سیلا ب سے متاثرہ مدد کے منتظربچے

Title

صائمہ نواز چوہدری جمعہ 13 جنوری 2023

Title
پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک کروڑ بچوں کو فوری طور پر ذںدگی بچانے والی مدد کی ضرورت ہے ۔ اقوام متحدۃ کے ادارے یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق لاکھوں بچے اب بھی شدید ترین خطرات کا شکار ہیں۔ ان بچوں کو ، محفوظ پناہ گاہ، غذائی قلت ، سانس اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سخت خطرہ ہے۔ پنجاب میں ڈی جی خان اور راجن پور کے علاقے میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے والے حفاظتی ٹیکوں کے 38 مستقل جبکہ 61 عارضی سینٹرز بند ہوگئے ہیں ۔

ایسی صورتحال میں والدین کے لیے یہ مشکل پیدا ہوگئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان متعدی بیماریوں سے کیسے محفوظ رکھیں۔ سیلاب آنے کے بعد سے ان علاقوں میں جلدی بیماریاں، ملیریا، ہیضہ اور ڈینگی کے کیسز سامنے آئیں ہیں ۔

(جاری ہے)

سیلاب کے بعد ان اضلاع میں اب تک ملیریا کے 450 کیسز سامنے رپورٹ ہوئے ہیں ۔اور اب بھی لاکھوں بچے شدید سردی میں کھلے آسمان تلے پانی کے جوہڑوں کے آس پاس زندگی گزار رہے ہیں۔

محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 6 ماہ سے پانچ سال کے بچوں کی تعداد 1 لاکھ 33 ہزار کے قریب ہے ۔جب کہ اٹھارہ فیصد بچے محکمہ صحت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔ ان میں سے شدید غذائیت کا شکار بچوں کی تعداد تقریبا گیارہ ہزار ہے۔ عالمی معیار کے مطابق پانچ سال کے ایسے بچے جن کا وزن ساڑھے گیارہ کلو سے کم ہو ان کو شدید غذائیت کا شکار یا (SAM child ) کہا جاتا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق اعتدال پسند شدید غذائیت (MAM child) کے متاثر بچوں کی متوقع تعداد 22 ہزار ہے لیکن ان میں سے بھی 72 فیصد بچے محکمہ صحت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ قومی غذائیت سروے دوہزار اٹھارہ کے مطابق پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے 36 فیصد بچے سٹنٹنگ گروتھ کا شکار ہیں ۔ ان حالیہ سیلاب کے بعد اس مزید اضافے کا خدشہ ہے ۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے نیوٹریشن سٹیبلائزیشن سینٹرز میں دوہزار 8ہزار 641 ایسے بچوں کو لایا گیا جو شدید غذائیت کا شکار تھے تاہم سیلاب کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہو ا اور یہ تعداد 9ہزار 3سو چار بچوں کو لایا گیا ۔

اس رپورٹ کے اعداد شمار ظاہر کررہے ہیں اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو ان کیسز میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے اہداف پورا کرنا محکمہ صحت کے لیے مشکل ہوا ہے۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ڈی جی خان میں آٹھ فیصد بچوں کو ٹیکے نہ لگ سکے ۔ مجموعی طور پر 1 لاکھ 12 ہزار 2 سو 48 بچوں ک ٹیکے لگے جو بانوے فیصد ہیں۔

مظفر گڑھ کے پندرہ فیصد بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہے۔ ضلع میں 1 لاکھ 39 ہزار 5 سو 77 بچوں کو ٹیکے لگے جو ہدف کا پچاسی فیصد ہے ۔ راجن پور کے تین فیصد بچوں کو ہدف سے کم ٹیکے لگے ۔ مجموعی طور پر 87 ہزار 15 بچوں کو ٹیکے لگے جو 97 فیصد ہے ۔ محکمہ صحت کے مطابق سیلاب کے بعد راجن پور اور ڈی جی خان میں یونسیف اور ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے 2 ایمرجینسی آپریشن سینٹر قائم کیے گئے ۔

اور ان علاقوں کی 34 متاثر یونین کونسلز میں اٹھارہ موبائل وینز بھجوائیں گئیں ۔ا ن وینز میں سانپ کاٹنے کی دوائی ، ویکسینیشن ، مدر اینڈ چائلڈ سپورٹ ڈیلیوری کٹس ، سیفٹی کٹس فراہم کیں گئیں ۔ دسمبر میں (حاملہ ) خواتین کو ٹینس کے بچاو کی ویکسینیشن کی گئی۔اب تک ان اضلاع میں 25 سو کلین ڈیلیوری کٹس اور 26سو 95 ڈیلیوری کٹس مہیا کی گئیں ہیں،۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ان اضلاع میں پینٹا ون ویکسینشن کا آغاز کیا گیا ۔

یہ ویکسینشن پانچ بیماریوں جن میں ، گردن توڑ بخار، کالی کھانسی ، نمونیا، تسنج اور خناق تشنج، ٹائیفائیڈ سے بچاو کے لیے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اسہال سے بچاو کےلیے روٹا وائرس کی ویکسین بھی لگائی جارہی ہیں ۔سات سے 12 نومبر کے دوران 34 یونین کونسلز میں دو لکاھ 98 ہزار ہزار افراد کو 3لاکھ 4 ہزار ویکسینشن کی گئی ۔ مقامی سطح پر اضافی امونائزیشن کا آغاز 12 سے 24 دسمبر تک کیا گیا ہے اور اس کے بعد کیچ اپ مہم کی گئی اور اس کا ڈیٹا تاحال محکمہ صحت کو موصول نہیں ہوا ہے ۔

بچوں کے امراض کے ماہر اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر احسن راٹھور کا کہنا ہے کہ نو مولود بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکے نہایت ضروری ہیں۔ اگر ان بچوں۔ کو ضروری ٹیکے نہیں لگتے تو جیسے جیسے یہ بچے بڑے ہونگے ان کو مختلف بیماریاں ہونے کا خدشہ ہے ۔ ان بچوں کو ٹیکے لگنا بہت ضروری ہے ۔ ڈاکٹر احسن راٹھور کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد غذائی قلت ہوگی ۔ ان بچوں کو شدید غذائیت کا سامنا ہوگا ۔جس سے ان بچوں کے بیمار ہونے کا زیادہ خطرہ ہوگا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :