ملکی ترقی میں نوجوان نسل کا کردار

Mulki Taraqi Main Nojawan Nasal Ka Kirdar

Zain Ul Hassan زین الحسن جمعرات 10 اکتوبر 2019

Mulki Taraqi Main Nojawan Nasal Ka Kirdar
نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا ایک عظیم سرمایہ ہیں کیونکہ انہوں نے ہی آگے چل کر ملک کو چلانا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے ایک ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا نظام تشکیل دے جس کی بدولت تمام اداروں کو مستقبل میں نہ صرف چلانے بلکہ انھیں بہتر سے بہتر بنانے والے لوگ سامنے آ سکیں۔ اسی لیے کہا جا تا ہے کہ نوجوان ہی دراصل کسی قوم کے مسقبل کا تعین کرتے ہیں۔

لیکن کیا پاکستان کا تعلیمی نظام اس طرح مربوط کیا گیا ہے کہ یہ آنے والی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کر سکے تو اس کا جواب ہے نہیں۔ اور جب تک نوجوانوں کے پوٹینشل کا مفید استعمال نہیں کیا جاتا، آئندہ بہتر نتائج آنے کی بھی امید نہیں کی جا سکتی۔
 پاکستان کی تقریبا 64 فیصد آبادی کی عمر تیس سال سے کم ہے جبکہ 41 فیصد آبادی کی عمر پندرہ سے تیس سال کے درمیان ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اگر حالیہ صورتحال پر بحث کی جائے تو تقریباً 34 فیصد بیس سے چوبیس سال کی آبادی، جس عمر میں عموما انسان گریجویٹ ہو جاتا ہے، بالکل غیر تعلیم یافتہ ہے۔ اور پھر وہ لوگ جو اس قدر خستہ حال تعلیمی نظام میں رہ کر اپنے بل بوتے پر کچھ سیکھ بھی لیتے ہیں تو ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر اب بے روزگاری کی شرح 6 فیصد تک پہنچ رہی ہے۔ جس کا ایک نتیجہ فی لانسنگ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جس میں زیادہ تر منافع بیرون ملک چلا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں وہ لوگ جو کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں کام کر بھی رہے ہیں تو آپ کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں، چاہے وہ سائنس، آرٹس، معاشیات، ادب، فلسفہ، میڈیکل یا انجینئرنگ ہو، ان کی حالت ایک مزدور سے کم نہیں ہوتی جو صرف چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنے تک محدود ہیں۔
 ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے نام پر چیزوں کا رنگ، نام یا انداز بیان تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

اگر بدلتے رجحان کو دیکھنا ہو تو وہ ٹک ٹاک پر ہمارے نوجوانوں کی تعداد سے واضح ہے یا پھر یوٹیوب پر چینلز کی نوعیت کا جنھوں نے لوگوں کا ہنسانے کا ٹھیکہ لیے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کے اندر آرٹ، لٹریچر، وغیرہ کو پروموٹ کرنے کے لیے جس قدر اور جس طرح کی کوششں کی جارہی ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ 
اصل میں نوجوانوں کی تربیت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اور جن مسائل کا ہمیں آج سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی سیاسی صورتحال ہے جہاں ہر نئی حکومت ملک کے مستقبل کی بجائے اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان رہتی ہے۔ اور ہر سال قابل لوگ مایوس ہو کر باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جن کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچنی والی ہے۔ لہذا مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہماری کوششیں سیاسی ہونی چاہیے اور اپنے تئیں حالات بہتر بنانے کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہنے چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :