نے پام کا ایک بہت بڑا درخت دیکھا جس کا نام Julia Chilensis ہے… اِتنا بڑا پام میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا… فلموں میں بھی نہیں! پھر جاپانی کیلوں کے پودے نظر آئے۔ آسٹریلین ہاوٴس میں آسٹریلیا کے عجیب و غریب پودے اَور جھاڑیاں تھیں۔ شیشے کی اِن عمارتوں میں داخل ہو کر‘ ّسیاح محسوس کرتا ہے جیسے وہ پوری دُنیا کا شہری بن گیا ہے اَور پاسپورٹ اَور ویزا کے بغیر ہی ہر ملک کی َسیر کر رہا ہے! ٹمپریٹ ہاوٴس سے نکلے تو ہم راستہ بھول گئے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ ہم کسی پارک میں راستہ بھولے تھے۔ ہم جگہ جگہ ّسیاحوں کو روک کر اُن سے راستہ پوچھتے؛ وہ جیبوں میں سے نقشے نکال کر ہماری رہنمائی کرنے لگتے۔ معلوم ہوا‘ وہ بھی راستہ بھولے ہوئے ہیں۔ کیو گارڈن اِتنا بڑا ہے کہ اِس میں ہر شخص راستہ بھول سکتا ہے۔ لندن جیسے بڑے شہر میں جہاں سڑکوں‘ گلیوں اَور بازاروں کو نمبروں اَور سائن بورڈوں سے نشان زد کر کے‘ بھٹکنے کے اِمکانات کو ختم کر دیا گیا ہے‘ ایک ایسے باغ کی اَشد ضرورت تھی جس میں اِنسان راستہ بھول سکے‘ اَور اُسے تلاش کرنے کے لیے اپنی مخفی قو ّتوں کو بروئے کار لائے۔
ہم عجیب و غریب نشانات کی مدد سے اپنا راستہ تلاش کرنے لگے۔ مثلاً سلیم کا خیال تھا کہ جب َسر پر سے جہاز شمال سے جنوب کی طرف جاتا د ِکھائی دے تو جان لیجیے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں؛ لیکن ہر پا۵نچ منٹ کے بعد آسمان سے گزرنے والا کوئی بھی جہاز جنوب کی طرف رواں نہیں تھا۔ میں نے کہا: ہم جس راستے سے باغ میں داخل ہوئے تھے‘ وہاں ایک قوی ہیکل درخت پر میں نے ایک موٹا سا کو ّا دیکھا تھا… اگر وہ کو ّا نظر آ جائے تو سمجھو کہ راستہ مل گیا۔
اِسی دوران میں تیز بارش شروع ہو گئی اَور بجلی کی چمک اَور کڑک نے کہرام برپا کر دیا۔ دراصل ہم دونوں ایک Thunder Storm میں گھر گئے تھے۔ ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی‘ کوئی ذی رُوح د ِکھائی نہ دیا۔ نہ جانے اُن لوگوں نے کہاں پناہ لے لی تھی! ہم بھاگ کر درختوں کے ایک ذخیرے میں داخل ہو گئے جو اِتنا گھنا تھا کہ آسمان صاف بھی ہو تو سورج نظر نہ آئے۔ ہم خاصی دیر تک اُس ذخیرے میں چھپے رہے۔
بھیگ تو ہم یہاں بھی رہے تھے مگر کم اَز کم بجلی کی زد سے محفوظ تھے۔ میرے د ِل میں جو خطرہ پھڑپھڑا رہا تھا‘ وہ اَیسا غلط بھی نہیں تھا … رات ٹیلی و ِژن نے اِطلاع دی تھی کہ لندن سے تقریباً پچاس۵۰ میل دُور کرکٹ کے ایک کھلاڑی پر‘ جو کرکٹ کے میدان سے پولین کی طرف بھاگ رہا تھا‘ بجلی کا کوندا ِگرا اَور وہ بیچارہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ بارش رُکی تو ہم اپنی کمین گاہ سے باہر نکلے اَور کچھ عرصے تک باغ میں بھٹکتے پھرے۔
پھر نہ جانے کہاں سے ّسیاح برآمد ہونے لگے اَور وہاں دوبارہ چہل پہل ہو گئی۔ معاً ہمیں ایک جھیل د ِکھائی دی جسے ہم نے فی الفور پہچان لیا کہ باغ میں داخل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ہمیں یہ جھیل د ِکھائی دی تھی۔ سو ہم نے اُس جھیل کا دامن پکڑا اَور چل پڑے۔ آدھ گھنٹے میں ہمیں مین گیٹ نظر آ گیا اَور ہم لپک کر گیٹ سے باہر آ گئے۔ ہم دونوں ایک ڈیڑھ بجے کے قریب اِس باغ میں داخل ہوئے تھے‘ باہر نکلے تو ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔
شام چھے۶ بجے اُردو مجلس کے زیر ِ اہتمام ایک محفل کا اِنعقاد کیا گیا تھا۔ قیصر تمکین‘ مشیر علوی‘ محسنہ جیلانی‘ پرتو روہیلہ‘ شعور کاظمی‘ راج کھیتی‘ آصف جیلانی‘ جتندر بلو‘ عباس زیدی (جو اُردو مجلس کے رُو ِح رواں ہیں)‘محمود ہاشمی‘ محسن شمسی‘ امینہ بیگم اَور دُوسرے احباب جمع ہو گئے تھے۔ بہت سے اَدبی اَور غیر اَدبی موضوعات پر تند و تیز باتیں ہوئیں۔
مجھ سے کہا گیا کہ پہلے اپنا کلام سناوٴں‘ پھر پاکستان میں جدید تنقید کے بارے میں کچھ بتاوٴں۔ میں بہت کم مشاعروں میں اپنا کلام سناتا ہوں مگر لندن میں آئے ہوئے ہر مہمان سے کلام ضرور سنا جاتا ہے۔ لہٰذا میں نے چند غزلیں اَور نظمیں سنائیں؛ پھر جدید اُردو تنقید کی باری آئی تو میں نے کہا: مغرب میں تنقید کے جو چار۴ سلسلے موجود رہے ہیں (تصو ّف کے چار۴ سلسلوں سے اُن کا کوئی تعلق نہیں)‘ وہی اُردو کی جدید تنقید میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
مثلاً ایک تو Mimetic Theories کا سلسلہ ہے جو اَدب کو ز ِندگی کا عکس قرار دیتا ہے اَور جس کے تحت فن پارے کا جائزہ لیتے ہوئے نقاد خود سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ فن پارہ فطرت کے مطابق ہے… اگر مطابق ہے تو سبحان اللہ‘ اگر نہیں تو کچھ نہیں۔ دُوسرا سلسلہ Pragmatic Theories کا ہے جو اِفادیت اَور مقصدیت کی بات چھیڑتا ہے اَور جس کا نقاد یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا فن پارہ سوسائٹی کے مطالبات کو پورا کرتا ہے… ہمارے ہاں کے ترقی پسند اَور اِسلام پسند دونوں طرح کے ناقدین اِسی سلسلے کے تابع ہیں: گو دونوں کے مقاصد میں ُبعد ُ القطبین ہے‘ تاہم دونوں مقصد کی ڈور سے چمٹے ہوئے ہیں۔
تنقید کا تیسرا سلسلہ وہ ہے جسے Expressive Theories کا سلسلہ کہنا چاہیے۔ اِس کا ر ِشتہ ورڈز َورتھ کے اِس نظریے پر قائم ہے کہ Poetry is spontaneous overflow of powerful feelings …مراد یہ کہ فن‘ فنکار کے داخل کا اِظہار ہے‘لہٰذا نقاد پر لازم آتا ہے کہ وہ فن پارے کا جائزہ لیتے ہوئے خود سے پوچھے آیا فن پارہ سچا ہے کہ نہیں اَور کیا فن پارہ‘ فنکار کے محسوسات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے یا اِس میں خلوص کی کمی اِسے آورد کے کھاتے میں ڈال رہی ہے! اَور تنقید کا چوتھا اَور آخری سلسلہ Objective Theories کا وہ سلسلہ ہے جس کے مطابق فن پارے کی حیثیت مقصود بالذات ہے‘ یعنی اُس کے اَجزا ُجڑ کر اَپنا ایک منفرد سٹرکچر یا پیٹرن بناتے ہیں… نقاد کا کام فن پارے کے اُس سٹرکچر یا پیٹرن کو دریافت کرنا ہے: اگر واقعی فن پارے کا ایک پیٹرن یا سٹرکچر ہے اَور نقاد نے اُسے دریافت کر لیا ہے تو یہی اصل بات ہے! میں نے مزید یہ عرض کیا کہ: جدید اُردو تنقید میں یہ چاروں سلسلے موجود ہیں۔
لہٰذا ہم یہ بات وثوق کے ساتھ َکہ ‘سکتے ہیں کہ اُردو تنقید‘ مغرب کی متوازی جدید تنقید سے متاثر ہے۔ کلام اَور گفتگو کے بعد دعوت ِ طعام تھی۔ بھوک اپنے پورے جوبن پر تھی۔ لہٰذا ہم سب کھانے پر اِس طور جھپٹے کہ نہ تو ہم نے کھانے کے پیٹرن کا خیال کیا اَور نہ ہی اُس کے آہنگ کا… حالانکہ جب ہم فن پارے پر ”جھپٹتے“ ہیں تو اِن دونوں باتوں کا خیال رکھتے ہیں۔
آج صبح مجھے اِطلاع ملی تھی کہ ساقی فاروقی‘ جزیرہ کریٹ کی ّسیاحت کے بعد واپس آ گئے ہیں (سنا ہے‘ وہ یکم/ اگست کو گئے تھے) اَور اَب میری تلاش میں مختلف لوگوں کو ٹیلیفون کر رہے ہیں۔ میں نے اُن کا ٹیلیفون نمبر حاصل کرکے‘ اُنھیں فون کیا تو آگے سے گنڈی یعنی بیگم ساقی بولیں۔ جب میں نے ساقی کا پوچھا تو اُنھوں نے فوراً میری آواز پہچان لی … آج سے کئی برس پہلے وہ بھی ساقی کے ساتھ سرگودھا آئی تھیں اَور اُنھوں نے کچھ وقت میرے گاوٴں میں بھی بسر کیا تھا۔
پھر ساقی کی آواز آئی‘ طے پایا کہ وہ اگلی صبح دس۱۰ بجے میرے ہاں آئیں گے اَور پھر مجھے ساتھ لے جا کر لندن کا وہ حصہ د ِکھائیں گے جو اُنھیں عزیز ہے۔ ۲۳/ اگست دس۱۰ بجے ساقی اَور گنڈی آ گئے اَور دیر تک بیٹھے رہے۔ میں نے کہا: پچھلے د ِنوں بحیرہ ٴ رُوم کے ایک جزیرے میں آگ لگ گئی تھی‘ جس سے مجھے اِس بات کا علم ہو گیا تھا کہ ساقی بحیرہ ٴ رُوم میں پہنچ ُچکا ہے۔
یہ سن کر ساقی بہت خوش ہوئے‘ کہا: وہ مجھے اُن عمارتوں کی ”زیارت“ کرانا چاہتے ہیں جہاں ٹیگور‘ ڈی ایچ لارنس اَور کیٹس کچھ عرصے کے لیے ٹھہرے تھے۔ سو ہم تیار ہو کر چل پڑے۔ گنڈی نے کہا کہ ہم اُسے گھر چھوڑ دیں کیونکہ اُسے کہیں جانا ہے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ راستے میں ہائیڈ پارک کارنر دیکھ لیا جائے جس کے بارے میں‘ میں نے بہت کچھ پڑھ سن رکھا تھا۔
چنانچہ ہم ایک جگہ رُکے اَور ہائیڈ پارک کارنر کے ہجوم میں گھس گئے۔ اُس وقت تین۳ جگہوں پر تقاریر ہو رہی تھیں۔ مقرر‘ سٹول پر کھڑے ہو کر لاوٴڈ سپیکر کے بغیر تقریر کرتا اَور دائرے میں کھڑا ہجوم اُس کی باتیں بغور سنتا۔ پہلا مقرر سوشلسٹ تھا جس کی تقریر کے دوران میں ایک ٹھگنے قد کا بد وضع انگریز بہ آواز ِ بلند مداخلت کر رہا تھا: وہ اُسے تقریر کرنے نہیں دے رہا تھا اَور ہجوم اُس کے ہر لطیفے پر قہقہے لگا رہا تھا۔
گنڈی کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔ اُس نے ٹھگنے قد کے انگریز کو ”شٹ اَپ“ ہونے کے لیے کہا جس پر موصوف نے پلٹ کر کہا: تو محض ایک ّسیاح ہے‘ تو اِن باتوں کو کیا سمجھے گی! جواباً گنڈی بولی: تم بھی مجھے انگریز د ِکھائی نہیں دیتے‘ آئرش لگتے ہو! اَب معاملہ سنگین ہونے لگا تھا؛ لہٰذا میں نے گنڈی اَور ساقی سے کہا کہ اگلے سٹول کی طرف چلتے ہیں۔ وہاں ایک سیہ فام پادری‘ بائبل ہاتھ میں لیے‘ عیسائیت کی تبلیغ کر رہا تھا۔
وہی ٹھگنا انگریز یہاں بھی آ دھمکا اَور مذہب کے بارے میں گستاخانہ لہجے میں باتیں کرنے لگا؛ مگر سننے والے اُس کی ایسی د ِل آزار باتوں پر بھی ہنستے رہے۔ پادری خاصا موٹا تازہ تھا اَور اُس کی آواز بھی خاصی بلند تھی۔ جب اُس نے ٹھگنے انگریز کی بات سنی تو ِ ّچلا کر بولا: You are a small man with a small head. اِس پر ہجوم نے پادری کو خوب داد دی اَور ٹھگنے قد کے انگریز کو وہاں سے بھاگنے کے سوا کوئی چارہ ٴ کار نظر نہ آیا۔
ہائیڈ پارک کا یہ کارنر ایک طرح کا Safety Valve ہے جو اَعصابی تناوٴ کو کم کرکے‘ لندن کے باسیوں کو دوبارہ نارمل سطح پر لے آتا ہے۔ ہائیڈ پارک سے نکل کر ہم ساقی فاروقی کے گھر جا پہنچے۔ اُن کا گھر بہت خوبصورت ہے۔ اُس نے حال ہی میں جو دو۲ نئی کاریں خریدی ہیں‘ وہ بھی نہایت خوبصورت ہیں۔ گھر میں ایک باغ ہے‘ وہ بھی خوبصورت ہے۔ کیٹس کے گھر کے پائیں باغ میں بلبل نغمہ سرا تھا۔
مجھے یقین ہے کہ ساقی کے باغ میں مینڈک ٹراتے ہوں گے کیونکہ اُس نے ایک نظم ایسی بھی لکھ رکھی ہے جسے میں Ode to Frog کہتا ہوں۔ ویسے کسی زمانے میں ساقی کے اِس باغ میں اُن کے چہیتے کچھوے بھی رہا کرتے تھے؛ مگر کچھوا بے وفا جانور ہے۔ بقو ِل ساقی‘ ایک روز کچھووں نے اپنے ایک کمزور ساتھی کو مار ڈالا اَور پھر اُس کی لاش کو سیڑھی کے طور سے اِستعمال کرکے‘ باغ کو پار کر گئے۔
اُنھیں ساقی کو دا ِغ جدائی دیے کئی سال ہو چکے ہیں مگر ساقی اُنھیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ساقی کے گھر میں اُن کے خوفناک کتے سے بھی ملاقات ہوئی جس کا اِرادہ مجھ پر جھپٹنے اَور میری ٹانگ کی ایک آدھ بوٹی کاٹ کھانے کا تھا؛ مگر ساقی اُس سے لپٹ کر‘ اُسے اِس ”کار ِ خیر“ سے روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ میرے خوف کو دیکھتے ہوئے اُنھوں نے مجھے تسلی دی اَور کہا: فکر نہ کریں‘ ُ ّکتے کی تھرڈ پارٹی اِنشورنس ہو چکی ہے۔
اگر اِس نے آپ کو کاٹ لیا تو اِنشورنس والے آپ کو کم و بیش پا۵نچ لاکھ پاوٴنڈ بطور ِ معاوضہ اَدا کریں گے۔ شکر ہے‘ یہ بات ابھی میرے اَحباب کو معلوم نہیں‘ ورنہ وہ اِس ُ ّکتے سے خود کو کٹوانے کے لیے جوق در جوق لندن پہنچنے لگیں! چائے سے فارغ ہو کر اَور گنڈی سے اِجازت لے کر‘ میں اَور ساقی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ پہلے تو ساقی نے مجھے وہ عمارتیں د ِکھائیں جن میں کسی زمانے میں ٹیگور اَور ڈی ایچ لارنس ٹھہرے تھے۔
پھر وہ مجھے کیٹس کا گھر د ِکھانے لے گئے۔ کیٹس کے گھر کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اُس میں کیٹس کے خطوط‘ کتابیں‘ اُس کی محبوبہ فینی بران کے بالوں کی لٹیں اَور لاتعداد دُوسری چیزیں محفوظ ہیں۔ یہیں میں نے Robert Haydon کے نام ورڈز َورتھ کا وہ خط پڑھا جو کیٹس کی موت سے صرف ایک برس پہلے لکھا گیا تھا۔ ورڈز َورتھ‘ لی ہنٹ کو ناپسند کرتا تھا جبکہ کیٹس کی اُس سے گہری دوستی تھی۔
چنانچہ خط میں ورڈز َورتھ نے کیٹس کا حوالہ دے کر لکھا تھا: He is a youth of promise too great for the sorry company he keeps. مجھ سے کہا گیا کہ میں اُس کتاب پر دستخط کردُوں جو ّسیاحوں کے لیے اُس گھر میں رکھی گئی تھی ۔ میں نے اَز راہ ِ تجسس اُس کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی تاکہ مجھے معلوم ہو سکے کہ کہاں کہاں سے لوگ کیٹس کا گھر دیکھنے آتے ہیں۔ کتاب میں امریکہ‘ جنوبی امریکہ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ بھارت اَور یورپ کے بہت سے ممالک سے آنے والے ّسیاحوں کے نام درج تھے۔
مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُن میں پاکستان کے کسی اَدیب کا نام نہیں تھا حالانکہ پچھلے د ِنوں اُردو کے متعد ِد نامور اُدبا لندن میں تشریف لائے تھے۔ شام کا کھانا محمود ہاشمی کے ہاں تھا۔ سنا ہے کہ محمود ہاشمی خود بھی بہت اچھا کھانا پکا لیتے ہیں؛ مگر آج شام کا کھانا اُن کی بیگم ثریا نے تیار کیا تھا۔ کھانا بے حد لذیذ تھا: یوں لگتا تھا جیسے حیدر آباد‘ دہلی اَور لکھنو ٴ کے ذائقوں کو یکجا کرکے‘ ایک نئے ذائقے اَور خوشبو کی تخلیق کی گئی ہے۔
کھانے کی میز پر محسن شمسی کی عزیزہ‘ معروف آرٹسٹ امینہ بیگم سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ امینہ بیگم دہلی کے مشہور بیرسٹر نور الدین کی صاحبزادی ہیں۔ یہ وہی نور الدین ہیں جن کے ہاں قاضی عبدالودود اَور مولانا غلام رسول مہر‘ اِلتزام سے ٹھہرا کرتے تھے۔ امینہ بیگم کے شوہر‘ ماسکو میں سفیر رہ چکے ہیں اَور وہ خود بھی کئی بار دُنیا بھر کا دورہ کر چکی ہیں۔
اُنھیں دس۱۰ زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ آرٹسٹ کے طور پر اُنھیں بین ُ الاقوامی حلقوں میں بھی اَہمیت دی گئی ہے۔ ۲۴/ اگست آج صبح گیارہ۱۱ بجے ہم دونوں اُردو مرکز پہنچ گئے۔ وہیں عبداللہ حسین‘ محمود ہاشمی‘ سوہن راہی اَور کچھ دُوسرے احباب بھی آ گئے۔ دیر تک اُردو اَفسانے اَور ناو ِل کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ اِنتظار حسین کا ناو ِل ”تذکرہ“ زیر ِ بحث آیا۔
عبداللہ حسین اِس ناو ِل میں کچھ زیادہ د ِلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ شاید اُنھیں ”بستی“ کے مطالعے کا تلخ تجربہ ہو ُچکا تھا۔ مگر جب میں نے بتایا کہ ”تذکرہ“ بہت اچھا ناو ِل ہے تو اُنھوں نے افتخار عارف سے کہا کہ وہ اپنا نسخہ اُنھیں عاریة ً دے دیں۔افتخار عارف َکہ ‘رہے تھیکہ انتظار حسین نے اُنھیں چار۴ نسخے بھیجے ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ نسخے کن خواتین و حضرات کے لیے ہیں؛ لہٰذا فی الحال یہ ”ما ِل غنیمت“ ہے جس پر وہ بلا شرکت ِ غیرے قابض ہیں اَور اِنشاء اللہ ہمیشہ قابض رہیں گے۔
عبداللہ حسین فیصل آباد کے رہنے والے ہیں۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ وہ دسمبر میں فیصل آباد جائیں گے اَور چونکہ فیصل آباد سے وزیر کوٹ نزدیک ہی یعنی محض پینتیس۳۵ میل کے فاصلے پر ہے‘ لہٰذا وہ وزیر کوٹ بھی آئیں گے اَور وہ جگہ دیکھیں گے جہاں شمس آغا نے اپنے بیشتر افسانے لکھے تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ شمس آغا اُن کے ر ِشتے دار تھے… اِس اعتبار سے وہ میرے بھی عزیز ہوئے۔
شام کو اُردو مرکز کے زیر ِ اہتمام ،سکول آف اورینٹل اینڈ افریقین سٹڈیز لندن یونیورسٹی میں ایک اَدبی محفل کا اِنعقاد کیا گیا تھا۔ محمود ہاشمی اُس محفل کے صدر تھے۔ اُردو مرکز کے جلسے عموماً ویک انڈ پر ہوتے ہیں (محرم کی وجہ سے جلسہ پیر کے روز ہوا؛ ویک انڈ پر ہو نہیں سکتا تھا اَور اِس سے اگلے ویک انڈ تک میرا لندن میں ٹھہرنا ممکن نہیں تھا)۔
اِس سب کے باوجود بہت سے لوگ آ گئے۔ اِس جلسے میں محسنہ جیلانی نے ”شام کی منڈیر سے“ کے ّمتعد ِد حصوں کو مربوط کرکے‘ میری کہانی تشکیل دی تھی۔ حاضرین نے اُن کے مضمون کو بہت پسند کیا۔ میری باری آئی تو میں نے کہا: محترمہ محسنہ جیلانی نے اپنے مضمون میں کسی اَدیب کی اِتنی تعریف کر دی ہے کہ میں خود اُس اَدیب سے ملنے کے لیے بیتاب ہو گیا ہوں۔
پھر میں نے ”شام کی منڈیر سے“ کے چار پانچ صفحات پڑھ کر سنائے۔ اِس کے بعد مجھ سے نظمیں اَور غزلیں سنی گئیں۔ پھر محمود ہاشمی نے تقریر کی۔ آج معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔ اُن کے وسیع مطالعے اَور اَدب اَور اَدیب کے بارے میں اُن کی نہایت متوازن آرا سے تو میں پہلے ہی واقف تھا مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ اِتنے اعتماد سے تقریر بھی کر سکتے ہیں۔
آخر میں رضا علی عابدی‘ حبیب حیدر آبادی‘ سلیم حیدر رازی‘ محسن شمسی اَور خود محمود ہاشمی نے سوالات کیے اَور میں نے جواباً بعض اَدبی مسائل کے بارے میں اپنا نقطہ ٴ نظر پیش کرنے کی کوشش کی۔ جلسے کے بعد شرکا کا خیال تھا کہ یہ ایک بھرپور جلسہ تھا… واللہ اعلم! بعض دوست تو َکہ ‘رہے تھے کہ ایک مدت کے بعد اُنھیں ایسے جلسے میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے۔
دراصل افتخار عارف نے پروگرام کو جس نفیس اَنداز میں مرتب کیا‘ محسنہ جیلانی نے جس عمدہ لہجے میں مضمون سنایا اَور محمود ہاشمی نے جس خوبصورتی سے اپنے خیالات کا اِظہار کیا… اِن سب باتوں کی وجہ سے جلسہ کامیاب ہوا۔ رات کو عاشور کاظمی کے ہاں کھانا تھا۔ اُن کی وجہ ‘شہرت ۱۹۸۵ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کا اِنعقاد ہے۔ یہ ایک بین ُ الاقوامی کانفرنس تھی جس میں دُنیا بھر سے ترقی پسند اُدبا نے شرکت کی تھی۔
عاشور کاظمی‘ گولڈن جوبلی تقریبات کے رُو ِح رواں تھے اَور سچی بات تو یہ ہے کہ اُنھوں نے اِس سلسلے میں تن تنہا جو کام کیا‘ وہ ایک پوری ٹیم بھی نہیں کر سکتی تھی۔ آج کی دعوت سے پہلے اُنھوں نے ہمیں کانفرنس کے وڈیو ٹیپ کا وہ حصہ د ِکھایا جس میں بھارت کے ڈاکٹر ش اختر نے پاکستان پر کچھ ایسے ناروا اِعتراضات کیے تھے کہ جواب ِ آں غزل کے طور پر مرحوم سبط ِ حسن نے سٹیج پر آ کر اُن اعتراضات کی مذمت کی تھی اَور پھر ایک ہنگامہ ٴ دار و گیر تھا جس میں بعض ترقی پسند اپنی نظریاتی سطح کی رواداری اَور اِنسان دوستی کو تج کر اَپنے ”اصل رُوپ“ میں سامنے آ گئے تھے۔
ویڈیو ٹیپ کا یہ حصہ دیکھا تو میں نے سوچا ،کاش آج انور سدید یہاں ہوتے اَور اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھ لیتے جس کے خلاف وہ ایک مدت سے جہاد کر رہے ہیں۔ یادش بخیر‘ یہاں میں جن اُدبا سے ملا ہوں‘ اُن میں سے بیشتر کو انور سدید کے نام اَور کام کی اَہمیت کا احساس ہے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ انور سدید ترقی پسند تحریک کے خلاف نہیں ہیں‘ وہ تو صرف بعض محترم ترقی پسند اُدبا کے ہاں قول و فعل کے تضاد کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں اَور بس! عاشور کاظمی کے ہاں رشید منظر سے بھی ملاقات ہوئی۔ اُن کے دادا نصیر الدین نصر کی مثنوی بعنوان ”حقیقت ِ شاعری“ کا دُوسرا اَیڈیشن عاشور کاظمی نے چھاپا ہے۔ اُنھوں نے اَز راہ ِ محبت مجھے اِس مثنوی کا ایک نسخہ عطا کیا۔

Chapters / Baab of Teen Safar By Wazir Agha