Farman Kaskar Bilkul Theek Waqt Par Aaya Hai - Article No. 1925

Farman Kaskar Bilkul Theek Waqt Par Aaya Hai

فرمان کسکر بلکل ٹھیک وقت پر آیا ہے - تحریر نمبر 1925

آج کے نوجوانوں کو بیہودہ اور غلط کاموں کی طرف راغب کیا جاتا ہے، جس سے ہماری اسلامی اور پختو کلچر کو جتنا نقصان پہنچا ہے، وہ آپ سب کے سامنے ہے

Muhammad Hussain Azad محمد حسین آزاد بدھ 20 فروری 2019

فرمان علی کسکر پندرہ سال کا ایک غریب لڑکا ہے جس کا تعلق صوابی کے علاقے ترکئی کے ایک چھوٹے سے گاوٴں ”کمرگئی“ سے ہے۔ اس کو لوگ ایک مسخرے کے طور پر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے پشتو شاعری کا بیڑا غرق کیا۔اس کے دل میں جو آتا ہے، وہی بول دیتا ہے۔ جیسے بعض لوگ مزے کے لئے سنتے ہیں، تو بعض اس کا مذاق اڑا کر آگے پھیلاتے ہیں۔ قارئین، علامہ اقبال نے مشاعروں کے بارے میں کہا تھا کہ شاعری کا بیڑا مشاعروں نے غرق کیا۔
پوچھا گیا کیوں؟ تو بتایا گیا کہ مشاعروں میں اچھے اور برے سب شاعروں کو داد ملتی ہے۔جس سے شاعری کو نقصان پہنچتا ہے۔ نئے شاعروں کو داد ملتے ہی وہ اپنے آپ کو بڑے شاعر سمجھ کر شاعری کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ٹھیک اسی طرح آج کل ہمارے کئی نابلد شعرا نے پشتو کی شاعری کا بیڑا غرق کرنے کا ٹھیک لے رکھا ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جو یہاں پر اکثر ایسے شاعروں کے توتی بولتا ہے جو معاشرے کو نقصان پہنچانے میں دو قدم آگے ہیں، جن کی لکھی ہوئی شاعری فلموں اور ڈراموں میں بھی گائی جاتی ہے اور انہیں ہمارے لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے معاشرے میں بہت اچھے اور قابل شعرا بھی موجود ہیں جن کا موازنہ ہم پرانے وقت کے بڑے بڑے شعرا سے کرسکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے انہیں اپنی قابلیت اور مہارت کا صلہ نہیں ملتا۔ قارئین،اس حوالے سے سرزمین بھار ہمارے علاقے کے ایک بہت اچھے شاعر ہے جن کا تعلق اپر دیر کے علاقہ کدی خیل ملنگا سے ہے۔ بھار صاحب ہر موضوع پر روانے سے لکھ سکتے ہیں۔
ان کا کلام جاندار ہوتا ہے جو ہر دور کے لوگوں کے لئے یکساں مفید ہیں۔ان کی شاعری خواتین و حضرات اور ہر عمر کے لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتاتا چلو کہ بھار صاحب صرف پشتو ہی نہیں بلکہ اردو، فارسی اور انگریزی میں بھی لکھتے ہیں۔انہوں نے پشتو زبان میں پاکستان کے قومی ترانے کا ترجمہ بھی کیا ہے، جیسے کافی پسند کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج تک اس کے پاس کوئی صحافی انٹرویو لینے آیا اور نہ انہیں کسی سٹوڈیو میں بلایا گیا۔
وہ اپنی کتاب شائع کروانا چاہتے ہیں مگر غربت کی وجہ سے آج تک ایسا نہ کر سکے۔ایسے ڈھیر سارے شعرا ہیں جن بھی کافی خدادا صلاحیتیں ہوتی ہے، جو سمندر کو کوزے میں بند کرکے لوگوں کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ لوگوں میں خدداری اور جذبہ حب الوطنی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ایسے شعرا کو لوگ سنتے ہیں اور نہ ان کے کلام کو آگے پھیلاتے ہیں۔کتاب چھوانے میں بھی کوئی ان کی مدد نہیں کرتے۔
حکومت نے بھی ایسے لکھاریوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے۔ آج کل کے لوگ علامہ اقبال کی شاعری نہیں پڑھتے جو عشق خدا اور عشق رسول پر مبنی ہے۔ علامہ کو پڑھ کر لوگوں میں حب الوطنی اور خدمت انسانیت کا جذبہ اجاگر ہوجاتا ہے۔ آج کل کے لوگ عبدالرحمان بابا کی شاعری بھی نہیں پڑھتے جو دلوں کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے منور کرتی ہے۔
اسی طرح خوشحال خان خٹک بھی نہیں پڑھاجاتا جو پختونوں میں ”ننگ“ اور خدداری پیدا کرتے ہیں۔جن کو پڑھ کر پختون اپنی شناخت اور عزت و ناموس پر فخر کرنے لگتے ہیں۔ اس فہرست میں ایک نام غنی بابا کا بھی ہے جنہوں نے پختونو کی زبردست ترجمانی کی ہے۔ آج کل کے لوگ کچھ گلوکاروں کی وہ بیہودہ گانے سنتے ہیں جو آج کل کے بھونڈے شعرا اپنی شہرت اور پیسے کی لالچ کے لئے لکھتے ہیں۔
ان خرافات کو آج بچہ بچہ سنتا ہے اور ساتھ ہی ان برائے نام گلوکاروں اور گلوکاراوٴ کی نقلیں بھی نئی نسل اتارتی ہیں۔ اس لئے آج کے نوجوانوں میں اخلاقیات اور تمیز دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یوں آج کے نوجوانوں کو بیہودہ اور غلط کاموں کی طرف راغب کیا جاتا ہے، جس سے ہماری اسلامی اور پختو کلچر کو جتنا نقصان پہنچا ہے، وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے بڑے بڑے شعرا نے بھی ان لوگوں کا راستہ نہیں روکا اور وہ اب پختو کلچر اور نوجوانوں کے جذبات سے کھل کر کھیل رہے ہیں۔
رہی سہی کسر پختونوں کے نام نہاد اداکاروں نے پوری کردی ہے ۔سٹیج پر اکثر اردو یا پنجابی بولنے والی لڑکیوں کو نچایا جاتا ہے۔وہ پشتو گانوں پہ لپ سکنگ کرکے پختون روایات کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ قارئین، فرمان کسکر ٹھیک وقت پر آگیاہے۔ وہ نہ تو شاعر ہے اور نہ اپنے آپ کو شاعر کہتا ہے۔وہ قانون کا لبادہ اڑھ کر ہمارے اسلام اور پختو کلچر کو نقصان تو نہیں پہنچاتے اورنہ ہمارے نوجوانوں کو غلط راستوں پر چلنے کی ترغیب دیتاہے۔
بس لوگوں کو ہنسانے کے لئے کچھ بول دیتے ہے۔ اور آج کے لوگ ایسے ہی بے مقصد چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ فرمان کسکر بلکل ٹھیک وقت پر آگیا ہے۔البتہ یہ بتانا چاہوں گا کہ اس کا کوئی استاد نہیں ہے۔یہ بھی سمجھنے والی بات ہے اگر اسی طرح لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے تو وہ بہت جلد وہ پاگل ہو جائے گے۔ لہذا اس کے بزرگوں کو چاہیئے کہ اس کی مستقبل پر بھرپور توجہ دیں اور اسے اس بے حس معاشرہ کے رحم و کرم پر مت چھوڑیں۔

Browse More Urdu Literature Articles