اگر کبھی میری یادآئے

Agar Kabhi Meri Yaad Aaye

Mian Muhammad Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 22 فروری 2023

Agar Kabhi Meri Yaad Aaye
غم کا حد سے بڑھ جانا ‘اپنوں کا بچھڑجانا‘وقت جو گزرا تو ایسی برق رفتاری کہ کب جوانی گئی کب بالوں میں چاندی جھلکنے لگی پتہ ہی نہیں چلا-امجد جاوید کہا کرتا تھا درد کو دل ودماغ سے نکال پرکاغذپر اتار دیا کرو بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے‘حاصل پورکے ریگزاروں نے اس کے اندر کے ادیب کو نکھار بخشا-ادب سے لگاؤ کب ‘کیسے اور کیوں ہوا اس کا تو کوئی جواب یا جوازتلاش نہیں کرپایا سوائے اس کے کہ نویں میں اختیاری مضمون رکھنے کا ”اختیار“ملا تو اردواعلی کا انتخاب کیا ‘شاید یہی نکتہ آغازتھا-1991میں داخلہ گورنمنٹ ایم اے او کالج میں ہوگیا اختیاری مضامین میں پھر سے” اردواعلی‘ ‘خوش نصیبی کہیے کہ امجد اسلام امجد صاحب ہمارے استاد رہے چار سال تک وہ اردولازمی کا مضمون پڑھاتے اور نوازخان صاحب کی غیرموجودگی میں پانچ ‘چھ طالب علموں پر مشتمل ”اردواعلی“کی کلاس امجد صاحب کے ذمہ تھی-امجد صاحب کی رحلت کی خبرجیسے برق بن کر گری ‘وقت کی ساری دھول آنسوؤں سے دھلتی گئی اور چند لمحات میں ذہن 32سال پیچھے چلاگیا‘ویسے تو ہماری کلاس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا مگرسردیوں دھوپ سینکنے کے لیے ایڈمن بلاک کے سامنے والا باغیچہ کلاس روم بن جاتا -امجد صاحب کی شفت اور راہنمائی زمانہ طالب عملی کے بعد بھی ہمارے ساتھ رہی ‘باع جناح کے ساتھ واقع چلڈرن لائبریری میں جادھمکتے ‘وہ اپنے شاگردوں کی تحریروں کو نہ صرف پڑھتے تھے بلکہ ان میں کمی بیشی پر اپنے تاثرات بھی لکھ چھوڑتے ‘پروفیسرانہ کی بجائے دوستانہ تعلق کے قائل انتہائی نفیس اور شفیق انسان-ایم اے اوکالج کے دونوں میں ہی ”اگر کبھی میری یاد آئے“وار ہوئی تو ہم نے فرمائش کرڈالی کہ اس نظم کے جملہ حقوق ہمیں عنایت کردیئے جائیں کیونکہ ہم سرقہ بالجبرکے قائل ہیں ناں ہماری اتنی مجال ‘جواب میں امجد صاحب نے ایسی کڑی شرط رکھی کہ بے اختیار جملہ نکل گیا ”سرجی فیرناں ای سمجھاں“اس پر وہ کھلا کھلا کے ہنسے -ان کا ماننا تھا کہ تخلیق کار میں اگر صلاحیت ہے تو ممکن ہی نہیں کہ اس پر کوئی ”وردات“نہ گزری ہو‘زندگی کے ان 32سالوں میں کئی تجربات ہوئے مگر شاعری شاید ہمارے لیے نہیں تھی ‘امجد صاحب کے علاوہ یہ بات منیرنیازی صاحب نے بھی کئی بار سمجھائی کے شاعری تمہارے بس کی بات نہیں تمہارا میدان نثر ہے -شاید اس میں ہماری بے چین روح کا بھی عمل رہا ہوگا کہ زندگی میں کبھی پوری نظم یا غزل نہیں لکھ پائے ‘چند اشعار لکھے پھر چھوڑدیا‘مہینوں بعد دوبارہ میلان ہوا مگر ربط نہ بن سکا‘سو اساتذہ کی باتوں کو مان کرخود کو نثرتک محدود کرلیا -تخلیق کی نہیں جاتی بس ہوجاتی ہے یہ اختیار سے باہر کی چیزہے ‘دوسرا غم روزگار وقت کہاں تھا جوانی خبروں کے پیچھے بھاگتے گزرگئی ‘اب دوسرے مڈ کیریئرزکی طرح مستقبل کی فکر ‘انسان جتنا بھی دلیر کیوں نہ ہو وہ ادھیڑعمری میں آکر جن مسائل کا شکار ہوتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں-عمر کا یہ حصہ شاید سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے انسان کئی بارٹوٹتا ہے‘پھرسے ان کرچیوں کو لہولہان ہاتھوں سے جوڑتا ہے مگر ایک جھٹکا اسے پھر سے توڑجاتا ہے ‘جنہیں آپ جانتے ہیں ‘جن کے ساتھ زندگی کے سنہری ایام میں گزارے ہوتے ہیں ان کو رخصت کرنا بلاشبہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے‘یہ کرب اس وقت تک جھیلنا پڑتا ہے جب تک جسم اور سانس کا رشتہ باقی ہے- جہاں امجد صاحب کے کلاس روم کے ”مشاعرے“یاد آرہے ہیں وہیں وہ چہرے بھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں جو ہمارے ساتھ کالج میں تھے ‘امجد صاحب بیرون ملک دوروں پر جاتے تو جیسے اردواعلی کی جماعت بے رنگی سی ہوجاتی ‘ہم دعوی کرسکتے ہیں کہ اس زمانے میں ان کا تازہ ترین کلام سننے والے اولین سامع اردواعلی کے طالب علم ہی ہوتے تھے-اگرکسی مصرعہ پرپروفیسرنوازخان صاحب گرہ لگاتے تو امجد صاحب اور نوازخان صاحب کے پرمعزمکالمے ہم جیسوں کے اوپر سے گزجاتے جیت اکثرخان صاحب کی ہوتی‘طالب علم کم ہونے کی وجہ سے اگرچہ ہماری ہماری کلاس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا ‘اس کا مستقل پتہ شعبہ اردو کا دفتر جبکہ درجنوں عارضی ایڈریس تھے‘شعبہ اردو کے دفتر میں ہونے والی کلاسوں سے ہمیں اساتذہ کے ان عملی مباحثوں سے مستفید ہونے کے مواقعے میسرآجاتے - امجد صاحب کلام سنانے کے معاملے میں انتہائی فراح دل تھے ‘نظموں اور غزلوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا تودوسرا پریڈ نکل جاتا اور پتہ بھی ناں چلتا ‘ایک خوبصورت مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہمیشہ رہتی ان کی75ویں سالگرہ کی یادگار تقریب ہو یا کچھ نجی محفلوں میں شرف نیازوہ کالج کے دنوں کو یاد کرتے -لاہور اہل علم ودانش کا شہر تھا مگر حکمرانوں کے بے اعتنائی سے یہ کچھ دہائیوں سے جیسے اجڑسا گیا ‘قدردان رہے نہ اہل ذوق ‘ایک وقت تھا لاہور میں ایک دن میں کئی ‘کئی مشاعرے ہواکرتے تھے مگر پھر ایسی ہوا چلی کہ سب کچھ بدل گیا فرازصاحب نے یہ نوحہ شاید مستقل میں جھانک کر ”شہرنامے“ میں شامل کیا تھا!
یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں
یہاں موتیوں کی دکان تھی
یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں
یہاں بادلوں کی اڑان تھی
جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن
یہاں جگنووٴں کے مکان تھے
 وقت کی رفتار اور انسان کی ہوس زرسب کچھ نگلتی گئی‘اہل علم ودانش کی محفلوں کی جگہ ”اعضاء کی شاعری“کی مجلسیں فروغ پانے لگیں‘لاہور کے ”تکیے“کیا اجڑے اہل علم وہنر اس شہر سے روٹھنے لگے احسان دانش ‘استاددامن‘سعادت حسن منٹو‘اے حمید‘جالب‘فیض‘احمدندیم قاسمی‘ساغر‘منیرنیازی‘منوبھائی اور آج اپنے عہد کے بڑے شاعرودانشور امجد اسلام امجد صاحب‘لاہور کے شعرا اور اہل علم ودانش کے ناموں کی فہرست مرتب کی جائے تو کئی دفتردرکار ہونگے -آج پیشہ ورقسم کے ادیب بچے ہیں جن کے بارے میں منیر نیازی کہا کرتے تھے ”کینچوئے سانپ کی وردی پہن کر نکلتے ہیں لوگوں کو اپنی علمی بدہضمی کی ڈکاریں سناکر رات کو گھرجاکر سانپ کی وردی اتار کر پھرسے کینچوئے بن کر میں بستروں پر ڈھیر ہوجاتے ہیں“- جاتے جاتے امجد صاحب کی پسندیدہ ترین نظم کے چند اشعار!
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو سوچ لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تم کو
صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو
اس جزیرے پہ بھی اترنا!
 اگرکبھی میری یاد۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :