Episode 18 - Sehar Honay Tak By Sara Rehman

قسط نمبر 18 - سحر ہونے تک - سارہ رحمان

جہاز جیسے ہی رن وے پر رینگنا شروع ہوا۔۔۔زعیم نے سیٹ پر سر ٹکا کر طمانیت سے آنکھیں موند لی تھیں۔۔۔مریم ابھی بھی ڈری ہوئی تھی۔۔۔جیسے ہی جہاز نے اڑان بھری۔۔۔۔مریم نے خوف کی شدت سے زعیم کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔زعیم حیرت سے مریم کا یہ ڈرا ہوا روپ دیکھ رہا تھا۔۔مریم کے ناخن زعیم کے ہاتھ کی پشت پشت پر کھب گئے تھے۔۔۔۔کچھ دیر بعد مریم کی حالت بہتر ہوئی تو اس نے زعیم کا ہاتھ چھوڑا تھا۔
۔۔۔۔جہاں پر خون کی ننھی ننھی بوندیں واضح نظر آرہی تھیں۔۔شرمندگی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں۔۔مریم نے ٹشو پیپر زعیم کی طرف بڑھایا اور معذرت کرنے لگی۔۔۔میں بہت ڈر گئی تھی۔۔۔سس۔۔۔سوری۔۔میری وجہ سے آپ زخمی ہو گئی۔۔زعیم نے کچھ کہے بغیر اس کے ہاتھ سے ٹشو لیااور زخم صاف کرنے لگا۔۔۔

(جاری ہے)

۔

 مریم کو اپنا رویہ یاد آنے لگا۔۔۔۔تو مزید شرمندگی محسوس کرنے لگی۔
۔۔۔سوری۔۔۔زعیم بھائی۔۔۔۔۔۔ایک دفعہ پھر اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔۔۔۔زعیم نے اس کی بات کاٹی۔۔۔اور بولا۔۔۔سوری اس شرط پر ملے گی کہ دوبارہ مجھے بھائی مت کہنا۔۔صرف زعیم کہہ سکتی ہو۔۔زعیم عالم شاہ نام ہے میرا۔۔۔ زعیم سنجیدگی سے بولا۔۔۔مریم نے معصومیت سے اپنا سر ہلا یا۔۔۔۔تو زعیم مسکرا کر رہ گیا۔مریم اپنے ازلی موڈ میں آچکی تھی اور زعیم کی احسان مند بھی تھی۔
زعیم نے اس کی جان بچائی تھی اور اس پر آنچ تک نہ آنے دی تھی تو زعیم عالم شاہ صاحب۔۔۔۔آپ کو کیسے پتہ چلا تھا کہ وہ لڑکی مجھے کڈنیپ کرنے آئی ہے۔۔۔وہ واقعی مجھے کڈنیپ کرنے آئی تھی ناں؟لیکن کیوں؟ مریم بے یقین لہجے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔ آپ کو اور داؤد کو کڈنیپ کرنا چاہ رہے تھے وہ لوگ۔۔۔۔زعیم بولا۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔؟وہ تو زینیہ کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔
مجھے تو اس نے کچھ بتایا بھی نہیں۔اگر وہ اس کے پیچھے پڑے تھے تو مجھے کیوں اغوا کر نا چاہ رہے تھے۔۔۔ مریم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔اس لیئے کہ زینیہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے۔۔۔را اور موساد اس کے پیچھے ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ ایک ریسرچ پر کام کر رہی ہے۔۔۔جو شاید آنے والے وقتوں میں۔۔۔تہلکہ مچا دے گی۔۔۔۔۔۔زعیم بولا
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
۔۔اس نے مجھ سے کبھی ذکر نہیں کیا۔۔۔۔۔نہیں یہ جھوٹ ہے۔۔وہ خطرناک نہیں ہے۔۔معصوم ہے۔۔۔وہ اس لیئے اس کے پیچھے نہیں ہیں۔۔۔کیونکہ وہ کشمیری ہے۔۔۔اس کے بابا حریت پسند تحریک کے رہنما تھے۔۔انکو شہید کر دیا گیا۔۔اور زینیہ کی ماما کو بھی۔۔۔اس لیئے را ایجنٹ زینیہ کو بھی مارنا چاہتے ہیں۔۔۔وہ زینیہ کو کبھی نہیں ماریں گے۔ہو سکتا ہے زینیہ نے جو کہانی تمہیں سنائی ہے وہ غلط بھی تو ہو سکتی ہے۔
زعیم اس بارے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔مریم بے یقینی کی کیفیت میں گھری ہوئی تھی۔۔۔
دنیا میں بہت کچھ ہو سکتا ہے مریم۔۔۔جیسے ابھی کچھ گھنٹے پہلے۔۔۔کچھ ٹائم کے لیئے تم میری ڈارلنگ بن گئی تھی۔۔۔۔۔زعیم بات بدلنے کی غرض سے بولا تھا۔۔زعیم کی بات سن کر مریم نے زعیم کو گھورا تھا۔۔۔زعیم کو ہنستے دیکھ کر وہ مسکرا بھی نہ سکی تھی۔
۔اس کے ذہن میں زینی کی بے حد حسین اداس آنکھیں گھوم رہی تھیں۔۔معصوم سا سنہرا اور پاکیزہ چہرہ گھوم رہا تھا۔۔۔۔ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے گال پر گرا تھا۔۔زعیم سے چھپانے کی غرض سے وہ اپنا رخ موڑ گئی تھی۔۔۔زینیہ کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کیلئے وہ پاکستان جارہی تھی۔شاید دوبارہ کبھی لندن نہ واپس آنے کیلئے۔۔۔اور زینیہ وہ جانتی تھی سب اس لیئے تو ۔
۔ایک دفعہ بھی نہیں روکا تھا اس نے مریم کو۔ مریم کو اس لمحے خود سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔وہ زینیہ کو سمجھ ہی نہ سکی تھی۔۔۔زعیم اور دوسرے لوگوں کی پروا کیئے بغیر مریم شدت سے اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رودی تھی۔مریم کے اچانک رونے سے زعیم سٹپٹا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
سریش اور اس کے ساتھی پوزیشن سنبھالے۔۔۔ودیا کے منتظر تھے۔۔بہت دیر تک جب ودیا کی طرف سے کوئی رسپونس نہ آیا۔
۔تو سریش حقیقتاً پریشان ہو گیا تھا۔ودیا ٹاپ سیکرٹ ایجنٹ تھی۔وہ اس سے کسی بے وقوفی کی امید نہیں کر سکتا تھا۔مسلسل ٹہلتے ہوئے وہ پلان بی پر عمل کرنے کا سوچ ہی رہا تھاکہ لندن پولیس کی گاڑیوں کے سائرن سنائی دینے لگے۔۔۔۔ایئر پورٹ کو پولیس وین اور گاڑیوں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔۔۔
پریشانی کے عالم میں وہ اندر جانے ہی والا تھاکہ ودیا پولیس کے گھیرے میں ایگزٹ ڈور کی طرف جاتی دکھائی دی۔
اپنے ایجنٹس کو وہاں سے بھاگنے کا اشارہ کرکے چند ایجنٹس کو لیئے۔۔وہ اس پولیس وین کا تعاقب کرنے کیلئے بھاگا۔۔جس میں ودیا تھی۔۔۔کسی طرح ودیا کو ان کے چنگل سے چھڑانا تھا۔۔۔اس پلان میں را ء کسی دوست کو بھی انولو نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔سریش نے بھاگتے ہوئے۔۔میجر شرماکو ودیا کے پکڑے جانے کی اطلاع دی تھی۔۔۔۔
شرما پر یہ خبر بجلی بن کر گری تھی۔
۔۔وہ کسی حد تک پر یقین ہو گیا تھا۔۔۔کہ آئی ایس آئی کو ان کے مشن کی بھنک پڑ چکی ہے۔سریش کے اطلاع دینے پر اس کے منہ سے گالیوں کا سیلاب امڈ پڑا تھا۔۔۔سریش ورما سرخ چہرہ لیئے۔۔میجر شرما کی گالم گلوچ سننے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔
گالیوں کا طوفان تھما۔۔تو شرما غصے سے کانپتی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔۔
ابے گدھے کی اولاد اس ودیا کو آزاد نہیں کرواسکتے تو۔۔۔اسی وین میں اسے موت کے گھاٹ اتار دو۔۔۔یاد رکھو۔یا تو یہ مشن ہر صورت مکمل کرو۔۔۔یا بھیانک موت مرنے کیلئے تیار رہو۔۔۔۔۔۔شرما کا لہجہ اس قدر سرد اور بھیانک تھا سریش بے اختیار کانپ اٹھا تھا۔۔۔۔

Chapters / Baab of Sehar Honay Tak By Sara Rehman