Abu Nasr Farabi - Article No. 2517
ابو نصر فارابی - تحریر نمبر 2517
اس کا نام سب بڑے احترام سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔جس کے اپنے دیے کی روشنی ختم ہو گئی لیکن علم کا جو دیا اس نے جلایا،اس کی روشنی کبھی ختم نہیں ہو گی۔
جمعرات 11 مئی 2023
ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے ”فاراب“! بہت مدت گزری،اس شہر کے ایک محلے میں ایک بہت ہی غریب لڑکا رہتا تھا جسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔دن کو وہ اپنے استاد کے ہاں جا کر سبق پڑھتا اور جب رات آتی،وہ دن کا پڑھا ہوا سبق یاد کرتا اور اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک یہ سبق پوری طرح یاد نہیں ہو جاتا۔اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا رہتا تھا،اسی دیے کی روشنی میں وہ رات کے دو،دو بجے تک پوری پوری کتاب پڑھ لیتا اور بعض اوقات ساری رات ہی پڑھنے میں گزر جاتی۔
ایک رات کا ذکر ہے وہ اپنی چارپائی پر بیٹھا پوری توجہ اور انہماک سے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دیے کی روشنی مدھم ہونے لگی۔اس نے بتی کو اونچا کیا،روشنی ہوئی تو ضرور مگر بہت جلد ختم ہو گئی۔
(جاری ہے)
وہ اپنی کوٹھری سے نکل کر دروازے پر آ بیٹھا۔رات کا اندھیرا ہر جگہ پھیلا ہوا تھا،کہیں کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا،سب لوگ آرام کر رہے تھے۔
اتنے میں اس کی نظر روشنی کی ایک ننھی سی لکیر پر پڑی جو شاید دور کسی دیوار پر دکھائی دے رہی تھی۔اسے دیکھتے ہی اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش!یہ روشنی اس کے گھر میں ہوتی۔روشنی دیکھ کر وہ اُٹھ بیٹھا اور یہ معلوم کرنے کیلئے کہ یہ کہاں سے آ رہی ہے،ادھر قدم اُٹھانے لگا جدھر سے روشنی آ رہی تھی۔اپنی کتاب وہ ساتھ ہی لے آیا تھا تاکہ موقع ملے تو اسی روشنی میں کتاب کا باقی حصہ پڑھ ڈالے اور پھر واپس آ جائے۔کچھ دور جا کر اس نے دیکھا کہ وہ روشنی ایک قندیل میں سے نکل رہی ہے جو محلے کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھی۔اس نے چوکیدار سے بڑے ادب کے ساتھ کہا۔جناب!اگر آپ اجازت دیں تو میں قندیل کی روشنی میں کتاب پڑھ لوں؟چوکیدار ایک نیک آدمی تھا،وہ سمجھ گیا کہ یہ غریب طالب علم ہے جس کے پاس تیل خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔وہ بولا۔ہاں بیٹا!پڑھ لے۔میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا،یہاں بیٹھ جا!لڑکا کتاب پڑھنے لگا۔اب مشکل یہ تھی کہ چوکیدار ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا تھا اس لئے کہنے لگا۔بیٹا!اب تم گھر جاؤ اور سو جاؤ،مجھے آگے جانا ہے۔لڑکا بولا۔آپ ضرور آگے جائیے،جہاں جی چاہے،میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا۔چوکیدار قندیل اُٹھا کر آگے آگے چلنے لگا اور لڑکا پیچھے پیچھے!اس طرح مطالعہ کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آ رہی تھی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔وہ چار بجے تک پڑھتا رہا اور پھر چوکیدار کا شکریہ ادا کر کے گھر چلا گیا۔دوسری رات بھی یہی واقعہ ہوا۔تیسری رات لڑکا آیا تو چوکیدار کہنے لگا۔بیٹا!لو یہ قندیل اپنے گھر لے جاؤ،میں نئی قندیل لے آیا ہوں۔لڑکے نے یہ الفاظ سنے تو اسے اتنی خوشی ہوئی جیسے بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔وہ قندیل اپنی کوٹھری میں لے آیا اور اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرنے لگا۔چند روز کے بعد اسے پیسے ملے تو وہ بازار سے تیل خرید لایا اور اسے دیے میں ڈال دیا۔کئی دن گزر گئے اور پھر کئی سال․․․․!لڑکا جوان ہو گیا۔جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی چلی جاتی تھی،اس کا علم بھی بڑھتا جاتا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا استاد بن گیا۔بڑے بڑے عالم فاضل لوگ دور دور سے اس کے پاس آتے اور اس سے علم حاصل کرتے تھے۔وہ علم کا ایک ایسا دریا بن گیا جس سے علم کے پیاسے،اپنی پیاس بجھاتے رہتے تھے۔
جانتے ہو بچو․․․!یہ لڑکا کون تھا؟یہ تھا ابو نصر فارابی!فارس (ایران) کے اس عظیم مسلمان فلسفی اور سائنسدان کی وفات کو کئی سو برس گزر چکے ہیں مگر اس کی عزت و عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔اس کا نام سب بڑے احترام سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔جس کے اپنے دیے کی روشنی ختم ہو گئی لیکن علم کا جو دیا اس نے جلایا،اس کی روشنی کبھی ختم نہیں ہو گی۔
Browse More 100 Great Personalities
کائنٹ لیو ٹالسائی
Count Leo Tolstoy
ابراہم لنکن
Abraham Lincoln
امیر خسرو
Amir Khusroo
مارکو پولو
Marco Polo
ہومر
Homer
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Hazrat Ali Murtaza RTA
Urdu Jokes
بڑے بڑے بالوں والا
barray barray balon wala
جہازوں کا اڈا
Jahazon Ka ada
ایک سکھ
Aik sikh
سکول رپورٹ
School report
ایک شخص بہت کم گو تھا
Aik Shakhs bohat kam go thaa
بچوں کی دعائیں
bachon ki duaen
Urdu Paheliyan
گرچہ وضو کرتا نہیں دیتا ہے اذانیں
wuzu wo karta nahi deta hai azan
مفت کسی کا ہاتھ نہ آیا
muft kisi ke hath na aaya
لکڑی کی ڈبیہ جب ہاتھ آئی
lakdi ki dibiya jab hath ai
مارو کوٹو لے لو کام
maro koto lelo kaam
بھرا بھرا تھا ایک مکان
bhara bhara tha ek makan
منہ میں پڑی رہی اک بوٹی
munh mein pari rahi ek boti