Episode 9 - Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat

قسط نمبر 9 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

دولت غزنویہ(962ء تا 1186ء)
عبد الملک بن نوح نے الپتگین کو خراسان کی گورنری پر مامور کیا تھا۔ عبد الملک کے بعد اس کا بھائی منصور بن نوح سامانی 962ء میں تخت نشین ہوا۔ تو الپتگین جو منصور بن نوح کی تخت نشینی کے خلاف رائے دے چکا تھا۔ خراسان سے غزنی چلا آیا جو اس زمانے میں ایک معمولی سی بستی تھی۔ یہاں پر الپتگین اپنی ایک خود مختار ریاست قائم کرکے حکومت کرنے لگا۔
977ء میں الپتگین کا انتقال ہوا تو اس کی جگہ اس کا بیٹا اسحاق غزنی کا فرمانروا ہوا۔ مگر چند ہی روز کے تجربے سے وہ نااہل اور نالائق ثابت ہوا اور فوجی سرداروں نے اس کو معزول کرکے سبکتگین کو جو الپتگین کا سپہ سالار اور داماد بھی تھا۔ اپنا بادشاہ بنایا۔
سبکتگین کی نسبت مشہور ہے کہ وہ الپتگین کا غلام تھا۔

(جاری ہے)

مگر یہ غلامی محض اتفاقی طور پر واقع ہوئی تھی۔

یعنی بعض ڈاکوؤں نے اسے راستے میں تنہا پاکر گرفتار کر لیا۔ بخارا میں لے جا کر بطور غلام فروخت کر دیا۔ سبکتگین کا سلسلہ نسب ایران کے بادشاہ یزد گرد تک جا پہنچتا ہے۔ یعنی سبکتگین بن جوق قرا بن یحکم بن قرا ارسلان بن قرا ملت نعمان بن یزدگرد بعض مورخین نے سبکتگین کو ترک بتایا ہے۔ بعض کا بیان یہ ہے کہ وہ باپ کی طرف سے ترک اور ماں کی طرف سے ایرانی تھا۔
ایشیائی دستور کے مطابق کی بادشاہ کے امیر اور بڑے بڑے اہلکار اپنے آپ کو بادشاہ کا غلام کہنے میں اپنی بے عزتی نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے کہ الپتگین کی فوج کا سپہ سالار ہونے کی وجہ سے سبکتگین نے اپنے آپ کو الپتگین کا غلام کہا ہو۔
 سبکتگین نے تقریباً بیس سال غزنی کے تخت پر حکومت کی۔ پنجاب و سندھ کے راج جے پال نے اس کے ملک پر فوج کشی کی تو اس کو شکست فاش دے کر قید کر لیا اور خراج کے وعدے پر رہا کر دیا۔
جے پال نے بدعہدی کی اور دوبارہ تین لاکھ کے لشکر جرار سے سبکتگین کے ملک پر حملہ آور ہوا۔ مگر سبکتگین نے صرف چند ہزار سپاہیوں سے اس کا مقابلہ کیا اور اس مرتبہ بھی اسے شکست دے کر گرفتار کر لیا اور اطاعت کا وعدہ لے کر چھوڑ دیا۔ لیکن شرم کی وجہ سے جے پال واپسی پر زندہ جل مرا۔ نوح بن منصور نے اسے ناصر الدین کا خطاب دیا۔ سبکتگین نے غزنی کی سلطنت کو بہت وسیع کیا اور 997ء میں فوت ہوا۔
محمود کی تخت نشینی:
جب امیر سبکتگین کا انتقال ہوا تو محمود کی عمر تیس سال کی تھی اور وہ اس وقت نیشاپور میں تھا۔ محمود کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اس کا چھوٹا بھائی اسماعیل جو خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اپنے باپ کے پاس تھا۔ موقع غنیمت جان کر تخت پر قابض ہو گیا۔ اسماعیل نے تاج خسروی سر رکھتے ہی خزانوں کے منہ کھول دیئے۔
امراء ، وزراء کو اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنے ساتھ ملا لینے کیلئے انعام و اکرام سے مالا مال کرنا شروع کر دیا۔ جس سے اکثر خود غرض لوگ اس کے ساتھ مل گئے۔ محمود کو جب ان حالات کی اطلاع ہوئی تو اس کو سخت رنج ہوا اور فوراً ایک قاصد کے ذریعے ایک ”تعزیت نامہ“ امیر اسماعیل کے نام ارسال کیا جس میں لکھا کہ ”اے عزیز مجھے دنیا میں کوئی چیز تم سے زیادہ عزیز نہیں لیکن تم عمر میں چھوٹے ہو اور اگر زمانے کے نشیب و فراز اور سلطنت کے نظم و نسق کا تجربہ تمہیں ہوتا ہو تو میں تمہارے حق میں دستبردار ہوتا ہوں۔
چونکہ معاملہ برعکس ہے اس لئے قرین دانش یہی ہے کہ ہم سلطنت آپس میں بانٹ لیں۔ دار السلطنت میرے حوالے کر دیا جائے اور بلخ اور خراسان کی ولایات تمہارے قبضہ میں آ جائیں۔“
امیر اسماعیل پر ان معقول باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں بھائیوں میں لڑائی ٹھن گئی۔ محمود نیشا پور اور اسماعیل غزنی سے روانہ ہوا لیکن امرائے دانشمند نے اسماعیل کو بہت سمجھایا کہ وہ اس خانہ جنگی سے باز رہے۔
مگر اس پر کسی کا جادو نہ چل سکا۔ آخرکار محمود نے اسے شکست فاش دی اور اسماعیل کو زندگی کے باقی ماندہ دن بحالت اسیری قلعہ جرجان میں کاٹنے پڑے۔ 997ء میں شہزاد محمود سلطان محمود غزنوی کے لقب سے بادشاہ بن گیا۔
محمود کی فتوحات:
دنیا میں وہی انسان ترقی کر سکتا ہے جس کو قدرت نے عمدہ خوبیوں سے مالا مال کیا ہو اور جسے اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے مناسب موقع بھی حاصل ہو گیا ہو۔
محمود بچپن ہی سے بڑا ہوشیار اور بیدار مغزبچہ تھا۔ نوعمری ہی میں اس کے کمالات اور شجاعانہ کارناموں کو دیکھ کر سبکتگین کے بڑے بڑے فہمیدہ سرد و گرم چشیدہ سپہ سالار اور وزراء کہا کرتے تھے کہ محمود دنیا کا بڑا جلیل القدر اور نامور بادشاہ ہو گا۔ اپنے والد کے ہمراہ اس کو مختلف مہمات میں اپنے قدرتی جوہر کی تربیت کے بڑے بڑے مواقع حاصل ہوئے اور ان معرکوں میں اس نے یہ ثابت کر دیا کہ محمود کا خمیر ہی مایہ شجاعت و غیرت سے اٹھایا گیا ہے۔
ان جنگوں میں محمود کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے غزنی کے اردگرد کے پہاڑی علاقوں کے رہنے والے زابلستانی سپاہیوں کے دوش بدوش نبرد آزما رہ کر اچھی طرح سے بھانپ لیا کہ پہاڑی قبائل توسیع سلطنت کیلئے بڑے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان پر محمود نے جس قدر حملے کئے۔ ان قبائل کی خدا داد استقامت و شہامت سے ہی فائدہ اٹھایا۔
بھائی کی لڑائی سے فارغ ہو کر محمود بلخ کی طرف متوجہ ہوا۔
چنانچہ جلد ہی اس نے بلخ ، خراسان ، ہرات اور سیستان فتح کرکے اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا دی۔ چاروں طرف اس کی جواں مردی کی دھوم مچ گئی۔ یہاں تک کہ 1003ء میں خلیفة المسلمین القادر باللہ عباسی نے محمود کو ایک گراں مایہ خلعت سے سرفراز کرکے امین الملت کا خطاب دیا۔ محمود کے قرب و جوار کے علاقوں پر متصرف ہو جانے سے تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب یہ ہوا کہ دو دمان سامان کا جاہ و جلال ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور ہر طرف خاندان غزنویہ کا پرچم لہرانے لگا۔
ان ممالک کی تسخیر کے بعد محمود ان کے خاطر خواہ انتظام میں مصروف ہو گیا۔ انتظام سے فارغ ہو کر ہندوستان کا رخ کیا۔ محمود نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے ان حملوں میں سومنات کا حملہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1024ء میں محمود نے سومنات پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ سومنات ان دونوں ہندوستان کے بڑے بڑے مشہور تیرتھوں میں سے ایک معروف تیرتھ تھا۔
یہ مندر تخت طاؤس کی طرح جڑاؤ موتیوں اور بیش بہا قوتوں اور ہیروں سے مرصع تھا۔ چھپن ستون مرصع جواہرات کے لگے ہوئے تھے۔ دو سومن سونے کی زنجیر لٹکتی تھی۔ اس مندر کے مصارف کے واسطے دو سو گاؤں کے محاصل وقف تھے۔
سلطان نے سومنات پر قبضہ کرنے کی غرض سے خاص تیاری کرنی شروع کر دی۔ مزید برآں یہ بھی تھا کہ سومنات سے غزنی سے اس قدر دور تھا کہ محمود کا وہاں تک پہنچنا ہی سخت مشکل تھا اور پھر یہ بھی خیال اسے ضرور ہوگا کہ شکست کی صورت میں ایک افغان بھی زندہ بچ کر غزنی نہیں پہنچ سکتا۔
اسی خطرہ کے پیش نظر سلطان نے ترکستان ، بخارا ، خیوا ، کافرستان ، خراسان اور افغانستان سے بے شمار سپاہی بھرتی کرکے ایک لشکر جرار کے ساتھ ستمبر میں غزنی سے روانہ ہوا۔
 9 نومبر کو سلطان نے ملتان پہنچ کر صحرا عبور کرنے کیلئے پانی کا انتظام کیا۔ ذخیرہ خوراک کے علاوہ ہر سپاہی کو پانی کا ذخیرہ لانے کے واسطے دو اونٹ دیئے۔ ان کے علاوہ بیس ہزار اونٹوں پر پانی لادا گیا۔
تاکہ راستے میں فوج پیاس کی شدت سے محفوظ رہے۔ آخر کار 350 میل لق و دق صحراؤں کو چیرتا ہوا اجمیر پہنچ گیا۔ اجمیر کا راجہ محمود کا نام سنتے ہی بھاگ گیا۔ اس کے بعد محمود سیدھا سومنات پہنچا۔ چار پانچ روز تک گھمسان کی جنگ جاری رہی۔ فصیلوں کے پہرے داروں نے تیروں کی بوچھاڑ سے افغانوں کے بدن چھلنی کر دیئے۔ ہندوؤں کی پٹھانوں کے مقابلے میں یہ آخری کوشش تھی۔
افغانوں کو جب اپنی شکست کا خیال آیا تو ایسا بھرپور حملہ کیا کہ ہندوؤں کے چھکے چھڑا دیئے۔ ہزار ہا ہندو اس حملہ میں قتل ہو گئے۔ بہت سے کشتیوں میں بیٹھ کر بھاگ نکلے۔ محمود نے ان کے تعاقب کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بھاگنے والوں میں اکثر غرق ہو گئے۔ محمود کو یہاں سے بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا۔ اس فتح کی خوشی میں خلیفہ بغداد نے سلطان اس کے بیٹوں ، بھائیوں کو خطاب دیئے۔
حملوں کے نتائج:
محمود اپنے زمانے کے جلیل القدر فرمانروار تھا۔ جو اوصاف کسی فاتح کیلئے ضروری ہیں۔ محمود ان سب کا جامع تھا۔ بہادری اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ محمود آغوش جنگ میں پلا اور تیغوں کے سائے میں اس کے زندگی کے دن بسر کئے۔ 25 برس کے عرصے میں دوسری فتوحات کے علاوہ ہندوستان پر سترہ حملے کئے اور ہر دفعہ یہاں سے اپنے دامن مقصود کو بھر کر لوٹا۔
ان حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب کے مغربی اضلاع پر غزنیوں کا پرچم لہرانے لگا۔ مشرق میں قنوج اور جنوب میں گجرات ، کاٹھیاواڑ میں ایسے فرمانروار حکمرانی کر رہے تھے جنہیں بہت مدت تک سلطان کے تابع فرمان حاکم کہا جا سکتا ہے۔ سلطان نے ہندوستان پر مستقل سلطنت کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی اس نے پنجاب کو سلطنت غزنویہ کا ایک باج گزار صوبہ بنا دیا تھا۔
حالانکہ سبکتگین نے فقط پشاور میں چھاؤنی ڈالی تھی۔ محمود ہندوستان کا پہلا مسلمان بادشاہ ہے۔ اسلامی فتوحات کا راستہ اسی نے صاف کیا۔ فتوحات ہند کے علاوہ محمود نے سارے کے سارے افغانستان ، بخارا ، خیوا ، بلخ ، خراسان ، کافرستان ، ایران اور عراق کو زیرنگیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان کا لشکر عربوں ، عراقیوں ، ازبکستانیوں ، افغانیوں ، خلیجوں ، ترکوں ، بلخیوں ، تاتاریوں اور ہندوستانیوں پر مشتمل ہوتا تھا۔
بڑے بڑے بادشاہ سلطان کے نام سے کانپتے تھے۔ محمود اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی کا خاص خیال رکھتا۔ سپاہی اس کے اشارے پر کٹ مرنا اپنی زندگی کا سب سے بڑا فرض تصور کرتے تھے۔ عسکری انتظام کیلئے محمود اپنی مثال آپ ہی تھا۔ اتنی وسیع سلطنت کا بندوبست کرنا اور رعایا کی کماحقہ حفاظت کرنا محمود ہی کا کام تھا۔
محمود کی علم پروری:
دسویں صدی عیسوی میں مشرقی تاجداروں کی فضول خرچیوں کے باعث سخاوت اور فیاضی کا جو غلط معیار قائم کر لیا گیا تھا۔
اس بناء پر بعض مورخوں نے سلطان محمود کو ایک دور اندیش بادشاہ خیال کیا ہے۔ وہ بڑا کفایت شعار تاجدار تھا۔ ہنر پروری اور علم نوازی کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بلا خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس بات میں سلطان اپنی مثال آپ تھا۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ خزانہ شاہی کو بے دریغ صرف نہیں کرتا تھا۔ مگر ادیبوں ، شاعروں ، عالموں کو نواز نے میں وہ دریا دل واقع ہوا تھا۔
جب کبھی اسے لڑائیوں اور ملکی سیاست سے فرصت ملتی تھی۔ تو وہ اپنے پایہ تخت میں بیٹھ کر شعراء کی خیال آرائیوں فضلاء کی نکتہ سنجیوں اور علماء کی جدت طرازیوں سے بہرہ ور ہوا کرتا تھا۔ محمود خود بڑا عالم تھا۔ وہ فقہ حنفی کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے علم فقہ میں تفرید فی الفروع ایک کتاب تالیف کی۔ جو حنفی مذہب پر انہوں نے لکھی۔ سلطان کا شمار فقہائے کبار میں ہوتا ہے۔
اس کے دربار میں زمانہ بھر کے علماء کا جمگٹھا لگا رہتا تھا۔ ابو ریحان البیرونی ، بو علی سینا ، عنصری ، فرخی ، فردوسی ، ابو نصر فارابی جیسے یگانہ روزگار لوگ محمود کی محفل کی زینت تھے۔ علاوہ ازیں چار سو شاعر اس کے وظیفہ خوار تھے۔ ان شعراء کو حکم تھا کہ اپنا کلام پہلے عنصری کو دکھایا کریں۔
البیرونی:
ابو ریحان البیرونی جس کی کتاب ہئیت آج بھی اہل علم طبقہ میں کافی سے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
سلطان محمود کے خوان نعت کا پروردہ تھا۔ البیرونی ہندوستان آیا اور یہاں اعلیٰ پایہ کے ود دانوں گیانیوں اور پنڈتوں سے سنسکرت کی تحصیل کی اور ہندوستان کے علوم اور فلسفہ سے دنیا کو آشنا کرنے میں علم اور ہندوستان کی بڑی خدمت سرانجام دی۔ اسی فاضل کی ”کتاب الہند“ پرانے زمانے کی تاریخ ہندوستان پر عمدہ روشنی ڈالتی ہے۔
البیرونی سے محمود بعض اوقات علم ہئیت کے متعلق عجیب قسم کے سوالات پوچھتا ہے۔
مصنف چہار مقالہ لکھتا ہے کہ ایک دن محمود باغ کی چار دیواری میں رونق افروز تھا۔ کہ البیرونی سے پوچھا بتاؤ میں کس راستے سے باہر جاؤں گا۔ البیرونی نے پرزہ کاغذ پر کچھ لکھ کر تکیئے کے نیچے رکھ دیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ دیوار توڑدی جائے۔ دیوار توڑنے سے جو راستہ بنا بادشاہ اس سے باہر نکلا۔ البیرونی کے پرزہ کاغذ کو دیکھا گیا تو لکھا تھا۔
بادشاہ سلامت دیوار توڑ کر باہر نکلیں گے۔ محمود البیرونی کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ جس سے شاہی جبیں شکن آلودہ ہو گئی۔ حکم دیا کہ ابو ریحان کو چھت سے گرا دیا جائے۔ جب گرایا گیا تو نچلی منزل میں ایک جال تنا ہوا تھا۔ ابو ریحان جال پر آ پڑا۔ جس سے وہ بچ گیا۔ بادشاہ نے بلوا کر پوچھا کہ تم جانتے تھے کہ تمہیں چھت سے گرایا جائے گا۔ اس نے جیب سے بیاض نکال کر دکھائی تو یہی واقعہ لکھا ہوا تھا۔

Chapters / Baab of Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat