ظلم کی آخری حد، کیا اب بھی باقی ہے؟
Zulm Ki Aakhri Had, Kya Ab Bhi Baqi Hai ?
احمد علی کورار جمعہ 22 مئی 2020
چند دن پہلے افغانستان کے درالحکومت کابل میں ایک ہسپتال میں دل سوز اور جاں فرسا واقعہ پیش آیا۔سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور کامیاب ڈیلیوریز کے بعد بہت سے بچے اس دنیا میں آنکھ کھول رہے تھے۔اچانک نا معلوم حملہ آوروں نے ہسپتال پر فائرنگ شروع کر دی نومولود بچے،بہت سی مائیں اور ہسپتال کی نرسیں اس حملے میں ہلاک ہوئیں۔ اس واقعے نے ہر ذی شعور کو ہلا کر رکھا دیا۔
تاسف یہ ہے کہ یہ واقعہ میڈیا کی توجہ کا مرکز و محور نہ رہا ما سوائے چند ایک اخبارات اور نیوز چینلز کے۔شاید میڈیا نے اس واقعے کو معمول کا واقعہ سمجھ کر توجہ نہ دی۔لیکن اس واقعے نے ہر ذی شعور کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ظلم اس حد تک جا سکتا ہے۔بر بریت یہ روپ بھی دھار سکتی ہے۔انسانوں کے روپ میں بھیڑیے۔
(جاری ہے)
۔ کیا انھیں بھیڑیے کہنا ٹھیک رہے گا، ا ن کے لیے ایسی صفت بھیڑیے کی بھی تو ہین ہے،کیا الفاظ استعمال کر سکتے ہیں، کیا لغت میں ان کے لیے ایسا کوئی لفظ ہے؟
یہ کون سی مخلوق ہے کس ایجنڈے پہ کام کر رہی ہے کیا سوچ کر ایسا کر رہی ہے۔یہ بات دور از دانست ہے۔بس انھیں عرف عام میں ہم دہشتگرد کہہ کر چپ سادھ لیتے ہیں۔اس دہشت و بربریت سے نومولود بچے بھی نہیں بچ سکتے۔بچ جانے والے نومولود بچے عمر بھر ماؤں کی شفقت سے محروم کر دیے گئے۔مائیں کچھ دیر پہلے جن کے چہروں پر طمانیت تھی۔ خوشی دیدنی تھی ان کے وہم گماں میں بھی نہ تھا کہ وہ اپنے نو نہالوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جانے والی ہیں اس اندوہناک واقعے نے نومولو معصوموں کو ماؤں سے جدا کر دیا۔
شاید کرونا سے خائف اس دنیا نے اس دہشت ناک واقعے کو دانست میں نہیں لایا۔لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا یہ واقعہ دہشت و وحشت کی انتہا تھی اس سے بڑھ کر کیا ظلم ہو سکتا ہے۔ نوزائیدہ بچے کی طرف بندوق کا رخ کرتے وقت ان کے ہاتھ نہیں کانپے۔
کبھی اے پی ایس میں معصوم بچے اندھا دھند فائرنگ سے ماؤں کو پکارتے ان کی نگاہوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جاتے ہیں پھر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کتنا مشکل ہے جگر گوشوں کو گود سے گور میں رکھنا۔آج بھی سولہ دسمبر کے اس روح فرسا واقعے کو یاد کرتے ہیں تو وجود ساکت ہو جاتا ہے۔لیکن ظلم یہاں تک نہیں رکا۔ ظلم کو ابھی peak پر اور وہی ہوا ظلم اپنی انتہا پر گیا دو تین چار سال نہیں، دو تین چار گھنٹوں کے نومولود بچے۔اف،ایسا لکھتے وقت ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ ماں کے شکم سے نکلتے ہی دھرتی ماں کے شکم میں چلے گئے۔بچ جانے والے نومولود بچوں کو ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ وہ خوش قسمت بچے ہیں جو اس دہشت کا نشانہ نہیں بنے۔
ماں کی ممتا کے بغیر بھلا وہ کیسے خوش رہ سکتے ہیں۔ انسانوں کے چہرے دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف وحشت سے بھرے چہرے دوسری طرف محبت سے بھرے چہرے۔واقعے کے بعد نو مولود بچوں کی نگہداشت کے لیے ایک شفیق رحم دل ماں دودھ پلانے کی غرض سے پہنچتی ہے چند شفیق اور ہمدرد انسانوں نے بچ جانے والے بچوں کو گود لیا۔ایک طرف ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے دوسری طرف انسانوں کا ایک انبوہ ہے جو شفقت اور ہمدری کا پیکر ہے۔ وحشت چاہے کسی بھی حد تک پہنچ جائے اسے ہمیشہ منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ظلم کو شکست دے کر انسا نیت ہمیشہ جیت جاتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔
© www.UrduPoint.com
تازہ ترین بلاگز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2024 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.