روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی ،ْسراج الحق کی زیر قیادت 10ستمبر کواحتجاجی مارچ کیا جائے گا ،حافظ نعیم الرحمن

منگل 5 ستمبر 2017 21:46

روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی ،ْسراج الحق کی زیر قیادت 10ستمبر کواحتجاجی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 05 ستمبر2017ء) امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ برما کے مظلوم اور نہتے روہنگیا مسلمانوں پر ’’انسانیت سوز مظالم ‘‘اور ان کی نسل کشی کے خلاف اورمظلوم اور نہتے مسلمانوں سے اظہار یجہتی کے لیے کراچی میں اتوار 10ستمبر کو امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی زیر قیادت مزار قائد تا تبت سینٹر احتجاجی و یکجہتی مارچ منعقد کیا جائے گا ،شہر بھر میں کیمپ لگائے جائیں گے ،کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا جائے گا ،علماء کرام ائمہ مساجد ، سیاسی ومذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے افراد سے رابطہ کیا جائے گا ۔

علاوہ ازیں اسلام آباد میںجمعہ 8ستمبر کو برمی سفارتخانے تک احتجاجی مارچ کیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ برما کے مسلمانوں کی امداد کے لیے مساجد کے باہر جھولی پھیلاکر فنڈز جمع کیے جائیں گے ۔مخیر حضرات اور کاروباری طبقے اور عوام بھرپور تعاون کریں ۔ان خیالات ک اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں منگل کے روز روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

پریس کانفرنس سے برمی مسلم کمیونٹی کے رہنما مولانا عبد الرشید نے بھی خطا ب کیا ۔اس موقع پر سکریٹری کراچی عبد الوہاب ، نائب امراء برجیس احمد ، ڈاکٹر اسامہ رضی ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری ،برمی کمیونٹی کے رہنما مولانا عبد الرشید اور دیگر بھی موجود تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور نسل کشی کا معاملہ ہے ۔

دنیا بھر کے انسان اور انسانی حقوق کے علمبردار عالمی ادارے ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف ایک آواز ہوجائیں۔مشرقی تیمور ، انڈونیشیا اور جنوبی سوڈان کے معاملے پر ہفتوں میں ریفر نڈم کروا کر ان کو ان کا حق دے دیا گیا افسوس کی بات ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف 14فوجی آپریشن کیے گئے لیکن اس کے خلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی ۔او آئی سی کی ذمہ داری ہے تمام مسلم ممالک جمع ہوں اور برما میں مظالم کے خلاف آواز اٹھائے اور اسلامی سیکورٹی کونسل کا بھی اجلاس اس مسئلہ پر بلایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مظلوم روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام انسانی حقوق کے علمبردار کے لیے سوالیہ نشان ہے ۔عالم اسلام کے حکمرانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ صرف ترکی اور ملائشیا نے کھل کر حمایت اور یکجہتی کا اعلان کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 34ممالک کی فوج روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کیوں نہیں آتی ۔عالمی بر ادری چند ملکوں اور سامراجی طاقتوں کے شکنجے میں ہے جو ان کے مقاصد کے لیے کام کررہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو ایک کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا ۔بد قسمتی سے ہمارے حکمران بھی اس اہم مسئلہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔اس وقت پورے ملک میں اس اہم مسئلہ کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں ، سول سوسائٹی کے رہنماؤں ،وکلاء ، طلباء اور مختلف طبقہ فکر کے افراد سے رابطہ کیا جائے گا ۔

حکومت پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھائے اور اپنا کردار ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے ، روہنگیا مسلمانوں پر تاریخ ساز ظلم ڈھائے جارہے ہیں جہاں عورتوں کی عزت وآبرو کو پامال کر کے انہیں زندہ جلایا جارہا ہے اورمعصوم بچوں کو آگ میں ڈالاجارہا ہے ۔ 21وی صدی کے دور میں جانوروں اور پرندوں کے حقوق کی بات کرنے والے انسانی حقوق کی پامالی پر کیوں خاموش ہیں اس وقت اراکان میں انسانی حقوق کی پاما لی کی جارہی ہے امریکہ ، یورپ ، مغرب ممالک سے توقعات کھنے کے بجائے مسلم حکمران اور مسلم ممالک برماکے مظلوم مسلمانوں کی آواز بنیں ۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے برمی مسلمانوں کو قبول کرنے کے بجائے مسترد کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ یو این، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت خود خاموش ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں کو بھی وہاں تک رسائی دینے کے لیے ٹال مٹول کر رہی ہے۔

ایسے میں مسلسل ظلم کا شکار روہنگیا مسلمان بغیر کسی امداد کے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ آنگ سان سوچی جو کہ نوبل انعام یافتہ میانمار کی حکمران ہیں وہ روہنگیا مسلمانوں کو دہشت قرار دیتی ہیں اور رخائن فسادات کا اصل ذمہ دار انہی کو قرار دیتی ہیں۔ نوبل انعام لینے والی یہ حکمران خاتون ملٹری طاقت کو ختم کروانے میں ناکامی اور ایک ملین مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کرنے پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کا شکار ہیں۔

ستمبر 2016 میں کوفی عنان کے ساتھ ملاقات میں آنگ سان نے میانمار کے مسئلے کو حل کروانے کی یقین دہانی کروائی اور اس سلسلے میں ایک کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا لیکن اس کمیشن کو کبھی حقائق تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔ حکومت نے صحافیوں اور دیگر امدادی کارکنوں کی رخائن تک رسائی بند کر دی۔ یو این رپورٹرز اور مختلف انویسٹیگیشن ٹیموں کو روہنگیا مسلم علاقے تک رسائی سے روکنے کے لیے انہیں میانمار کے ویزے ہی نہیں جاری کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ1970 سے اب تک تقریباً ایک ملین روہنگیا مسلمان مظالم کی وجہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ تازہ ترین یو این رپورٹ کے مطابق 2012 سے اب تک ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار سے زائد مسلمان نقل مکانی کر کے ہمسائے ممالک جا چکے ہیں۔ اسی طرح 2016 کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں تقریباً 87000 مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت پذیر ہوئے۔ اور 2012 سے 2015 کے درمیان تقریباً ایک لاکھ بارہ ہزار لوگوں نے سمندر کے راستے ملائشیا جانے کا خطرناک سفر اختیار کیا۔

مولانا عبد الرشید نے کہا کہ 15دنوں میں روہنگیا میں سینکڑوں مساجد کو نذر آتش کیا گیا اور ہزاروں بستیوں کو جلادیا گیا ہے ، ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کے باڈر پر موجود ہیں جنہیں بنگلہ دیشی حکومت داخل ہونے کی اجاز ت نہیں دے رہی ۔ ہزاروں شیر خوار بچے پانی نہ ملنے کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :