انڈونیشیا: کنوارپن کے لیے طبی معائنہ ’امتیازی‘ قرار دیدیاگیا

بدھ 19 نومبر 2014 14:10

جکارتہ(اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 19نومبر 2014ء)انڈونیشیا کی پولیس میں بھرتی کے لیے لڑکیوں کا ’کنوارا‘ اور ’غیر شادی شدہ‘ ہونا لازمی ہے اور انہیں کنوارپن ثابت کرنے کے لیے طبی معائنے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس عمل کو امتیازی قرار دیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کے چند سینئر پولیس اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ پولیس فورس میں بھرتی کے لیے لڑکیوں کو کنوارپن ثابت کرنے کے لیے جس طبی معائنے سے گزرنا پڑتا تھا، وہ ترک کیا جا چکا ہے۔

تاہم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ عمل اب بھی جاری ہے۔اس سلسلے میں ہیومن رائٹس واچ نے متعدد ایسی لڑکیوں سے انٹرویو کیے، جو پولیس فورس میں بھرتی کے عمل کے دوران اس طرح کے طبی معائنے سے گزر چکی ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں چند لڑکیاں ایسی بھی ہیں، جو سال رواں میں ہی ایسا معائنہ کرا چکی ہیں۔ ان لڑکیوں کے بقول معائنے کا یہ عمل ان کے لیے ’تکلیف دہ اور صدمے کا سبب‘ ثابت ہوا۔

انڈونیشیا کے مغربی سمارٹرا جزیرے کے شہر پیکانبارو میں کنوارپن ثابت کرنے کے لیے یسے ہی طبی معائنے سے گزرنے والی ایک انیس سالہ لڑکی نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا، ”میں ان تلخ تجربات کو دوبارہ یاد کرنا نہیں چاہتی۔ وہ شرمندگی کا باعث تھے۔“ اس لڑکی نے مزید کہا کہ انجان افراد کے سامنے برہنہ حالت میں ہونا اسے ہر گز پسند نہیں اور اس عمل کو روک دیا جانا چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق محکمے کی نائب ڈائریکٹر نیشا واریا نے ایسے طبی معائنوں کو ’امتیازی اور عورتوں کے لیے ندامت کا باعث‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”جکارتہ میں حکام کو فوری طور پر ایسے ٹیسٹوں کو خارج کر دینا چاہیے اور پھر یہ یقینی بنانا چاہیے کے ملک بھر میں تمام پولیس اسٹیشن بھی انہیں ترک کریں۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ایسے معائنے نئی بھرتیوں کے حوالے سے نہ صرف محکمہ پولیس کے اپنے نظم و ضبط کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق سمیت پرائیویسی، مساوات اور غیر امتیازی سلوک کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔تاحال انڈونیشیا کی پولیس نے اس بارے میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔اگرچہ انڈونیشیا میں کئی سینئر پولیس اہلکاروں کا یہی دعویٰ ہے کہ کنوارپن کے لیے طبی معائنے کو پچھلے کچھ سالوں سے ترک کیا جا چکا ہے تاہم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسی مہینے پولیس فورس کی اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک اشتہار میں یہ کہا گیا ہے کہ خواتین کو بھرتی کے لیے اس معائنے سے گزرنا ہو گا۔

واضح رہے کہ انڈونیشیا کی نیشنل پولیس چار لاکھ اہلکاروں پر مشتمل ہے، جس میں سے صرف تین فیصد شراکت عورتوں کی ہے۔ آئندہ کچھ عرصے میں البتہ حکام پولیس فورس میں عورتوں کا تناسب بڑھانا چاہتے ہیں۔یہ امر اہم ہے کہ انڈونیشیا کے کچھ حصے انتہائی قدامت پسند رجحانات کے حامل ہیں اور وہاں کنوارپن کو آج بھی کافی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔یہ معاملہ گزشتہ برس اس وقت اٹھا تھا، جب ایک شہر کے تعلیمی شعبے کے سربراہ نے یہ بیان دیا تھا کہ ہائی اسکول میں داخلے کے لیے ٹین ایجر لڑکیوں کو کنوارپن ثابت کرنے کے لیے طبی معائنے کے عمل سے گزارا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ کنوارپن ثابت کرنے کے لیے طبی معائنہ صرف انڈونیشیا ہی کا مسئلہ نہیں، ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایسے معائنے بھارت، مصر اور افغانستان میں بھی کرائے جاتے ہیں۔