
Hatim Tai Ka Aisaar - Article No. 1008
حاتم طائی کا ایثار
عرب میں اسلام سے پہلے جہاں ہر طرف برائیاں ہی برائیاں تھیں وہاں کچھ اچھے لوگ بھی تھے۔جن میں سے ایک حاتم بھی تھا۔حاتم کے بارے میں بے شمار کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔جن میں سے اگر مبالغہ نکال بھی دیا جائے تو پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ حاتم کی سخاوت ضرب المثل ہے۔اسلام میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت مثالی ہے،اُن کے بارے میں بے شمار واقعات مشہور ہیں۔
بدھ 7 جون 2017

عرب میں اسلام سے پہلے جہاں ہر طرف برائیاں ہی برائیاں تھیں وہاں کچھ اچھے لوگ بھی تھے۔جن میں سے ایک حاتم بھی تھا۔حاتم کے بارے میں بے شمار کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔جن میں سے اگر مبالغہ نکال بھی دیا جائے تو پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ حاتم کی سخاوت ضرب المثل ہے۔اسلام میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت مثالی ہے،اُن کے بارے میں بے شمار واقعات مشہور ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ حضرت عثمان غنی کے مال وزر اور عطیات وسخاوت کی وجہ سے اسلام کے پھیلاؤ میں بڑی سہولت پیدا ہوئی۔
حاتم کا تعلق”طے“نامی ایک قبیلے سے تھا۔اِسی کی نسبت سے اُسے حاتم طائی کہا جاتا ہے۔وہ یمن کا حکمران تھا۔یمن کا علاقہ عرب سے جڑا ہوا تھا۔عرب پر اُن دنوں نوفل نامی بادشاہ کی حکومت تھی۔
(جاری ہے)
وہ حاتم کی سخاوت اور علاقے میں مقبولیت سے بہت پریشان تھا۔اُس کی سخاوت سے محض یمن کے لوگ ہی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اُس تک پہنچ جانے والا ہر شخص اُسکی سخاوت سے فائدہ اٹھاسکتا تھا۔
بہت سے لوگ تو محض اس کا امتحان لینے ہی اس کے پاس چلے جاتے اور وہ ہمیشہ ہر امتحان میں کامیاب ہوا۔ایک مرتبہ کسی کو معلوم ہوا کہ حاتم طائی کے ذاتی استعمال کا گھوڑا بہت قیمتی ہے کیوں نہ وہ حاصل کیا جائے،چنانچہ ایک شخص اُسکا امتحان لینے پہنچ گیا۔حاتم اُس روز شکار کرنے کیلئے نکلا ہوا تھا۔اتفاق سے اُس روز اُسے شکار بھی نہیں ملا۔جب وہ واپس پہنچا اور اُسے معلوم ہوا کہ کوئی مہمان اُس کا انتظار کر رہا ہے تو اُس نے اپنے ملازمین سے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ایک ملازم نے کہا؛”سرکار آج کھانے میں گوشت کا سالن نہیں بن سکے گا کیونکہ تازہ گوشت نہیں ہے۔“
حاتم کی غیرت اس بات کو گوارا نہیں کرسکتی تھی کہ اُس کے دسترخوان پر مہمان کیلئے گوشت کا سالن بھی نہ ہو۔اُس نے کہا آج ہمارا محبوب گھوڑا ہی ذبح کر کے پکا لیا جائے۔یہ فیصلہ ہوئے اُسے شدید دکھ بھی ہورہا تھا مگر اسکے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔
کھانا تیار ہوا،حاتم نے اپنے مہمان کی تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔مہمان بھی بہت خوش تھا۔صبح جب مہمان کے جانے کا وقت ہوا تو مہمان نے رخصت ہونے سے قبل اُسکی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے حاتم کی سخاوت کی بڑی شہرت سنی ہے اگر وہ اپنا پسندیدہ گھوڑا بھی اُسے عنایت کردے تو بڑی بات ہوگی۔
حاتم اُس کی یہ بات سن کر کچھ افسردہ ہوا مگر پھر کہنے لگا میرے معزز مہمان یہ فرمائش اگر آپ گزشتہ سال سے پہلے ہی کردیتے تو اس کی تعمیل ضرور کرتا مگر اب یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ میرا پسندیدہ گھوڑا اب آپ کے پیٹ میں پہنچ چکا ہے۔اسکے ساتھ ہی اُس نے ساری مجبوری بتائی اور اُسے اشرفیوں سے بھری تھیلی نذرانہ کے طور پر دی کہ اس دولت سے وہ اس گھوڑے سے بھی قیمتی گھوڑا خرید سکے گا۔مہمان حاتم کی سخاوت کا گرویدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پشیمان بھی تھا کہ اُس کی وجہ سے ایک قیمتی گھوڑا ذبح ہو گیا۔اس نے اشرفیوں کی تھیلی لینے سے انکا ر کردیا مگر حاتم نے کہا یہ آپ کو رکھنا ہی ہوگی۔کیونکہ میں اپنے مہمان کی فرمائش پوری نہ کرسکا ہوں۔
حاتم سخی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت نرم دل بھی تھا۔اُس روز اسے اس بات کا ملال ہورہا تھا کہ وہ اپنے مہمان کی خواہش پوری کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ مہمان اُس کی نرم دلی اور سخاوت کے گُن گاتا ہوا اپنے گھر چلاگیا۔ادھر عرب کا نوفل بادشاہ سوچ رہا تھا کہ اگر حاتم کی سخاوت اور مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی تو پھر لوگ اُس کی ہی طرف جائیں گے کوئی اُسکی طرف نہ آئے گا۔اس نے ایک بہادر اور طاقتور سپاہی سے کہا کہ وہ حاتم کو قتل کردے،اسکے عوض اسے بھاری انعام ملے گا۔حاتم کیونکہ نیک دل اور سخی انسان تھا ،اسلئے وہ اپنے ساتھ محافظ نہیں رکھتا تھا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ موت جب آنی ہے تب ہی آئیگی اور جب آئے گی تو کوئی محافظ اسے بچا نہیں سکے گا۔بادشاہ نوفل کا بھیجا ہوا سپاہی ایک مہمان کے روپ میں حاتم کے محل پہنچ گیا۔ایک رات جب سب لوگ سورہے تھے۔وہ سپاہی خاموشی سے حاتم کی خوابگاہ تک پہنچ گیا۔اس نے دیکھا کے حاتم گہری نیند سورہا ہے۔ تو اس نے اپنی کمر سے بندھے خنجر کو نکالا اور پوری طاقت سے اُس پر وار کر دیا۔عین اُسی وقت حاتم نے کروٹ لی اور سپاہی کا نشانہ چونک گیا۔اور وہ حاتم کے اوپر گرگیا۔حاتم اس دوران نیند سے بیدار ہوچکا تھا۔اس نے اپنے مہمان سپاہی کو قابو کرلیا اور اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟کیا اسکی مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟
سپاہی نے حاتم کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔حاتم نے اسے کہا مجھے قتل کر کے اگر تمہیں دولت ملتی ہے تو فوراََ قتل کردے۔اس سے پہلے کے میرے ملازم آجائے تم مجھے مار سکتے ہو میں مزاحمت نہیں کرونگا“۔سپاہی یہ سمجھ رہا تھا کہ اب اس کی موت آگئی کیونکہ حاتم کی پکڑ سے اس کا نکل جانا ممکن نہیں تھا۔
حاتم کا یہ رویہ دیکھ کر سپاہی کہنے لگا حضور مجھے معاف کردیں،مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔میں توبہ کرتا ہوں اور آئندہ سے ہمیشہ آپ کا وفادار رہوں گا۔حاتم نے نہ صرف اسے معاف کردیا بلکہ اشرفیوں سے بھری تھیلی بھی دی کیونکہ اُسے یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کا مہمان اس کے گھر سے خالی ہاتھ جائے۔
مزید سچی کہانیاں
مرشد کی جوتیاں
Murshad Ki Jootian

وہ دہشت ناک رات
Wo Dehshatnak Raat

بھالو اور اس کی دم
Bhalu Or Uss Ki Dum

دعا کا اثر
Dua Ka Asar

خلیفہ کا چراغ
Khaleefa Ka Charaagh
چوری کا کرتہ
Chori Ka Kurta

ٹھگوں کی نانی
Thago Ki Nani

سکوائش کا شہزادہ
Sakwaish Ka Shehzada

قسمت
Qismaat

دجال کون؟
Dajjal Kon

زندہ مشین
Zinda Machine

انتظار
Intezar
Your Thoughts and Comments
مزید مضامین
-
مغرور درخت
Maghroor Darakht
-
نافرمانی کی سزا
Nafarmani Ki Saza
-
بنٹی
Banty
-
گدھے کے سر پر سینگ
Gadhey Ke Sar Par Seeng
-
بادشاہ کا چور
Badshah Ka Choor
-
حَواری
Hawari Malomaat Hi Maloomaat
-
موسم گرما کی تعطیلات کا اختتام اور سکول جانے کی تیاریاں
mausam garma ki tatilat ka ekhtataam aur school jane ki tayariyan
-
محنت میں عظمت کی کہانی
Mehnat main azmat ki kahani
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2022, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.