Episode 4 - Teen Safar By Wazir Agha

قسط نمبر 4 - تین سفر - وزیر آغا

اِسلام آباد سے رات کے تقریباً ساڑھے تین بجے میرے سفر کا آغاز ُہوا۔ روانگی پونے دو بجے تھی مگر جہاز پونے دو گھنٹے لیٹ روانہ ہوا۔ ہوائی جہاز والوں نے تاخیر کے لیے معذرت تو کر دی مگر ”باعث ِ تاخیر“ پر َروشنی ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔ رات بھر کے جاگے ہوئے مسافر اُونگھنے لگے۔ بعض تو سو بھی گئے؛ مگر جہاز والوں نے کہ اپنے ضوابط کے غلام تھے‘ بڑے پیار سے مسافروں کو جگا کر‘ چائے بسکٹ سے اُن کی تواضع کی۔
پھر اُنھیں خیال آیا کہ چائے شاید اُن نیند کے ماتوں کو پوری طرح جگانے میں کامیاب نہ ہو‘ اِس لیے مناسب یہی ہے کہ اُنھیں فلم د ِکھا کر بیدار رکھا جائے۔ جہاں َمیں بیٹھا تھا‘ وہاں سامنے دیوار پر لاہور کی بادشاہی مسجد کی ایک بڑی سی تصویر آویزاں تھی۔ جہاز والوں نے فی الفور اُس تصویر کو اُلٹا دیا اَور اُس کی پشت کو بطور ِ سکرین اِستعمال کرتے ہوئے فلم د ِکھانا شروع کر دی۔

(جاری ہے)

یوں غالب کی ُوہ دیرینہ آرزو ُپوری ہوئی کہ مسجد کے زیر ِسایہ خرابات کی کوئی صورت نکل آنی چاہیے! جہاز بہت بڑا تھا۔ اُس میں کم و بیش چار۴۰۰ سو مسافروں کے بیٹھنے کا اِنتظام کیا گیا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق جہاز میں زیادہ سے زیادہ تین۳۰۰ سو مسافروں کی جگہ تھی مگر سیٹوں کے درمیانی فاصلے کو کم کرکے‘ گنجائش نکال لی گئی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسافروں کے گھٹنے تقریباً بارہ۱۲ گھنٹے تک اُن کی ٹھوڑیوں کو بار بار چھوتے رہے۔
نیند کو بھگانے کا یہ بھی ایک آزمودہ نسخہ تھا جسے جہاز والوں نے مسافروں پر خوب آزمایا۔ جہاز مغرب کی طرف اُڑ رہا تھا اَور اُس سے بہت پیچھے سورج کا رتھ پرواز کناں تھا۔ دونوں میں اولمپک َدوڑ کا آغاز ہو گیا تھا۔ جہاز کو تقریباً ڈیڑ۵ ء۱ھ گھنٹے کی ”رعایت“ ملی تھی مگر اِستنبول تک پہنچتے پہنچتے سورج کا َرتھ اِس کے برابر آ گیا تھا۔ اِس کے بعد ُوہ تیزی سے جہاز کو پیچھے چھوڑ گیا اَور جب جہاز لندن پہنچا تو وہاں سورج کو پہنچے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔
اِستنبول میں جہاز والوں نے مسافروں کو نیچے اُترنے کی اِجازت دے دی مگر یہ اِجازت جہاز کے ز ِندان سے صرف لاوٴنج کے بندی خانے تک جانے کی تھی۔ درمیان میں ایک کوریڈور لگا دیا گیا تھا تاکہ مسافروں کے پاوٴں ترکی کی زمین کو ُچھو نہ سکیں۔ لاوٴنج میں کھانے پینے کا کوئی سٹال نہیں تھا‘ حتیٰ کہ غسل خانہ بھی نہیں تھا۔ اُس سے ملحقہ لاوٴنج میں ڈیوٹی فری دُکانیں جگمگ جگمگ کر رہی تھیں جن میں مشروبات (بالخصوص شراب کی بوتلیں) صاف نظر آ رہے تھے۔
میں نے وقت گزارنے کے لیے رومن رسم ُ الخط میں لکھے ہوئے ترکی الفاظ پڑھنا شروع کیے‘ اِس توقع کے ساتھ کہ اُن میں شاید مجھے اُردو کے الفاظ بھی مل جائیں… آخر اُردو بھی تو ترکی کا لفظ ہے… مگر وہاں تو اجنبی الفاظ کی ریل پیل تھی۔ بالآخر مجھے اُردو کا ایک لفظ مل ہی گیا یعنی ” َہوا“… میں نے شکر کیا کہ ز ِندان میں َہوا کا گزر تو ُہوا۔ جہاز اِستنبول سے روانہ ہوا تو میں جہاز کی کھڑکی سے لگ کر بیٹھ گیا تاکہ یورپ کے خد و خال دیکھ سکوں۔
جہاز کو یوگوسلاویہ‘ رومانیہ‘ ہنگری اَور جرمنی کو عبور کر کے‘ ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم (Amsterdam) کے ہوائی اڈے پر اُترنا تھا۔ اِتفاق سے آسمان پر زیادہ بادل نہیں تھے‘ اِس لیے تقریباً تیس۳۰ ہزار فٹ کی بلندی پر سے یورپ کے ندی نالے‘ پہاڑ‘ جنگلات اَور کھیت د ِکھائی دینے لگے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آخر یورپ ہے‘ اِس کے پہاڑ اَور جنگلات نہ سہی‘ کم اَز کم کھیت تو کسی ترتیب میں ہوں گے؛ مگر اِس بلندی سے سر ز ِمین یورپ کے کھیت بے ترتیب سے نظر آئے… یوں لگتا تھا جیسے کسی اَناڑی درزی نے کپڑے کی کترنیں‘ بے پروائی سے زمین پر بکھیر دی ہیں۔
البتہ خوبصورت جنگلات کی فراوانی تھی۔ تاہم جرمنی پر سے اُڑتے ہوئے‘ قدرتی جنگلوں کے مقابلے میں اِنسانوں کے جنگل زیادہ نمایاں د ِکھائی دیے۔ ہر چند میل کے فاصلے پر کوئی نہ کوئی شہر نظر آ جاتا۔ اِتنی بلندی سے یہ شہر کیڑے مکوڑوں کے nets کی طرح نظر آئے مگر کیڑے مکوڑے کہیں د ِکھائی نہ دیے۔ وہ قد و قامت میں اِتنے چھوٹے تھے کہ محض تیس۳۰ ہزار فٹ کی دُوری ہی سے معدوم ہو گئے تھے۔
ہالینڈ کی فضائی حدود میں داخل ہوئے تو نظریں شہروں اَور جنگلوں کے بجائے کھیتوں پر مرکوز ہو گئیں۔ اَب کھیتوں میں ایک انوکھی ترتیب آ گئی تھی۔ جہاز بھی بلندیوں پر سے نیچے اُتر آیا تھا۔ ہالینڈ میں کھیتوں کا منظر اِتنا خوبصورت تھا کہ اُسے لفظوں کی گرفت میں لینا مشکل ہے… میں اِس منظر کو مشروب کی طرح پی جانا چاہتا تھا۔ ایمسٹرڈم سے اُڑا تو جہاز چند ہی لمحوں میں رودبار ِ اِنگلستان کو عبور کر گیا۔
میری آنکھوں کے سامنے دُوسری جنگ ِ عظیم کے مناظر آ گئے… اگر اِنگلستان اَور یورپ کے درمیان یہ رودبار‘ ایک خندق کے طور پر موجود نہ ہوتی تو ہٹلر کی فوج‘ اِنگلستان کا بھی وہی حال کرتی جو اُس نے ہالینڈ‘ لیگسمبرگ اَور فرانس کا کیا تھا؛ مگر اِس خندق نے انگریز اَور اُس کی تہذیب کو بچا لیا۔ جہاز‘ اِس رودبار کو عبور کرکے‘ اِنگلستان میں داخل ہوا : میں ابھی بمشکل سر ز ِمین اِنگلستان کے نشیب و فراز دیکھنے میں کامیاب ہوا ہی تھا کہ لندن کا علاقہ شروع ہو گیا۔
ہوائی جہاز جن شہروں کے اُوپر سے گزرا تھا‘ وہ لندن کے مقابلے میں چھوٹی چھوٹی بستیاں نظر آئیں۔ تقریباً ایک۱۰۰ سو مربع میل پر پھیلا ہوا ‘ایک کروڑ کی آبادی کا یہ شہر زمین پر دُور دُور تک بچھا ہوا تھا۔ جہاز اِس شہر کو عبور کرکے‘ ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر اُترا۔ ویزا پر اِندراج کرانے اَور کسٹم کے کوہ ِ گراں کو پار کرنے میں محض چند منٹ صرف ہوئے۔
باہر نکلا تو سلیم میرا منتظر تھا۔ میں نے سامان کے علاوہ‘ اپنا آپ بھی اُس کے حوالے کر دیا۔ وہ جون کے وسط میں لندن آ گیا تھا… گو پہلی بار لندن آیا تھا مگر اِس دو۲ ماہ کے عرصے میں وہ لندن سے پوری طرح متعارف ہو ُچکا تھا۔ چنانچہ اُس نے فی الفور گائیڈ کے فرائض سنبھال لیے بلکہ پورٹر کے بھی‘ اَور آدھ گھنٹے کے اَندر اَندر ُوہ مجھے زیر ِ زمین ٹرین کے ذریعے اَرل کورٹ (Earl Court) لے گیا جہاں کن وے سٹریٹ میں وہ ایک کرایے کے کمرے میں َرہ رہا ہے۔
کمرے میں پہنچتے ہی اُس نے چائے تیار کرکے مجھے پلائی‘ گویا وہ بیک وقت میرا گائیڈ‘ پورٹر‘ باورچی اَور ویٹر‘ سب کچھ بن گیا۔ میں یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ دو۲ ہی ماہ میں اُس نے اپنی ”بند دُنیا“ کو خیر باد َکہ ‘کر ‘ وسیع دُنیا میں رہنا سیکھ لیا ہے۔ ۱۲/ اگست آج صبح بیدار ہوا تو سفر کی تکان کا نام و نشاں تک باقی نہیں تھا۔ دس۱۰ بجے ہم تیار ہو کر نکل آئے۔
میں نے سلیم سے کہا: میں لندن کے قا ِبل دید مقامات دیکھنے کے قابل نہیں ہوں۔ لندن کے بازار اَور گلیاں د ِکھاوٴ تاکہ میں لندن سے معانقہ کر سکوں۔ چنانچہ ہم پیدل چل پڑے اَور میلوں تک و ِنڈو شاپنگ کرتے چلے گئے۔ کتابوں کی ایک دُکان سے میں نے ڈیوڈ لاج (David Lodge) کی ایک کتاب خریدی۔ پھر ہم نے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ سے دوپہر کے کھانے کے لیے سالن اَور روٹیاں خریدیں اَور واپس اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئے۔
سیڑھیوں میں ایک مانوس چہرہ د ِکھائی دیا… ایک ہی لمحے میں ہم دونوں نے ایک دُوسرے کو پہچان لیا۔ ہم تقریباً پا۵نچ برس کے بعد مل رہے تھے۔ عجیب اِتفاق ہے کہ محمود ہاشمی اَور ہم دونوں (یعنی میں اَور سلیم) ایک ہی وقت میں سیڑھیوں پر پہنچے۔ بصورت ِ دیگر محمود ہاشمی واپس چلے جاتے اَور ملاقات میں مزید تاخیر ہو جاتی۔ مجھے پاکستان میں محمود ہاشمی کا خط مل گیا تھا۔
معلوم ہوا تھا کہ وہ اَور اُن کی بیگم ثریا تقریباً دو۲ سال سے لندن میں مقیم ہیں۔ اُن سے مل کر بے پناہ خوشی ہوئی۔ محمود ہاشمی ایک وسیع المطالعہ نقاد ہیں اَور لگی لپٹی رکھے بغیر اَپنی رائے کا اِظہار کردیتے ہیں۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ چند روز پہلے ”اُردو مرکز“ والوں نے احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ایک شام منائی تھی… وہاں ندیم صاحب نے اپنا وہی خطبہ پڑھا جو اُنھوں نے اپنی ستر۷۰ھویں سالگرہ کے موقع پر لاہور میں سنایا تھا؛ مگر اِس بار اُنھوں نے خطبے میں سے ”بد بخت اَدیب“ کا حوالہ حذف کر دیا تھا… نہ جانے کیوں؟ تھوڑی سی گپ شپ کے بعد محمود ہاشمی نے کہا کہ وہ محسن شمسی کو ٹیلیفون کرنا چاہتے ہیں۔
سو وہ نیچے گئے اَور ٹیلیفون کرکے واپس آ گئے۔ آدھ گھنٹے کے بعد محسن شمسی تشریف لے آئے… نہایت ہنس مکھ‘ کھلی کھلی طبیعت‘ جدیدیت کے حامل متعدد افسانے لکھ چکے ہیں۔ ایک عرصے سے لندن میں مقیم ہیں۔ اُن کی بیوی سویڈن کی ہیں اَور آج کل اپنے میکے گئی ہوئی ہیں۔ محسن شمسی نے آتے ہی تجویز پیش کی کہ و ِنڈسر کاسل چلا جائے (و ِنڈسر کاسل لندن سے تقریباً بیس۲۰ میل کی دُوری پر واقع ہے)۔
محمود ہاشمی کو اُن کی تجویز پسند آئی ‘ چنانچہ ہم نے کمرے کو مقفل کیا اَور محسن شمسی کی کار میں جا بیٹھے۔ اطالوی میک کی یہ نئی کار ”ذوالفقار علی خاں“ کی موٹر کی طرح اِس قدر خاموش طبع ہے کہ معلوم ہوتا ہے جیسے َہوا میں اُڑے جا رہی ہے۔ اِس سبک خرامی میں کار کی اعلیٰ کارکردگی کے علاوہ لندن کی سڑکوں کا بھی یقینا ہاتھ ہے کیونکہ یہ سڑکیں نشیب و فراز سے قطعاً محفوظ ہیں۔
پاکستان کی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے تو نئی کار بھی انوکھی راگنی الاپنے لگتی ہے … اِنگلستان کی سڑکیں اِتنی ہموار ہیں کہ پرانی کاریں بھی سنائی نہیں دیتیں۔ و ِنڈسر کاسل کا ایک حصہ تو ملکہ ٴ اِنگلستان کی تحویل میں ہے اَور اُدھر جانے کی اِجازت نہیں ہے (سنا ہے کہ ملکہ‘ ہفتے میں چار۴ روز و ِنڈسر کاسل میں بسر کرتی ہیں… گھڑ سواری کرتی ہیں اَور گاف کھیلتی ہیں)؛ مگر باقی حصہ پبلک کے دیکھنے کے لیے ہے۔
ہم ٹکٹ لے کر اَندر گئے اَور پھر قلعے کے تمام کمروں کو روندتے چلے گئے۔ پورے قلعے کے درودیوار سے ملکہ ٴ و ِکٹوریا کا دبدبہ اَب تک عیاں ہے۔ دیواروں پر اِنگلستان کے سابق بادشاہوں کی تصاویر کے علاوہ اُن کے ز ِرہ بکتر‘ تلواریں‘ خنجر اَور میک اَپ کے دُوسرے سامان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس قلعے کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایلیٹ نے روایت کو اِس قدر اَہمیت کیوں دی تھی! دراصل کلچر کی محض اُفقی سطح نہیں ہوتی جو اُس کی وسعت اَور تنو ّع کا احساس د ِلائے‘ اُس کی ایک عمودی سطح بھی ہوتی ہے جو اُس کے تاریخی تسلسل کا احساس د ِلاتی ہے۔
تاریخ سے اِنگلستان والوں کی وابستگی اِتنی شدید ہے کہ اُنھوں نے اپنے ملک کے علاوہ دُوسرے ممالک کی تاریخ کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دُوسری طرف ہم لوگوں نے تاریخ اَور تاریخ کے تسلسل سے کچھ زیادہ سروکار نہیں رکھا… کوشش یہی کی ہے کہ گزرے زمانوں کو بھلا دیا جائے… کیا ہم اپنے ماضی کا سامنا کرنے سے خوف زدہ ہیں یا کائنات کے تناظر میں اِس کرہ ٴ ارض کے واقعات کو پر ِ کاہ سے زیادہ اَہمیت نہیں دیتے: بہر حال کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے! و ِنڈسر کاسل کو دیکھ کر انگریز کی سائیکی میں جھانکنے کا موقع میسر آیا۔
پھر ہم قلعے کے دُوسری جانب چلے گئے جہاں باغ اَور گاف کورس ہے۔ اَب ایک نہایت خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے تھا… بالکل مصو ّری کے کسی شاہکار کی طرح! ۱۳/ اگست سلیم ہر رو ز دس بارہ میل پیدل سفر کرنے کا عادی ہو ُچکا ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں اُس نے لندن کا اِتنا بڑا ِ ّحصہ دیکھ لیا ہے‘ نیز اِس کے بارے میں اِتنی معلومات حاصل کر لی ہیں کہ ایک عام سے سیاح کو شاید ایک سال میں بھی حاصل نہ ہوں۔
اَب وہ چاہتا ہے کہ مجھے بھی اپنی ”مملکت ِ خداداد“ د ِکھائے اَور مجھ پر اپنے مارکو پولو ہونے کی دھاک بٹھائے۔ سو آج صبح اُس نے مجھے ساتھ لیا اَور محض دو ایک میل بس میں سفر کرانے کے بعد ”پیدل“ کر دیا۔ ہمیں پی آئی اے والوں کے ہاں جا کر‘ واپسی کی تاریخ کنفرم کرانا تھی۔ جب یہ کام ہو گیا تو وہ مجھے بازاروں کی َسیر کراتا ‘ پکاڈلی سرکس اَور ٹرالفلگر سکوائر د ِکھاتا، بکنگھم پیلس لے گیا۔
عجیب اِتفاق ہے کہ جس وقت ہم بکنگھم پیلس پہنچے‘ وہاں سیاحوں کا ایک ہجوم نظر آیا۔ بینڈ بج رہا تھا اَور کیمرے دھڑا دھڑ تصویریں کھینچ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ گارڈز کی تبدیلی کی رسم اَدا ہو رہی ہے جسے دیکھنے کے لیے لوگ دُور دُور سے آئے ہیں۔ رسم میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی… ویسے بھی یہ منظر فلموں میں کئی بار دیکھ ُچکا تھا؛ مگر لوگوں کا اِنہماک دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی… کیا واقعی یہ رسم اِتنی جاذب ِ نگاہ ہے کہ لوگ کھنچے چلے آتے ہیں یا اِس کی وجہ سیاح کی یہ کمزوری ہے کہ وہ د ِیار ِ غیر کی ہر شے دیکھنے پر بضد ہوتا ہے! ہم سینٹ جیمز پارک سے گزر کر بکنگھم پیلس پہنچے تھے۔
واپسی گرین پارک کے راستے سے تھی۔ سینٹ جیمز پارک میں گھاس کے قطعات میں گھرے‘ پانی کے تالاب ہیں جن میں بطخیں اَور گلہریاں بے خطر گھوم رہی تھیں۔ لوگ اُن کی طرف کھانے کی چیزیں پھینکتے…بعض نہیں بھی پھینکتے تھے‘ صرف اپنی ہتھیلی پر رکھتے: چڑیاں اَور گلہریاں اُن کے ہاتھوں پر بیٹھ کر اَپنا من بھاتا کھاجا کھاتیں: گویا پرندے اِنسان سے قطعاً خوف زدہ نہیں تھے۔
یہی حال مجھے اِنسانوں کا بھی نظر آیا: کوئی شخص ڈرا ہوا نہیں تھا… دُوسرے اشخاص سے‘ نہ جانوروں (مثلاً ُ ّکتوں) سے‘ نہ قانون کے کار ِندوں سے! لندن میں آزادی کی یہ فضا ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے‘ کسی معاشرے کی صحت یا عدم صحت کا اَندازہ اِس بات سے لگانا چاہیے کہ وہ خود کو کس قدر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ سڑک پار کرتے ہوئے بھی قطعاً کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا کیونکہ یہاں پیدل چلنے والوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔
جب سڑک کے کنارے پر پیدل چلنے والی تصویر ”سبز“ ہو جائے تو آپ بے خطر سڑک عبور کر جائیے… تمام گاڑیاں آپ کے گزر جانے کا اِنتظار کریں گی۔ پھر مزے کی بات یہ ہے کہ سڑک کی ُسرخ اَور سبز ّ بتیوں کے قریب کوئی سپاہی بھی د ِکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں صورت ِ حال یہ ہے کہ جس چوراہے پر سپاہی موجود نہ ہو‘ وہاں لوگ ُسرخ اَور سبز ّ بتیوں کی پروا کیے بغیر گزرنے لگتے ہیں اَور سڑک آ ِن واحد میں مقتل کا منظر د ِکھانے لگتی ہے۔
یوں بھی ہم لوگ ڈری ہوئی مخلوق ہیں۔ ہم آسمان سے بھی خوف زدہ ہیں‘ پولیس سے بھی‘ اخبارات اَور ٹریفک سے بھی‘ حتیٰ کہ ایک دُوسرے سے بھی! لندن آ کر مجھے آزادی کا صحیح مفہوم معلوم ہوا ہے۔ آزادی صرف اجنبی حکومت کا ُجو ا اُتار پھینکنے کا نام نہیں‘ یہ ایک دُوسرے کی آزادی کا احترام کرنے میں ہے۔ گرین پارک‘ نہایت خوبصورت جگہ ہے… ہر طرف سبز رنگ کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر جہاں بڑے بڑے‘ نہایت قدیم ہرے کچور درخت کھڑے ہیں۔
اِس باغ میں مجھے ایک عجیب سی راحت کا احساس ہوا جیسے میں واپس اپنے بچپن کو گلے لگا رہا ہوں۔ معاً میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا تاکہ اِس نایاب ساعت میں پوری طرح ڈوب سکوں۔ بنچ پر بیٹھتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ میں سبز رنگ کے سمندر میں ایک ّگٹھے (Raft) پر بیٹھا ‘ کسی نا معلوم جزیرے کی طرف جا رہا ہوں۔ سامنے گھاس کے قطعوں پر‘ یہاں وہاں‘ نوجواں جوڑے لیٹے‘ ایک دُوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔
وہ گرین پارک کی شانت فضا میں پوری طرح جذب ہو چکے تھے۔ گرین پارک سے نکل کر ٹیوب کے ذریعے ہم اَرل کورٹ پہنچے۔ کمرے میں پہنچ کر کھانا کھایا۔ پھر محمود ہاشمی کا اِنتظار کرنے لگے۔ چند لمحوں میں وہ اَور اُن کی بیگم ثریا پہنچ گئے۔ ثریا ‘بی بی سی میں آفیسر ہیں۔ کسی زمانے میں اُنھوں نے پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھنے کا آغاز کیا تھا مگر درمیان میں تھیسس چھوڑ کر ملازمت کر لی۔
اُردو زبان اَور اَدب سے اُنھیں گہرا شغف ہے۔ ہنس مکھ اَور تیز نظر ہیں۔ یہاں سے ہم میوزیم آف نیچرل ہسٹری دیکھنے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ متجسس بھی ہیں۔ لندن آنے سے پہلے َمیں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کبھی تو مجھے لندن میوزیم دیکھنے کا موقع ملے گا۔ آج یہ خواہش پوری ہوئی۔ میوزیم کیا ہے‘ اِسے تو یونیورسٹی کا نام دینا چاہیے۔ اِسے صحیح طرح دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اِنسان ہر روز اِس کے کسی ایک سیکشن میں آ جائے اَور اپنی نوٹ بک میں تمام ضروری معلومات جمع کرتا جائے ؛مگر ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا… ہمیں تو سارے میوزیم سے ایک ہی ملاقات (visit) میں متعارف ہونا تھا۔
سو ہم نے یہ کیا کہ ایک ِسرے سے دُوسرے تک گھومتے چلے گئے۔ میوزیم میں اِس کرہ ٴاَرض کے اِنسان‘ حیوان‘ نباتات حتیٰ کہ حشرات ُ الارض تک کا تدریجی اِرتقا اِتنے عام فہم اَنداز میں پیش کیا گیا ہے کہ معمولی سمجھ ُبوجھ والے فرد کی سمجھ میں بھی آ جائے۔ مجھے پوری ”ز ِندگی“ کے اِرتقا کو دیکھنے کی خواہش تھی‘ لہٰذا میں نے خوردبین کے ذریعے کروموسوم کو دیکھنے سے اِبتدا کی ‘ پھر Amphibians اَور Reptiles کو دیکھنے کے بعد Mammals کا سیکشن دیکھا؛ اِس کے بعد Primates کا سیکشن جس میں مجھے بہت د ِلچسپی ہے اَور جس میں اِنسان بھی شامل ہے۔
معاً پاکستان کا نام جلی حروف میں لکھا نظر آیا۔ معاملہ یہ ہے کہ Ramapithecus کے آثار تو پاکستان کے علاوہ افریقہ میں بھی ملے ہیں مگر Sivapithecus کے آثار صرف پاکستان میں دستیاب ہیں۔ گویا اِنسانی ز ِندگی کے اِرتقا میں پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ میں بطور ِ خاص Luci کو دیکھنے کا آرزو َمند تھا کیونکہ میں نے اِس کے بارے میں ایک پوری کتاب پڑھ رکھی تھی۔
اچانک لوسی کی ہڈیاں میرے سامنے تھیں۔ لوسی کی عمر سینتیس۳۷ لاکھ سال ہے اَور وہ Australopithecus نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ اِس کے بعد میں نے پیرن تھراپس اَور ہوموایریکٹس کی ہڈیاں دیکھیں اَور آخر میں نینڈر تھل مین کی جس کی عمر ایک لاکھ سال کے لگ بھگ ہے۔ پھر جدید اِنسان کا ڈھانچا د ِکھایا گیا مگر جدید اِنسان تو ہونقوں کی طرح ُمنہ ‘اُٹھائے سارے میوزیم میں گھوم پھر کر اَپنے آبا و اَجداد کو دیکھ رہا تھا… بھلا اِسے د ِکھانے کی کیا ُتک تھی! تاہم مجھے حیرت ہوئی کہ میوزیم میں نینڈر تھل مین اَور جدید اِنسان کی درمیانی کڑی یعنی Cro-Magnan Man کا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا… نہ جانے کیوں؟ ۱۴/ اگست آج صبح برٹش میوزیم جانے کا پروگرام تھا۔
میں چاہتا تھا کہ ٹیوب یا بس کے ذریعے جاوٴں مگر سلیم پیدل جانے پر مصر تھا: سو ہم پیدل چل پڑے اَور گیارہ۱۱ بجے کے قریب برٹش میوزیم جا پہنچے اَور تین۳ گھنٹے اِس میں گھوم پھر کر گزارے۔ میوزیم آف نیچرل ہسٹری تو ایک خاص موضوع سے متعلق ہے مگر برٹش میوزیم کا دائرہ ٴ عمل اِتنا وسیع ہے کہ اِس میں اِنسانی تہذیب کی ُجملہ کروٹیں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔
میرے لیے ایک ہی بار سارا میوزیم دیکھنا ممکن نہیں تھا؛لہٰذا میں نے اُن کمروں کے نمبر نوٹ کر لیے جن میں میری د ِلچسپی کی چیزیں تھیں: مثلاً میں قدیم مصری تہذیب کے آثار دیکھنے کا خواہاں تھا اَور میرے لیے فرا ِعین مصر سے پہلے کا َدور یعنی ۰۰۰,۳ قبل مسیح سے پہلے کے ایک ہزار برس کی تہذیب کا زمانہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ فرا ِعین مصر کے علاوہ عام لوگوں کی ممیاں اَور وہ صندوق جن میں یہ ممیاں رکھی گئی تھیں‘ جا بجا نظر آ رہے تھے۔
اُن میں ایک لاش ایسی بھی تھی جو آج سے کم و بیش اڑھائی تین ہزار برس پہلے کی تھی اَور جسے اِنسان نے نہیں‘ قدرت نے حنوط کیا تھا: اُس کا جسم اَور چہرے کے نقوش اپنی اصل حالت میں تھے… یہ لاش صحرا کی خشک اَور گرم َہوا کے باعث ُسوکھ کر حنوط ہو گئی تھی۔ اصل ممیاں پیپرس میں لپٹی پڑی تھیں؛ صرف ایک ممی کا چہرہ دیکھا جا سکتا تھا۔ مصر‘ بابل اَور کریٹ کی قدیم تہذیبوں کے آثار دیکھنے کے بعد َمیں اُس سیکشن میں چلا گیا جس میں بر ّ ِ صغیر‘ سری لنکا‘ تھائی لینڈ‘ اِنڈونیشیا‘ چین اَور چاپان کی قدیم تہذیبوں کے Artefacts رکھے ہوئے تھے۔
چونکہ اِن علاقوں میں بدھ مت کو فروغ ِملا تھا‘ اِس لیے بدھ کے مجسمے ایک قدر ِ مشترک کے طور پر اِن جملہ تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں… اِس فرق کے ساتھ کہ ہر تہذیب کی ُچھوٹ پڑنے سے بدھ کے مجسموں کے خد و خال تبدیل ہوئے ہیں؛ خد و خال ہی نہیں‘ زاویہ ٴ نگاہ بھی بدلا ہے۔ دراصل ہر کلچر اپنے فنو ِن لطیفہ میں اپنا سارا َجوہر سمو دیتا ہے اَور مختلف ممالک کے ایک ہی مذہب یا موضوع سے متعلق مجسموں کا تقابلی مطالعہ کریں تو ثقافتی فرق بخوبی عیاں ہو سکتا ہے۔
چنانچہ میں گھنٹہ بھر اِن مختلف تہذیبوں کے مجسموں کے موہوم یا واضح فرق کا مشاہدہ کرتا رہا۔ شام کو ہم دونوں کننگٹن گارڈن کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم نے َسیر کا آغاز اُس سڑک سے کیا جس کے دونوں طرف اِنتہائی خوبصورت ُپھولوں کی کیاریاں دُور دُور تک بچھی ہوئی ہیں۔ پھر ہم گارڈن کی اَندرونی سڑکوں پر گھومتے ہوئے ہائیڈ پارک سے ملحقہ علاقے کی طرف چلے گئے۔
اِن پارکوں میں پانی کے قطعات نے خوبصورتی میں َدہ چند اِضافہ کیا ہے اَور طویل و عریض لندن کے بازاروں‘ گلیوں اَور مکانوں کے جنگل سے باہر نکل کر فطرت کے قریب آنے کا موقع عطا کیا ہے۔ مراد یہ کہ شہر کے اَندر تو کبوتروں کے ِسوا کوئی پرندہ نظر نہیں آتا مگر پارکوں میں پرندوں کی فراوانی ہے جنھیں دیکھنے کے لیے لندن کے لوگ جوق َدر جوق چلے آتے ہیں۔
اِس شہر اَور اِس کے پارکوں میں دو تین باتوں کا فی الفور احساس ہوا۔ مثلاً سڑکیں اَور پارک صاف شفاف ہیں؛ لوگوں کو گندگی پھیلانے کی عادت بالکل نہیں؛ ہر شخص گھر کا ُکوڑا کرکٹ‘ کالے پلاسٹک کے تھیلے میں بند کرکے‘ سڑک کے کنارے رکھ دیتا ہے جہاں سے صفائی کا عملہ اُسے ُکوڑا گاڑی پر لاد کر لے جاتا ہے؛اَور ُکوڑا گاڑی کی صورت یہ ہے کہ اُس کے اَندر ایک خاص قسم کی مشینری لگی ہوئی ہے جو کوڑے کے تھیلوں کو پریس (press) کرکے ،نگل جاتی ہے (یوں ایک ہی گاڑی ہمارے ہاں کی دس۱۰ کوڑا گاڑیوں کے برابر ہے)۔
عادت کی بات ہے کہ کوئی بھی شخص سڑک پر تھوکنا یا کوئی چیز پھینکنا پسند نہیں کرتا۔ مکھی اَور مچھر کا تو نام و نشاں تک نہیں ہے۔ صفائی کا عا َلم یہ ہے کہ زیر ِ تعمیر عمارتیں بھی اپنے سیمنٹ‘ ریت اَور لوہے کی تشہیر نہیں کرتیں: ہر زیر ِ تعمیر عمارت کو سبزی مائل پلاسٹک کا ایک طویل و عریض برقع پہنا دیا جاتا ہے اَور تعمیر کا کام اُس برقع کے اَندر ہوتا رہتا ہے۔
ہمارے ہاں صورت یہ ہے کہ بازار میں عمارت بن رہی ہو تو عمارت کا سامان بیٹی کے جہیز کی طرح سارے بازار کو د ِکھایا جاتا ہے اَور یہ تشہیر مستقل نوعیت کی ہوتی ہے۔ صفائی پسندی کا میلان لندن کا اَسلوب ِ حیات ہے۔ ہر چیز صاف ستھری‘ بغیر کسی ملاوٹ کے میسر ہے۔ پولیس کے سپاہی کہیں کہیں د ِکھائی دیتے ہیں‘ ورنہ ا ِہل لندن اپنی پولیس آپ ہیں۔ میں نے ابھی تک کار کے ہارن کی آواز نہیں سنی۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ کار کا ہارن بجانا گالی دینے کے متراد ِف ہے‘ لہٰذا کار ڈرائیور اِس سے اِجتناب کرتے ہیں اَور ٹریفک قوانین کی پابندی اِس طور کرتے ہیں‘ جیسے یہ اَحکا ِم خداوندی ہوں۔ ہمارے ہاں قوانین کا نفاذ بزور ِ بازو کیا جاتا ہے … جہاں محسوس ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے نے لحظہ بھر کے لیے اپنی آنکھیں میچ لی ہیں‘ لوگ قوانین کی خلاف َورزی کرنے لگتے ہیں۔
اِنگلستان میں تمام قوانین زمین سے گھاس کی طرح اُگتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ قانون کا احترام یہاں کے لوگوں کی فطرت ِ ثانیہ ہے۔ بازاروں میں بھی َمیں نے تاحال کسی کو آوازے کستے یا عورتوں کو گھورتے یا لڑائی جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔ بعض شراب خانوں (Pubs) کے اَندر کچھ لوگ اُدھم ضرور مچاتے ہیں یا شراب خانوں کے باہر کھڑے ہو کر آپس میں بہ آواز ِ بلندگفتگو ضرور کرتے ہیں مگر شراب خانوں سے ہٹ کر وہ ایک نہایت منظم مخلوق بن جاتے ہیں۔
ٹکٹ خریدتے وقت‘ بس میں سوار ہوتے سمے‘ ہر جگہ‘ ہر لمحے‘ ایک لافانی تنظیم کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے تاحال لندن میں کوئی بھکاری نظر نہیں آیا؛ البتہ ٹیوب کے کوریڈوروں میں کہیں کہیں کوئی گو ّیا د ِکھائی دے جاتا ہے جو اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے اَور گزرتے ہوئے لوگ اُس کے سامنے بچھے کپڑے پر ِ ّسکے پھینکتے جاتے ہیں… مگر یہ بات گداگری کے زمرے میں متصو ّر نہیں ہوتی… عام خیال یہ ہے کہ موسیقار کو گانا سنانے کا معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
۱۵/ اگست محسن شمسی تشریف لے آئے۔ باتوں باتوں میں سلیم نے کہا: لندن آ کر بھارت اَور پاکستان کے باشندوں نے اپنے ثقافتی سرمایے سے قطع تعلق نہیں کیا… یوں لگتا ہے جیسے مغرب کی تہذیب کے سمندر میں مشرقی تہذیب کے چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہو گئے ہیں۔ محسن شمسی بولے: لندن میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پہنچ کر محسوس ہوتا ہے کہ مغرب نے مشرق کی تہذیب کو اَپنا لیا ہے…چلیں‘ میں آپ کو ایک اَیسا ہی علاقہ د ِکھاتا ہوں! سو وہ ہمیں ایک ایسے علاقے میں لے گئے جہاں لندن کا ”جمعہ بازار“ اپنے جوبن پر تھا۔
گاڑی پارک کرنے کے بعد ہم دُور تک اُن ریڑھیوں یا عارضی طور پر کھڑے کیے گئے کھوکھوں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ چلتے گئے جو صرف ہفتے یا اِتوار کے روز‘ نہ جانے کہاں سے نمودار ہو جاتے ہیں! اَب جو ہم اُن کھوکھوں کے ساتھ ساتھ چلے تو محسوس ہوا کہ اَندرون بھاٹی گیٹ سے گزر رہے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہاں گوشت اَور پھل اَور دیگر اَشیائے خوردنی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے بلکہ اُن کھوکھوں کے دُکاندار قمیصوں سے بھی آزاد تھے اَور بہ آواز ِ بلند اَپنی” مصنوعات“ کی تعریف میں نعرے لگا رہے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوں۔
میں اَور سلیم تو اُن کے پھیلائے ہوئے جال میں نہ آئے مگر محسن شمسی پر اُن کی آوازوں کا جادُو چل گیا اَور وہ سبزی اَور پھل اَور نہ جانے کیا کیا کچھ خریدتے اَور اَپنے تھیلے میں ڈالتے چلے گئے۔ لندن کی ُپر تکلف اَور منظم فضا میں اِنتشار اَور بے ترتیبی اَور شور کے اِس منظر نے بہت لطف دیا۔ چنانچہ ہم گھنٹہ بھر خرید و فروخت کے د ِلربا مناظر دیکھتے چلے گئے۔
یہیں ہم نے ایک میم کو اِنتہائی غصے کے عا َلم میں جب اَپنے تین چار سالہ‘ روتے چیختے نور ِ نظر کو طمانچے لگاتے ہوئے دیکھا تو نہال ہو گئے۔ پچھلے پہر سلیم مجھے ویسٹ منسٹر کا علاقہ د ِکھانے لے گیا جہاں ہم ٹیوب کے ذریعے پہنچے اَور پھر دریائے ٹیمز کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ اِس دریا پر کئی ُپل ہیں جو لندن کے دونوں حصوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔
سلیم نے کیمرے سے پارلیمنٹ ہاوٴس‘ ویسٹ منسٹر ایبے اَور دریائے ٹیمز کی بہت سی تصویریں اُتاریں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جب سلیم تصویر کھینچنے لگتا‘ پیدل چلنے والے لوگ رُک جاتے اَور کیمرے کے فلیش کے بعد ہی حرکت میں آتے۔ یہاں ہر شخص دُوسروں کی آزادی اَور حقوق کا احترام کرتا ہے‘ اِس خیال سے کہ دُوسرے بھی اُس کے حقوق کا اِسی طرح خیال رکھیں گے؛ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کے لوگ محض سایوں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں: خاص خاص موقعوں پر شور و شر بھی ہوتا ہے اَور جوش و خروش کا مظاہرہ بھی۔
مثلاً جب مشہور پاپ سنگر ڈانسر‘ میڈونا امریکہ سے ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر اُتری تو پانچ۵۰۰ سو سے زیادہ نوجوانوں نے اُسے خوش آمدید کہنے کے دوران میں ہنگامہ کر دیا جس میں کئی آدمی زخمی ہو گئے۔ آج میڈونا نے اوپن ایئر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا جسے دیکھنے کے لیے کم و بیش اسی۸۰ ہزار لوگ جمع ہو گئے تھے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ میڈونا کو اڑھائی گھنٹے کے اِس مظاہرے کا معاوضہ دس۱۰ لاکھ پاوٴنڈ کے لگ بھگ ملے گا۔
اِس موقع پر بھی بے چینی اَور توڑ پھوڑ کے واقعات ہوئے اَور پولیس نے کئی شر پسندوں کو گرفتار بھی کیا؛ تاہم عام ز ِندگی میں لوگ صلح پسند‘ منظم اَور مہربان نظر آتے ہیں۔ ۱۶/ اگست پروگرام طے پایا تھا کہ میں‘ سلیم‘ محمود ہاشمی اَور ثریا‘ برائٹن دیکھنے جائیں گے: گاڑی محسن شمسی کی ہوگی اَور ُوہی ڈرائیو کریں گے۔ مگر جب ہم برائٹن کے لیے روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ اِتوار کی وجہ سے‘ نیز اِس لیے کہ آسمان صاف تھا اَور سورج چمک رہا تھا‘ پورا لندن ہی برائٹن کے سا ِحل سمندر سے لطف اَندوز ہونے کے لیے چل پڑا تھا۔
ہم دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب وہاں پہنچے۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد سا حل کی طرف بڑھے اَور پھر سمندر سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے سے ٹیلے کو پسند کرکے‘ اُس پر جا بیٹھے اَور زاد ِ راہ نکال کر اُس پر جھپٹ پڑے۔ معاً ہمیں احساس ہوا کہ ہم سے تقریباً دو۲ گز کی دُوری پر لا تعداد لوگ مادر زاد برہنہ‘ سمندر کی طرف ُمنہ ‘کیے بیٹھے ہیں۔ ایک عجیب سی کراہت کا احساس ہوا۔
مجھے تو یوں لگا جیسے ہم ڈبل روٹی کے ساتھ جو قیمہ کھارہے ہیں‘ وہ اُنھِیں میں سے کسی موٹے انگریز کے بدن کا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ کہ کوئی بھی کسی دُوسرے کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ میں سوچنے لگا‘ آخر یہ لوگ برہنگی کو کیوں اوڑھے ہوئے ہیں… کیا اِس لیے کہ ہزاروں سال تک موٹے موٹے کپڑوں اَور بھاری بھر کم اخلاقی بندشوں میں جکڑے رہنے کے بعد یہ اَب تازہ تازہ ”آزاد“ ہوئے ہیں اَور اَپنے احسا ِس آزادی سے لطف اَندوز ہونے کے متمنی ہیں یا اِس کی وجہ یہ ہے کہ نرگسیت کے تحت اپنے بدن کی نمائش کرنا چاہتے ہیں… میرا خیا ل ہے‘ دونوں باتیں ہوں گی ‘ورنہ اِنھیں اپنے آبا و اَجداد کی تقلید کرنے کی کیا ضرورت تھی جو آج سے ہزاروں برس پہلے جنگلوں اَور وادیوں میں اِنھِیں کی طرح مادر زاد برہنہ پھرا کرتے تھے! ہم ابھی کھانا ہی کھا رہے تھے کہ ہمیں ایک بوڑھا ِسکھ‘ ہاتھ میں عصا لیے اَور آنکھوں پر موٹے شیشوں کا چشمہ لگائے‘ برہنگی کے سمندر میں اُترتا د ِکھائی دیا: وہ غالباً قریب جا کر‘ سارے معاملے کی تفتیش کرنے کا متمنی تھا… اُسے ہم نے ساحل کی طرف جاتے دیکھا‘ پھر وہ غائب ہو گیا۔
مجھے یقین ہے کہ اُس نے اِس مخلوق کی تقلید میں خود کو لباس سے آزاد نہ کیا ہوگا ؛ اگر وہ اَیسا کرتا تو اِس بات کا قوی اِمکان تھا کہ اُس کی ہیئت کو دیکھ کر سارے کا سارا ساحل آ ِن واحد میں خالی ہو جاتا! بہر حال ہم نے کھانا کھانے کے بعد وہاں سے کوچ کیا اَور شرفا کے علاقے میں چلے گئے۔ مگر شرفا کے علاقے کا حال یہ تھا کہ وہاں لباس اَور برہنگی کے درمیان صرف چار گرہ کپڑا حائل تھا۔
سو ہم واپس کار میں آ بیٹھے اَور پھر سا ِحل سمندر کے ساتھ ساتھ بچھی سڑک پر روانہ ہو گئے… ہمارا اِرادہ اِیسٹ بورن جانے کا تھا۔ برائٹن سے اِیسٹ بورن تک کا سفر اَور پھر اِیسٹ بورن سے سسکس اَور سرے کے علاقوں سے گزر کر واپس لندن پہنچنے کا طویل سفر ایک خوابناک‘ طلسمیں فضا سے گزرنے کا انوکھا تجربہ تھا۔ میں ایک دیہاتی ہوں‘ میرے د ِل میں برسوں سے یہ خواہش ہمک رہی تھی کہ کبھی اِنگلستان کی دیہی ز ِندگی کا مشاہدہ کروں۔
میں نے اِس سفر کے دوران میں دیکھا کہ بڑے بڑے قطعات پر کوئی فصل پکی کھڑی تھی۔ بعض قطعات سے یہ فصل کاٹ لی گئی تھی اَور مشین نے اُسے گول گول بنڈلوں میں باندھ دیا تھا۔ اَز راہ ِ تجسس ہم ایک جگہ رُکے اَورمیں ایک کھیت میں داخل ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ َجو کی کٹائی ہو رہی ہے… یہ غالباً مارچ میں کاشت کی گئی ہوگی اَور اپریل میں اِس نے اگنا شروع کیا ہوگا۔
بہر حال فصل بھرپور تھی۔ پورے علاقے میں ایک اِنچ زمین بھی بنجر نہیں تھی۔ جگہ جگہ گھنے درختوں کے ذخیرے تھے جن سے علاقے کے حسن میں بے پناہ اِضافہ ہو گیا تھا۔ اِیسٹ بورن پہنچے تو دیکھا کہ یہ برائٹن سے زیادہ خوبصورت جگہ ہے۔ ہم پیولین کی طرف گئے جو سمندر کے اَندر لوہے کے ستونوں اَور لکڑی کے تختوں کے اُوپر اِس طور بنایا گیا ہے کہ بالکل سمندری جہاز لگتا ہے۔
اِس جہاز پر دُکانیں بھی تھیں‘ بچوں کے کھیلنے کی اَشیا بھی اَور کیسینو (Casino) بھی! لوگ آ جا رہے تھے… بالکل میلے کا سماں تھا۔ کچھ نوجوان‘ عرشے پر سے نیچے سمندر میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ جہاز کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ کرسیاں اَور بنچ بچھے ہوئے تھے جن پر بوڑھی عورتیں اَور َمرد بیٹھے کھسر پھسر کرتے‘ آنے جانے والوں کو بے معنی نظروں سے تکتے یا پھر اُونگھتے نظر آ رہے تھے۔
ہمارے ہاں تو بڑھاپا‘ کمر کو دائرہ ٴ نون میں لا کر‘ کسی ایک جگہ ڈھیر ہو جانے کا نام ہے ؛مگر اِنگلستان میں بڑھاپا‘ بندھنوں سے آزاد‘ سر ِ عام د ِکھائی دیتا ہے… اَور ”گو ہاتھ کو جنبش اَور آنکھوں میں دم“ نہیں ہوتا مگر وہ چاہتا ہے کہ ”ساغر و مینا“ اُسے برابر نظر آتے رہیں …اَور ساغر و مینا ہیں کہ دُنیا و مافیہا سے بے نیاز‘ عا ِلم ُ ُسرور میں ایک دُوسرے سے لپٹے‘ ایک دُوسرے میں غرق‘ ہر جگہ د ِکھائی دیتے ہیں! ۱۷/ اگست ہم نے آج کی صبح مادام توساڈ (Madam Tussaud's) کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
یہ موم کے مجسموں کا میوزیم ہے۔ اِس میں ایک ہاوٴس آف ہارر House of Horror) (بھی ہے اَور ایک پلینی ٹوریم (Planetorium) بھی۔ موم کے مجسموں کو دیکھنے کا تجربہ ناقا ِبل فراموش تھا۔ قدیم زمانوں کے علاوہ زمانہ ٴ حال کی اَہم شخصیات کو بھی ”ز ِندہ“ کر دیا گیا ہے… اِس طور کہ اصل اَور نقل میں تمیز کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ میں نے ایک جگہ دو۲ مجسمے کھڑے دیکھے جو ایک دُوسرے کو گھور رہے تھے۔
مجھے شک پڑا ‘ کہیں یہ اصلی اِنسان نہ ہوں… سو میں نے اُن میں سے ایک مجسمے کے ہاتھ کو ُچھوا اَور پوچھا: Are you alive? ۔یکایک اُس مجسمے میں حرکت پیدا ہوئی اَور اُس نے ُمڑ کر میری طرف دیکھا‘ مسکرایا اَور کہا: Oh; yes! Very much alive. ۔مجسموں کی جسامت‘ رنگ‘ چہرہ بلکہ چہرے کے پورے خد و خال‘ حتیٰ کہ رگیں اَور پلکیں اَور بال بھی ُہو ُبہو اصل شخصیت کے مطابق تھے۔
ایک جگہ ہم نے ایک دوشیزہ کا مجسمہ دیکھا جو اَپنے پلنگ پر دراز تھی؛ نیچے لکھا تھا: The Sleeping Beauty ۔ ہم نے آگے بڑھ کر قریب سے اُسے دیکھا تو حیران ہوئے کہ مجسمہ سانس لے رہا تھا… گویا میوزیم والوں نے اُس کے سانس لینے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا تاکہ نقل بمطابق اصل ہو۔ افلاطون کا خیال تھا کہ یہ دُنیا اَور اِس کے جملہ کردار‘ اصل کی نقل ہیں۔ اِس میوزیم میں جا کر محسوس ہوا کہ اصل اَور نقل میں بنیادی طور پر کوئی خاص فرق نہیں۔
میوزیم میں میرے لیے سب سے د ِلچسپ مجسمہ پکاسو کا تھا۔ میں نے سلیم سے کہا: میں پکاسو جی کے قریب کھڑا ہو جاتا ہوں‘ تم ہم دونوں کی تصویر کھینچ لو! اُس نے تصویر اُتار لی… تصویر ابھی دُھل کر نہیں آئی… کیمرے کی ر ِیل کی باقی ساری تصویریں بیشک خراب نکلیں‘ کم اَز کم یہ تصویر ٹھیک آئے… دیکھئے‘ میری یہ آرزو پوری ہوتی ہے یا نہیں! مومی مجسموں کا میوزیم دیکھنے کے بعد ہم نیچے ہاوٴس آف ہارر میں چلے گئے جہاں یورپ میں اَذیت دے کر مارنے کے آلات کی نمائش کی گئی ہے۔
یہیں میں نے پہلی بار وہ گلوٹین دیکھی جو اِنقلاب ِ فرانس کے موقع پر َسروں کی فصل کاٹنے کے لیے اِستعمال کی گئی تھی۔ معاً میری ِچشم تصو ّ ر کے سامنے ”ٹیل آف ٹوسٹیز“ (Tale of Two Cities)کا کردار ”کارٹن“ آ گیا جس نے اپنی محبوبہ کی خاطر گلوٹین سے َسر قلم کروانا قبول کر لیا تھا۔ پھر ہم نے الیکٹرک چیئر (Electric Chair) دیکھی جو مجرم کو عا ِلم بالا تک پہنچانے کے لیے آج بھی راکٹ کے طور پر اِستعمال ہوتی ہے۔
زیر ِ زمیں اِس ہاوٴس آف ہارر میں اُتر کر محسوس ہوا کہ ہم یورپ والوں کے لا شعور میں اُتر آئے ہیں جہاں اِن لوگوں کی نسلی جارحیت‘ برہنہ حالت میں موجود ہے۔ یہاں سے ہم سیڑھیاں چڑھ کر اُوپر والی منزل میں آ گئے جہاں رواداری‘ ہمدردی‘ شرافت اَور دیگر اعلیٰ اِنسانی اَوصاف کے نمونے جا بجا محو ِ خرام تھے… یوں میوزیم والوں نے اِنسانی شعور اَور لا شعور کو ساتھ ساتھ کھڑے کر دیا تھا۔
اِس میوزیم کا آخری حصہ پلینی ٹوریم ہے جہاں ایک بڑے گول ہال میں ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے اور ہال کی چھت کو گھورنے لگے جو گویا اِس سینما ہاوٴس کی سکرین ہے۔ معاً سکرین پر اِس کرہ ٴ ارض کی‘ پھر ہماری کہکشاں کی‘ اِس کے بعد دُوسری کہکشاوٴں کی فلم د ِکھائی جانے لگی۔ قدیم زمانے میں کس طرح اِس کائنات کو محسوس کیا گیا تھا اَور آج کس طرح اِسے دیکھا جا رہا ہے… اِن دونوں رویوں کے فرق کو بڑی خوبی سے اُجاگر کیا گیا تھا۔
پھر ہمیں پلسار (Pulsars) د ِکھائے گئے جو اِتنی باقاعدگی سے دھڑکتے ہیں کہ شروع شروع میں سائنس والوں کو شک گزرا تھا کہ کسی اَور سیارے کی مخلوق کہیں ہمیں سگنل تو نہیں بھیج رہی… مگر جلد ہی یہ شک دُور ہو گیا جب اِس بات کا اِنکشاف ہوا کہ ہماری اِس کہکشاں میں جگہ جگہ پلسار موجود ہیں۔ اِس کے بعد کوئیسر (Queasars) د ِکھائے گئے جو روشنی کی رفتار سے قدرے کم رفتار کے ساتھ کائنات کے آخری ِسرے سے باہر کی طرف جا رہے ہیں۔
سب سے اَہم حصہ ِتخلیق کائنات کے بارے میں تھا کہ کائنات کس طرح ایک عظیم دھماکے کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ میں ایک عرصے سے فلکیات کا مطالعہ کر رہا ہوں… اِس لیے چاہتا تھا کہ سکرین پر بلیک ہول کے بارے میں بھی بتایا جاتا‘ نووا (Nova) اَور ُسپر نووا (Super Nova) کے مناظر بھی سامنے آتے اَور کچھ کائنات کے ڈاکیے یعنی Comet کے ُپر اَسرار طر ِیق کار کے بارے میں بھی بتایا جاتا مگر اُن کا مقصد ایک عام شہری تک صرف بنیادی باتوں کی ترسیل تھا‘ لہٰذا بہت سی تفاصیل سے صرف ِ نظر کیا گیا تھا؛ پھر بھی یہ ایک انوکھا تجربہ تھا جس کے نقوش میرے ذہن پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئے ہیں۔
رات کا کھانا محسن شمسی کے ہاں تھا۔ کئی کورس کا یہ ڈ ِنر مختلف انگریزی اَور یورپی کھانوں پر مشتمل تھا… ہر کورس کا ذائقہ اَور خوشبو الگ! میرا خیال ہے‘ محسن شمسی کو اَپنے افسانوں پر اِتنی داد نہ ملی ہوگی جتنی کہ آج رات اُنھیں اِس ڈ ِنر کے ہر ”شعر“ پر ملی… ڈ ِنر کیا تھا‘ ایک مرصع غزل تھی! کی‘ پھر ہماری کہکشاں کی‘ اِس کے بعد کی‘ کی‘ پھر ہماری کہکشاں کی‘ ِِس کے بعد دُوسری کہکشاوٴں کی فلم د ِکھائی جانے لگی۔
قدیم زمانے میں کس طرح اِس کائنات کو محسوس کیا گیا تھا اَور آج کس طرح اِسے دیکھا جا رہا ہے… اِن دونوں رویوں کے فرق کو بڑی خوبی سے اُجاگر کیا گیا تھا۔ پھر ہمیں پلسار (Pulsars) د ِکھائے گئے جو اِس باقاعدگی سے دھڑکتے ہیں کہ شروع شروع میں سائنس دانوں کو شک پڑا تھا کہ کہیں کسی اَور سیارے کی مخلوق ہمیں سگنل تو نہیں بھیج رہی… مگر جلد ہی یہ شک دُور ہو گیا جب اِس بات کا اِنکشاف ہوا کہ ہماری اِس کہکشاں میں جگہ جگہ Pulsars موجود ہیں! اِس کے بعد کوئیسر (Quasars) د ِکھائے گئے جو روشنی کی رفتار سے قدرے کم رفتار کے ساتھ کائنات کے آخری سرے سے باہر کی طرف جا رہے ہیں۔
سب سے اَہم حصہ تخلیق کائنات کے بارے میں تھا کہ کس طرح کائنات ایک عظیم دھماکے کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ میں ایک عرصے سے فلکیات کا مطالعہ کر رہا ہوں‘ اِس لیے چاہتا تھا کہ سکرین پر بلیک ہول کے بارے میں بھی بتایا جاتا… نووا (Nova) اَور سپر نووا (Super Nova) کے مناظر بھی سامنے آتے اَور کچھ کائنات کے ڈاکیے یعنی Comet کے پر اَسرار طریق کار کے بارے میں بھی بتایا جاتا مگر چونکہ مقصد ایک عام شہری تک صرف بنیادی باتوں کی ترسیل تھا؛لہٰذا بہت سی تفاصیل سے صرف ِ نظر کیا گیا تھا… تاہم یہ ایک انوکھا تجربہ تھا جس کے نقوش میرے ذہن پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئے رات کا کھانا محسن شمسی کے ہاں تھا۔
کئی کورس کا یہ ڈنر مختلف انگریزی اَور یورپی کھانوں پر مشتمل تھا۔ ہر کورس کا ذائقہ اَور خوشبو الگ تھی۔ میرا خیال ہے کہ محسن شمسی کو اَپنے افسانوں پر اِتنی داد نہ ملی ہوگی جتنی آج رات اُنھیں اِس ڈنر کے ہر ”شعر“ پر ملی… ڈنر کیا تھا‘ ایک مرصع غزل تھی! ۱۸/ اگست آج کا پروگرام یہ تھا کہ ٹاور آف لندن اَور ٹاور ُبرج دیکھا جائے۔ چنانچہ میں اَور سلیم سب سے پہلے آٹھ۸ پاوٴنڈ خرچ کرکے‘ ٹاور آف لندن میں داخل ہوئے۔
اِس کا سب سے اَہم حصہ وہ ہے جہاں اِنگلستان کے بادشاہوں کے تاج اَور سونے چاندی کے ظروف محفوظ کیے گئے ہیں۔ اِس حصے میں داخل ہونے کے لیے ہمیں اِتنی لمبی قطار (Que) میں کھڑے ہونا پڑا کہ کہیں ایک گھنٹے کی کوفت کے بعد ہم عمارت کے اَندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؛ مگر جب داخل ہوئے تو ساری کوفت دُور ہو گئی کیونکہ اَندر تو جگمگا رہا تھا… بالخصوص تاج میں مز ّین ہیروں نے ایک عجیب منظر پیدا کر دیا تھا۔
اَندر کوئی تھیلا یا بیگ لے جانے کی اِجازت نہیں تھی۔ تلاشی ضروری تھی کیونکہ جوکھم (Risk) بہت بڑا تھا۔ وہاں سے نکلے تو اُس عمارت میں چلے گئے جہاں قدیم زمانے کا اسلحہ (Armour) قطار اَندر قطار موجود ہے۔ ساتھ ہی قدیم زمانے سے لے کر زمانہ ٴ حال تک کی بندوقوں‘ رائفلوں اَور مشین گنوں کا تدریجی اِرتقا بھی د ِکھایا گیا ہے۔ عجیب بات یہ کہ جب قدیم زمانے میں لوہا دریافت ہوا (غالباً بارہ۲۰۰,۱ سو قبل مسیح میں) تو زمانہ ٴ کانسی (Bronze Age)کی بڑی بڑی حکومتیں صفحہ ٴ خاک سے مٹ گئیں۔
پھر جب گھوڑے کو سدھا کر‘ اُس پر ر ِکابوں والی زین َکس دی گئی تو لوہے کی تلوار اَور گھوڑے کی ملی بھگت نے قو ّت کو ایک ّسیال نقطے پر مرتکز کر دیا جس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہ سکی۔ پھر جب بارُود دریافت ہوا اَور بندوقیں توپیں آ گئیں توزمانہ ٴ کانسی (Bronze Age) کی طرح زمانہ ٴ شمشیر(Sword Age) اَور زمانہ ٴ اَسپ (Horse Age) بھی اپنے اِختتام کو پہنچ گئے۔
گھوڑوں کو تانگوں کے آگے جوت لیا گیا یا وہ ریس کورسوں کی زینت بن گئے اَور تلواریں اَور ز ِرہ بکتر‘ عجائب گھروں میں سجا دیے گئے اَور بڑے بڑے قلعے‘ َسیر گاہوں میں تبدیل ہو گئے۔ آج صورت ِ حال یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں ٹینک اَور بم اَور مشین گنیں بھی بیکار نظر آنے لگی ہیں۔ آج سے سو پچاس برس بعد کے عجائب گھروں میں آج کے ٹینک اَور بکتر بند گاڑیاں اَور اَینٹی ایئر کرافٹ گنیں بھی شاید اِسی طرح سجا دی جائیں گی جس طرح آج ہم قدیم زمانے کے ز ِرہ بکتر‘ تلواریں اَور بندوقیں نمائش کے لیے رکھ رہے ہیں۔
جب کسی شے کی اِفادیت ختم ہو جاتی ہے‘ پھر وہ ایک تاریخی یا ثقافتی مظہر کے طور پر ہی باقی َرہ سکتی ہے۔ زمانہ ٴ قدیم کے Artefacts کو بھی اِسی زاویہ ٴ نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ اِستعمال کی چیزیں تھیں یا تزئین کی۔ لندن کے ُبت گھروں کی سیر کرتے ہوئے میں نے جگہ جگہ ”اِستعمال“ اَور ”تزئین“ کی بنیاد ہی پر اَشیا میں تفریق قائم کی‘ ورنہ ناظرین کے لیے تو ساری چیزیں ہی آرٹ کے نمونے ہیں۔
اِس کے بعد ہم نے قلعے کا وہ حصہ دیکھا جہاں سر والٹر ریلے کو قید کیا گیا تھا اَور جہاں اُس نے دُنیا کی تاریخ قلم بند کی تھی۔ اُس زمانے میں وفاداری اَور ّغداری میں بس معمولی سا پردہ حائل تھا۔ بادشاہ سلامت جب چاہتے‘ سائل کو اَو ِج ثریا تک پہنچا دیتے اَور جب چاہتے‘ اُسے تحت ُ البریٰ کی سیر کرا دیتے۔سر والٹر ریلے‘ تحت ُ البریٰ میں ِگرا ہوا شخص تھا حالانکہ ایک وقت وہ تھا جب اُس نے شہرت کی بلندیوں کو ُچھو لیا تھا۔
وہاں سے آگے بڑھے تو ہمیں گیٹ آف ٹریٹرز (Gate of Traitors) د ِکھائی دیا جو آج تک اپنی اصلی حالت میں قائم ہے۔ میں نے سوچا‘ نہ جانے ّغداری کے نام پر کتنے بے گناہ اِس دروازے سے گزرے ہوں گے! قلعے سے باہر آئے تو دریائے ٹیمز میں ایک Destroyer د ِکھائی دیا ؛مگر مجھے اُس میں کوئی د ِلچسپی نہیں تھی۔ آگے بڑھے تو ٹاور ُبرج نظر آیا جو لندن کا سب سے مشہور ُپل ہے۔
ہم سیڑھیاں چڑھ کر ُپل کو عبور کر گئے۔ ُپل درمیان میں ُجڑا ہوا نہیں ہے… اگر کسی سمندری جہاز کو گزرنے کی ضرورت پڑے تو ُپل کے دونوں َپروں کو اُوپر اُٹھا لیا جاتا ہے۔ شام کے قریب ہم واپس آئے تو محمود ہاشمی اَور جتندر بلو آئے ہوئے تھے۔ جتندر بلو سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ بڑی محبت اَور خلوص سے ملے… کہا: راج کھیتی اَور سوہن راہی بھی ملنا چاہتے ہیں… میں نے کہا: اُنھیں کسی روز لے آئیے! یہ بھی طے ہوا کہ سوموار یا منگل کو لندن سے نکلا جائے اَور آکسفورڈ وغیرہ کی َسیر کی جائے… وہیں اکبر حیدرآبادی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔
۲۰/ اگست افتخار عارف تشریف لے آئے۔ اِس سیس قبل وہ دو تین بار ٹیلیفون کر چکے تھے مگر رابطہ قائم نہ ہو سکا تھا؛ پھر اُن کی اپنی مصروفیات بھی تھیں۔ بہر حال جب ملے تو تخیر کی پوری طرح تلافی ہو گئی۔ نہایت محبت کرنے والے دوست ہیں۔ ہم دیر تک بیٹھے اَور اُردو مرکز اَور پاکستان کی باتیں کرتے رہے۔ اُنھیں اُردو مرکز پہنچنا تھا اَور وہ چاہتے تھے کہ میں اُردو مرکز دیکھوں۔
دُوسری طرف ہم نے نیشنل گیلری آف آرٹ دیکھنے کا اِرادہ کر رکھا تھا۔ سو یہ طے پایا کہ نیشنل گیلری دیکھنے کے بعد ہم دو۲ بجے دوپہر اُردو مرکز پہنچ جائیں گے۔ میرے لیے نیشنل گیلری آف آرٹ میں گھومنا ایک رُوحانی تجربہ تھا۔ میں مصو ّری کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہا ہوں اَور مصو ّری کے بعض شاہکاروں کی تصاویر بھی دیکھ چکا ہوں؛ مگر د ِل میں اصل شاہکاروں کو دیکھنے کی حسرت ہمیشہ رہی ہے۔
نیشنل گیلری آف آرٹ میں داخل ہو کر احساس ہوا کہ میں تو صرف چند مشہور مصو ّروں کے نام اَور کام ہی سے واقف تھا جبکہ غیر معروف مصو ّروں نے بھی کمال فن کا مظہرہ کیا تھا۔ سپین‘ اٹلی‘ ہالینڈ اَور اِنگلستان وغیرہ کے مصو ّروں کی الگ الگ گیلریاں تھیں۔ بعض کی تصاویر تو میں کئی بار دیکھ چکا تھا اَور وہ مجھے اِس قدر اَزبر ہو چکی تھیں کہ میں دُور ہی سے اُنھیں پہچاننے پر قاد ِر تھا۔
مثلاً مجھے ایک جگہ Valesoueze کی Toilet of Venus د ِکھائی دی تو میں بے اِختیار سا ہو کر اُس کی طرف لپکا اَور دیر تک کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔ اِسی طرح Turner کی Sunrising through Vapours نے بھی قدموں اَور آنکھوں کو گویا ”پکڑ“ لیا۔ میں بطور ِ خاص Pousin Goya اَور Rembrandt کے شاہکار دیکھنا چاہتا تھا۔ ریمبراں کے بہت سے شاہکار دیکھنے کو ملے‘ بالخصوص اُس کے شاہکار Portrait of Fredrick Richel نے بہت متاثر کیا۔
البتہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اِس گیلری میں اُستاد اللہ بخش اَور عبدالرحمن چغتائی کو کوئی جگہ نہیں ملی تھی۔ چغتائی کا فن تو اہل مغرب کے لیے اجنبیت کا حامل ہو سکتا ہے مگر اُستاد اللہ بخش کے پورٹریٹ نیز دیہی مناظر کی مصو ّری ایک چیزے دیگر ہے اَور نیشنل گیلری آف آرٹ کی Portraits دیکھنے کے بعد تو یہ بات ذہن میں پوری طرح واضح ہ�

Chapters / Baab of Teen Safar By Wazir Agha