Episode 10 - Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat

قسط نمبر 10 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

ابو نصر فارابی:
ارسطو کے فلسفہ کی شرح کرنے والے اس کی غلطیاں نکالنے والا ہندی کی چندی اور بال کی کھال نکالنے والا حکیم اور فلاسفر فارابی بھی محمود کے ابر کرم کے چھینٹوں سے سیراب ہوا۔
علامہ ابو الخیر محمد:
علم نباتات کا فخر روزگار ابو الخیر محمد کی سلطان نے اس قدر حوصلہ افزائی کی کہ اسے اپنا خاص مصاحب بنا لیا۔
دارالعلوم غزنی:
سلطان نے غزنی میں ایک عظیم الشان دارالعلوم بنوایا اور اس میں بے شمار کتابیں جمع کیں۔
دنیا بھر کے مروجہ علوم و فنون کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو سلطان کے نظر سے اوجھل رہ سکی ہو۔ نادر نسخوں کی فراہمی میں اس نے بے شمار روپیہ خرچ کیا۔ فتوحات ہند کا ایک بڑا حصہ محمود نے اس دارالعلوم پر صرف کر دیا۔ طلبہ اور مدرسین کے وظائف مقرر کئے۔

(جاری ہے)

اس دارالعلوم کے قیام و انتظام کیلئے ایک گراں قدر رقم وقف کر دی۔ غزنی کے کھنڈروں پر علم و عرفان کی بارش ہونے لگی۔

عالموں کیلئے پینشنوں کی ایک مد کھولی جس میں ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوتا تھا۔ 
علاوہ ازیں دور دراز ممالک کے شیوخ ، صوفیاء اور علماء دربار سلطان سے امداد حاصل کرتے تھے۔ اس کی اعلیٰ ترین خوبی یہ تھی کہ جہاں وہ جنگ کے میدان میں شیر غراں جری حکمراں اور فاتح قہرمان تھا وہاں اپنے دربار میں علماء شعراء کے سامنے پرلے درجے کا حلیم اور منکسر المزاج تھا۔
جہاں والئی خراسان اور مہاراج گان ہندوستان کے غرور کو ایک نگاہ غضب آلود سے درست کر لیتا تھا وہاں یہ بھی تھا کہ قابل اور فاضل انسانوں کی ناز برداری میں عاشق جانباز سے بڑھ کر حوصلے کا ثبوت دیتا تھا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ باکمال فضلاء کا کشادہ دلی سے خیر مقدم کرنے اور اہل حق کی قدردانی اور قدر شناسی میں مشرق کا کوئی تاجدار اس کا ہمسر نہیں گزرا۔
محمود خود بھی شاعر تھا اور محمود ہی تخلص کرتا تھا۔
محمود کی عمارات:
محمود کا نام اس وجہ سے بھی زندہ جاوید رہے گا کہ اس نے بے شمار عالیشان عمارتیں تعمیر کرائیں۔ سلطان متھرا کی عمارتیں دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔ اس نے عہد کر لیا تھا کہ غزنی میں بھی متھرا جیسی عمارات بنوائے گا۔ چنانچہ اس نے سب سے پہلے ایک عجائب گھر تعمیر کرایا اور دنیا بھر کے عجائب و غرائب اس میں جمع کر دیئے۔
دور دراز کے سیاح ان نودار روزگار کی زیارت کیلئے آتے تھے اور محمود کی صنعت پسندی کی داد دیتے تھے۔ سلطان نے اپنے لئے ایک قصر بنوایا۔ اس محل کا حوض اور فوارہ بے نظیر تھا۔ سلطان عمدہ نمونے سے متاثر ہو کر امراء و روؤسا نے بھی بڑے بڑے خوبصورت عالیشان محلات بنوائے۔ افغانستان جیسے ملک میں دستکاری اور فن تعمیر کا رواج سلطان ہی کی ہنر پروری کے باعث ہوا اور غزنی جو ڈاکوؤں کا مرکز اور باغیوں کی چھاؤنی سمجھا جاتا تھا اپنے باغات ، محلات ، مدارس اور عمارات کی وجہ سے علم و فن کا گہوارا و مسکن بن گیا اور ایشیاء کے بڑے بڑے شہر اس کے مقابلے میں ماند پڑے گئے۔
سلطان نے بے شمار روپیہ رفاہ عامہ کیلئے خرچ کیا۔
غزنی کے 140 فٹ بلند مینار زبان حال سے یہ شہادت دے رہا ہے کہ اس باب میں بھی محمود کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ ”بند سلطانی جسے سلطان نے ایک مصنوعی جھیل کی صورت میں آبپاشی کی غرض سے بنوایا تھا۔ عامتہ الناس کیلئے بالعموم اور کاشتکاروں کیلئے بالخصوص سرچشمہ حیات تھا۔ شہنشاہ بابر کے قول کے مطابق یہ بند 80 سے 100 فٹ تک بلند اور 600 فٹ طویل تھا۔
دریائے جیحوں پر سلطان نے ایک مضبوط پل بنوایا تھا۔ اس پل کی وجہ سے محمود کو بڑی مقبولیت حاصل ہو گئی۔ ”عروس فلک“ کے نام سے اس نے سنگ مر مر کی ایک شاندار مسجد تعمیر کی جس پر قابل دید نقرائی و طلائی نقش و نگار کھدوائے نیز اس میں ایک اعلیٰ درجہ کا بیش قیمت قالین بچھوایا فن کے اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ سلطان نے نیا اسلوب تعمیرات ایجاد کیا۔
جو ایرانی اور ہندوستانی صنعت کا ایک عمدہ مرکز تھا۔ یہی اسلوب آئندہ چل کر بڑا ترقی پذیر ہوا۔
سلطان نے دلکشا نامی ایک ہوش ربا اور راحت افزاء باغ لگوایا اور اس چمنستان میں ایک عالیشان محل تعمیر کروایا اس جگہ سلطان اپنے غزنی کے تمام عہدیداروں ، امیروں اور رئیسوں کو جشن منانے کی دعوت دیتا۔
جو کتابیں احوال محمود میں لکھی گئی ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان نے دو تحفے خلیفہ بغداد کو بھیجے۔
ان دونوں تحفوں میں ایک قمری کی شکل کا پرندہ تھا۔ اس میں یہ وصف تھا کہ جس وقت زہر آلود طعام اس کے سامنے کیا جاتا تو وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے اور پھڑکنے لگ جاتا تھا اور اس کی آنکھوں سے رقت کے آنسو ٹپک پڑتے تھے۔ یہ نادر پرندہ محمود کے عہدے کی صنعت کا بہترین نمونہ تھا۔ دوسرا تحفہ ایک پتھر تھا جو ہر زخم کا مرہم تھا کسی مجروح کے زخموں پر جب گھسایا جاتا تو زخم فوراً مندمل ہو جاتا تھا۔
محمود کا انتظام سلطنت:
بڑے بڑے مورخ اور محقق حیران ہیں کہ محمود جس کی عمر کا اکثر حصہ جنگوں میں گزرا اتنی وسیع سلطنت کا بندوبست کیسے کیا۔ سب سے زیادہ غور طلب اور جاذب توجہ امر یہ ہے کہ ان دنوں ہر جگہ طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کا دور دورہ تھا۔ محمود کی انتظامی قابلیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہندوستان کے جن علاقوں کو اس نے فتح کیا ان کا انتظام اس نے کئی مقامی فرمانرواؤں کے سپرد کر دیا۔
ان فرمانرواؤں سے خراج وصول کیا جاتا۔ اس کی رعایا اس وجہ سے سکھی تھی کہ فرمانروا ہمیشہ ہی سلطان سے ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں سلطان کے پاس ان کی شکایت نہ پہنچ جائے۔ ہندوؤں کو محمود نے اپنے اعتماد میں لینے کیلئے فوج میں بھرتی کیا اور خراسان کی جنگ میں ہزار ہا ہندو افغانوں کے دوش بدوش کھڑے ہو کر لڑے۔ نیز غوریوں کے مقابلے میں ہندوؤں کی فوج لڑی۔
محمود کے دربار میں ایرانیوں کا رسوخ:
دربار محمود میں ایرانیوں کو ممتاز رسوخ حاصل تھا۔ سلطان محمود کا پہلا وزیراعظم ابو العباس فضل بن احمد تھا۔ جو دس سال تک اپنے منصب پر مامور رہا۔ ابو العباس انتظام مملکت میں خاص ملکہ رکھتا تھا۔ راعی اور رعایا دونوں اس سے خوش تھے۔ محمود کی تاجپوشی سے بیشتر افغانستان کی درباری اور سرکاری زبان عربی تھی۔
دفاتر کے تمام کاغذات عربی میں لکھے جاتے تھے۔ ابو العباس چونکہ ایرانی تھا اور اسے عربی میں زیادہ ملکہ نہ تھا۔ اس لئے اس کی بدولت عربی کی جگہ فارسی نے لے لی۔ محمود نے فارسی زبان کو بڑی ترقی دی یہ کہنا کسی طرح غلط نہیں کہ فارسی کے عروج کی بنیادی اینٹ محمود کے ہاتھوں سے رکھی گئی۔
جب ابو العباس معزول ہو گیا تو قلمدان وزارت خواجہ حسن بن احمد نے سنبھالا۔
یہ شخص سلطان کا رضاعی بھائی تھا۔ ہم سبق اور عربی و فارسی ادب کا بڑا ماہر تھا۔ یہ دونوں وزیراعظم ایرانی تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی بڑے بڑے عہدوں اور منصبوں پر ایرانی فائز المرام تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں اہل فارس ہی اہل علم و دانش خیال کئے جاتے تھے۔
فردوسی اور محمود:
فردوسی محمود کے دربار سے وابستہ تھا۔ محمود ہی کے عہد میں اس نے شاہنامہ لکھ کر ایران قدیم کی تاریخ مرتب کی۔
جب شاہنامہ مکمل ہو گیا تو پیری اور ناتوانی نے اسے آ لیا۔ خوشحالی کی جگہ افلاس نے لے لی۔ اس لئے فردوسی کو خیال آیا کہ سلطان سے اس محنت کا صلہ وصول کرکے خوشحالی کی زندگی بسر کرے۔ جب فردوسی سلطان کے پاس پہنچا تو سلطان نے اس کی بڑی قدر کی۔ ایک عالی شان مکان فردوسی کو رہنے کیلئے دیا اور ہر ہزار شعر سنانے کے بدلے ہزار طلائی دینار دینے کا ارشاد فرمایا۔
جب فردوسی ہزار اشعار کہہ چکا تو وزیراعظم حسن میمندی نے ہزار طلائی دینار اس کے پاس بھیج دیئے۔ فردوسی نے ازراہ نخوت یہ کہا کہ وہ انعام قسطوں میں لینے پر تیار نہیں۔ وزیراعظم کو فردوسی کی یہ خلاف عہد حرکت سخت شاق گزری۔ فردوسی کو جب وزیراعظم کی ناراضگی کا حال معلوم ہوا تو اس نے غصہ ٹھنڈا کرنے کی بجائے محمود اور وزیراعظم دونوں کے متعلق چند سخت اشعار کہے نمونے کے دور اشعار درج ذیل ہیں۔
من بندہ کز مبادی فطری بنودہ ام
مائل بہ مال ہرگز طالع بجاہ نیز
سوئے در وزیر چرا ملتفت شوم !
چوں فار غم ز بارگاہ بادشاہ نیز
یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ فردوسی کو سلطان یک مشت انعام دینا چاہتا تھا۔ لیکن وزیراعظم نے جو فردوسی سے ناراض تھا سلطان کو مشورہ دیاکہ فردوسی جیسا مفلس اتنی بڑی رقم کو دیکھ کر فرط خوشی سے ہلاک ہو جائے گا۔
اس لئے اسے پہلے ساٹھ ہزار نقرئی درہم ایاز کے ہاتھ بھجوائے جائیں۔ لیکن فردوسی نے رقم لینے سے انکار کر دیا اور ڈر کے مارے طوس بھاگ گیا اور جاتی دفعہ مسجد کی دیوار پر جہاں محمود نماز پڑھا کرتا تھا۔ یہ اشعار لکھ گیا۔
خجستہ در کہ محمود زا بلے است
چگونہ دریا کہ آنرا نہ پیدا نیست
چو غوطہ ہا زدم و اندر ندیدم در !
گناہ بخت من است و گناہ در یا نیست
محمود نے یہ اشعار پڑھے تو بہت پشیمان ہوا۔
فوراً ساٹھ ہزار طلائی درہم اور ایک خلعت فاخرہ فردوسی کے پاس بھیج دی جب پیک شاہی طوس کے دوازے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ فردوسی دنیا کے درباروں سے مایوس ہو کر خدائی دربار کی طرف کوچ کر گیا ہے۔ فردوسی کی خواہش تھی کہ سلطان سے روپیہ لے کر طوس کی ندی پر بند تیار کروائے گا۔ چنانچہ محمود نے فردوسی کی خواہش کے مطابق طوس کی ندی پر بند تعمیر کروا دیا۔
سلطان محمود کی وفات:
سلطان دو سال تک مرض اسہال میں مبتلا رہا۔ مگر بیماری اسے کسی کام سے نہ روک سکی۔ ہر چند طبیب سلطان کو کام سے باز رہنے کی ہدایت کرتے تھے۔ مگر وہ اپنی عادات سے مجبور تھا۔ وہ اپنی جان کو مصیبتوں اور کٹھن کاموں میں ڈالنا مرض کا علاج خیال کرتا تھا۔ آخر جب بیماری نے نڈھال کر دیا تو جواہروں ، خزانوں اور حشمت و جاہ جلال کے تمام سامانوں کی نمائش کا حکم دیا۔
گھوڑے کی پشت پر رکاب پر پاؤں رکھے بغیر یک جست سوار ہو جانے والا اپنے زمانے کا فاتح اعظم بیماری کے ہاتھوں مجبور پالکی میں سوار ہو کر اس نمائش کو دیکھنے کیلئے آیا۔ دنیا کی بے ثباتی پر خون کے آنسو بہا کر مندرجہ ذیل رباعی کہی۔
ہزار قلعہ کشادم بیک اشارت دست
بے عصاف شکستم بیک اشارت پائے
وں مرگ تا ختن در دہیچ سود نداشت
بقا بقائے خداست ملک ملک خدائے
آخری 19 اپریل کو 63ء برس کی عمر میں بیش بہا زرو جواہرات کے مالک شہنشاہ زینبدہ تخت و تاج اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
محمود کی سیرت:
محمود کا قد درمیانہ تھا لیکن اعضاء متناسب تھے۔ اگر اس کے چہرے پر چیچک کے داغ نہ ہوتے تو محمود بے حد خوبصورت ہوتا۔ ورزش کا بے حد شائق تھا۔ اس لئے ہر کام میں بڑی چستی اور مستعدی ظاہری کرنے کا عادی ہو گیا۔
محمود غزنوی اپنے زمانے کا یکتا فرمانروا بے نظیر اولو العزم تاجدار عدیم المثال مدبر و منتظم اور پرلے درجے کا علم نواز اور ہنر پرور شہنشاہ تھا۔
مغلوب دشمن پر رحم کھانا اور مغرور کا سر نیچا کرنا اس کا خاص شیوہ تھا۔ بڑے بڑے مغروروں کی اکڑی ہوئی گردنیں اور اینٹھی ہوئی پیشانیاں اس کے سامنے جھک گئیں اور اس کے رعب کے مارے کسی کو اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ محمود کے چہرے کی طرف ایک نظر اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔
غریبوں بے نواؤں اور محتاجوں کی خبر گیری کرنا اور رعایا کی خوشحالی اور فارغ البالی کا طالب رہنا اس کا طرہ امتیاز تھا۔ شجاعت ہمت اور جرات میں اپنی مثال آپ ہی تھا۔ ان تمام خوبیوں سے بڑھ کر اس کا نمایاں وصف یہ تھا کہ محمود عظیم فاتح ہونے کے باوجود مذہب کا پابند اور خدا دوست انسان تھا۔

Chapters / Baab of Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat