ماحولیاتی تبدیلیوں کے کاٹن ویلیو چین پر ہونے والے مضر اثرات کا جائزہ لینے کے سلسلہ میں سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے تحقیقی گروپ نے مختلف اداروں کے ماہرین اور سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتوں کا آغاز کردیا

بدھ 11 اکتوبر 2017 16:39

فیصل آباد۔11 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اکتوبر2017ء) ماحولیاتی تبدیلیوں کے کاٹن ویلیو چین پر ہونے والے مضر اثرات کا جائزہ لینے کے سلسلہ میں سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے تحقیقی گروپ نے مختلف اداروں کے ماہرین اور سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتوں کا آغاز کردیا ہے جبکہ اس ضمن میں سمال ٹریڈرز اینڈ چیمبر آف کامرس کے ترجمان نے کہا کہ عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیات تبدیلیوں کے مضر معاشی اثرات پر قابو پانے کیلئے ہمہ جہت پالیسی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد چیمبر ملک کا تیسرا بڑا اور اہم ادارہ ہے جس کے 5000ممبران صنعت و تجارت کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ فیصل آباد کی شناخت ٹیکسٹائل سے ہے مگر در حقیقت یہاں زراعت سمیت ہر قسم کی صنعت موجود ہے یہی وجہ ہے کہ قومی معیشت میں اس کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات 26 ارب ڈالر ہیںجس میں سے نصف ٹیکسٹائل سے آتا ہے اور اس نصف کا نصف حصہ براہ راست فیصل آباد سے برآمد کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلابوں کا ذکر کیا جن کی وجہ سے نہ صرف کپاس اور دیگر اجناس کو نقصان پہنچا بلکہ بڑی تعداد میں کسان بھی متاثر ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان دنیا کا کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے جبکہ بی ٹی کاٹن کی وجہ سے پاکستان میں کپاس کی مجموعی پیداوار بڑھی ہے مگر اس کے باوجود بڑی تعداد میں ٹیکسٹائل ملز مالکان اعلیٰ کوالٹی کی کپاس دوسرے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔

انہوں نے اس سلسلہ میں اچھی کوالٹی کی کپاس پیدا کرنے اور اس سلسلہ میں ٹیکنالوجی کی کمرشلائزیشن پر بھی زور دیا تا کہ دھاگے کے فائن کاؤنٹ بنانے کیلئے خام مال پاکستان سے ہی مل سکے اور ان کی درآمد کی ضرورت نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی بحران کی وجہ سے ٹیکسٹائل کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے ۔انہوںنے کہاکہ فیصل آباد میں کئی بڑے بڑے ادارے مہنگے قرضوں ،بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں جبکہ دیگر ادارے بھی اپنی پوری استعداد کار کے مطابق کام نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اب بنکوں کی شرح سود کم ہوئی ہے مگر ابھی تک توانائی کا مسٴلہ حل نہیں ہو سکااوراگر بجلی دستیاب ہے تو یہ ہمارے علاقائی ملکوں کے حوالے سے بہت مہنگی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں برآمد مصنوعات کو غیر ملکی منڈیوں میں سخت مسابقت کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کو ان کی معاشی اہمیت کے حوالے سے حکومتی سطح پر بننے والی پالیسیوں میں ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہوں نے وزیر اعظم کی طرف سے برآمدات بڑھانے کیلئے متوقع پیکیج کے بھی جلد اعلان کا مطالبہ کیا۔

متعلقہ عنوان :