Aladdin Ke Jin Ka Zawal - Article No. 1144

الہٰ دین کے جن کا زوال - تحریر نمبر 1144
نہانا چاہتا ہوں، بالٹی اٹھاﺅ اور سرکاری نلکے سے پانی بھر کر اسے صحن میں رکھ دو
منگل 17 جولائی 2018
(جاری ہے)
“ جن کو اگر چہ ایک بار پھر بڑی سبکی محسوس ہوئی ، مگر اس نے ” جو حکم میرے آقا“ کہا اور غائب ہو گیا۔
نہانے سے فراغت پا کر الہ دین نے ایک بار پھر چراغ رگڑا، جس پر ایک گڑگڑاہٹ سنائی دی اور خوف ناک قہقہے لگاتا ہوا جن نمودار ہوا۔ اس نے جھُک کر کہا:” کیا حکم ہے میرے آقا؟“ الہٰ دین نے کہا: ” بازار سے سبزی وغیرہ لے کر آﺅ اور میرے لیے جلدی سے کھانا تیار کرو، مجھے بڑی بھوک لگی ہے۔“ یہ سن کر جن بہت شرمسار ہوا اور گردن جھکا کر بازار کی طرف چل پڑا۔ کھانا وغیرہ کھا کر الہٰ دین نے ایک بار پھر چراغ رگڑا،جس پر جن ایک کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا نمودار ہوا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ الہٰ دین نے حکم دیا کہ ہمسایوں سے تھوڑی سی پتّی مانگ کر لاﺅ اور چائے بناﺅ۔“ یہ سن کر پسینے کے قطرے جن کی پیشانی پر نمودار ہوئے ، جو اس نے فوراََ ہاتھ سے پونچھ ڈالے اور بادل نخواستہ حکم کی تعمیل میں مشغول ہوگیا۔ پھر یوں ہوا کہ دن مہینے اور سال گر تے گئے اور وہ اپنے آقا کی خدمت میں اسی طرح مشغول رہا۔ اس کے کپڑے دھوتا، استری کرتا، جوتے پالش کرتا، برتن مانجھتا اور نکڑ کی دکان سے اس کے لیے پان اور سگریٹ خرید کر لاتا اور پھر اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔ اس دوران جن میں ایک تبدیلی رونما ہوئی، اس کی جسامت پہلے سے بہت کم ہوگئی۔ اس کا قد بھی کھٹتا چلا گیا اور اس کے قہقہوں کی گونج بھی مدھم پڑگئی۔ ایک تبدیلی اس میں یہ رونما ہوئی کہ الہٰ دین کے چراغ رگڑنے پر وہ کاندھے پر رومال رکھے نمودار ہوتا اور ” کیا حکم ہے میرے آقا“ کے بجائے ”کیا حکم ہے صاحب جی“ کہتا ۔ یہ جن آہستہ آہستہ اپنی پہچان بھولتا جا رہا تھا۔ سو الہٰ دین کے اس جن کی نقاہت اب روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ اس کا قد گھٹتے گھٹتے اپنے آقا کے قد کے برابر ہو گیا۔ اس کے بازو اب مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے نہیں تھے، بلکہ وہ سکڑ کر اپنے آقا جتنا ہی رہ گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی کمر میں درد ہونے لگا اور پٹھّے درد کرنے لگے، جس کے لیے وہ باقاعدگی سے ” سربیکس ٹی“ کھانے لگا، تاہم وہ اب بھی اپنے ” صاحب جی“ کی خدمت میں ہمہ تن مشغول رہتا ۔ اب وہ پہلے جیسا کرّوفروالا جن نہیں تھا، بلکہ وہ اپنی شناخت تک بھُول گیا تھا۔ سو اب اسے بلانے کے لیے چراغ رگڑنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ کاندھے پر رومال رکھے، دھوتی اور بنیان پہنے ایسے ہی سب کی نظروں کے سامنے پڑا رہتا ۔اس کا قد الہٰ دین کے قد سے بھی چھوٹا ہو گیا تھا۔ جناں چہ اب الہٰ دین نے اسے بلانا ہوتا تو وہ اسے” اوئے چھوٹے! ادھر آﺅ“ کہ کر آواز دیتا۔ ایک دن اس نے الہٰ دین سے کہا: ” صاحب جی ! اگر آپ اجازت دین تو میں کہیں اور کام تلاش کر لوں۔ آپ کو جو تنخواہ ملتی ہے ، اس میں آپ کا اپنا گزارا بھی نہیں ہوتا۔“ الہٰ دین یہ سن ک جھینپ گیا اور پھر اس نے رضا مندی کے اظہار کے لیے ہولے سے اپنی گردن ہلائی۔ سو یہ جن آج کل بابو ہوٹل میں ملازم ہے اور ”چھوٹے اوئے“ کی آواز سن کر تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ایک میز سے دوسری میز کی طرف جاتا ہے۔ کبھی کبھی اسے اپنا ماضی یاد آتا ہے تو اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے بازواور آسمان سے باتیں کرتا ہوا قد ۔ بڑے بڑے بادشاہوں کے محلّات کو اپنی ہتھیلی پر اُٹھا لینے والاجن ، دوبارہ جن کے روپ میں آنے کے لیے اپنی تمام قوتیں مجتمع کرتا ہے ، مگر اپنی اس تمام تر کوشش کے نتیجے میں وہ سگریٹ کے دھویں جتنے مرغولے میں سے اپنی دکھتی کمر پر ہاتھ رکھے نمودار ہوتا ہے۔ اس پر وہ مارے ندامت کے سر جھکا لیتا ہے اور ہولے سے کہتا ہے: ” میں بڑے کرّوفر والا جن تھا، مگر میرے آقاﺅں نے مجھے کم زور کر دیا۔“ پھر ایک دم سے خوف زدہ ہو کر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے کہ کہیں کسی نے یہ سن تو نہیں لیا کہ وہ کبھی بڑے کرّوفر والا جن تھا۔Browse More Funny Stories

ایک لوہارکی
Aik Lohar Ki

مشغلے کی تلاش
Mashghalay Ki Talash

ملا نصیر الدین کے کار نامے
Mulla Nasreddin K Karnamay

قصہ جرمنی کے ایک جیل خانے کا
Qissa Germany Ke Aik Jail Khane Ka

بھوت کا راز
Bhoot Ka Raaz

سونے کی چڑیا
Soone Ki Chirya
Urdu Jokes
بیٹا باپ سے
Beta Baap Se
پلیٹ فارم
platform
بدھو وکیل
Budhoo Wakeel
پاگل خانہ
Pagal khana
بچہ ماں سے
Bachaa Maa se
منیجر صاحب
manager sahib
Urdu Paheliyan
آج ہے اس کا گھر گھر نام
aaj hai uska ghar ghar naam
شیشے کا گھر لوہے کا در
sheeshay ka ghar lohe ka dar
ایک جگہ پر چکر کھائے
aik jaga par chakkar khaye
اپنے دیس میں پلی پلائی
apne dais me pali palai
چھوڑا مت تم اس کا ہاتھ
chodo mat tum uska hath
جب کھائیں تو سب کو بھائیں
jab khayen tu sab bhaien