موجودہ صورتحال میں صوفیاء کرام کی تعلیمات کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے،سابق صدر رفیق تارڑ

بدھ 12 مئی 2010 19:21

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12مئی۔2010ء) سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ نے کہا ہے کہ آج پاکستان کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ موجودہ صورتحال میں صوفیاء کرام کی تعلیمات کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔وہ گزشتہ روزیہاں الرازی ہال نیوکیمپس میں عالمی رابطہ ادب اسلامی ، پاکستان شعبہ عربی اور شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے اشتراک سے ”برعظیم پاک وہند کا صوفیانہ ادب اور عہد حاضر پر اس کے اثرات“ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ سیمینار کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جس کی صدارت وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کی۔

اس موقع پر ڈاکٹر محمود الحسن عارف اور ڈاکٹر محمد شریف سیالوی نے کلیدی مقالے پڑھے جبکہ سیمینار میں پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جمیل انور چوہدری ، فیکلٹی ممبران اور طلباء و طالبات نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

رفیق تارڈنے کہا کہ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ صوفیاء کرام نے ہمیشہ اسلام کا حقیقی امیج اجاگر کیا اور ذاتی اخلاق و کردار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرکے اسلام کی ترویج و اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔

صوفیاء کرام اور مشائخ عظام نے اپنے صوفیانہ کلام و تعلیمات سے نہ صرف اپنی زندگی میں لوگوں کی رہنمائی کی بلکہ اپنے وصال کے بعد پیچھے چھوڑے ہوئے علمی و فکری ورثہ کی صورت میں ملت اسلامیہ کی رشد و ہدایت کا سامان بھی مہیا کیا ہے۔ صوفیاء کا پیغام امن و محبت، برداشت اور بھائی چارے سے عبارت ہے اور ان کی فیوض و برکات کا سلسلہ دور حاضر میں بھی جاری و ساری ہے۔

ان کا کلام آج بھی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے جس کے ہماری تہذیب و اخلاق پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہ کہا کہ ہمیں ملک کے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ معاشرے میں اصحاب خیر کی خاطر خواہ تعداد ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔ ہمارا جذبہ جہاد صوفیاء کرام کی عطا ہے جو اسلام و پاکستان مخالف عناصر کی سازشوں کے باوجود کم نہیں ہو رہا۔

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ بزرگان دین نے امن و سلامتی اور اخوت و بھائی چارے کا درس دے کر مخلوق خدا کو کفرو شرک کی گہرائیوں سے نکالنے اور توحید و رسالت کے پیغام سے آشنا کرنے کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ہمیں معاشرے سے نفرتوں کے خاتمہ کے لیے ان عظیم برگزیدہ ہستیوں کی تعلیمات پر توجہ دینا ہو گی کیونکہ ان کا پیغام فرقہ واریت و دہشت گردی سے پاک اور دلوں کو جوڑنے اوراثر کرنے والا ہے۔

اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب انتہا پسندی و شدت پسندی کا درس نہیں دیتا۔ اسلام امن و محبت کا پیغام دینے والے صوفیاء کرام کے ذریعے پھیلا اور لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، صوفیاء کے کلام سے اثر قبول کرتا ہے اور ان کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتا ہے۔ انہوں نے منتظمین کو سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالہ جات کو یونیورسٹی کی طرف سے کتابی صورت میں شائع کرانے کی پیش کش بھی کی۔

قبل ازیں صدر عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان حافظ فضل الرحیم نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر عظیم پاک و ہند کا صوفیانہ کلام و ادب پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں بڑی اہمیت رکھتا ہے جو اس وقت اپنی تاریخ کی بد ترین دہشت گردی و انتہا پسندی کے دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان و اسلام کے خلاف خوفناک سازش ہو رہی ہے اور بعض ملک دشمن عناصر کے لیے پاکستان کو وجود برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں اس سیمینار کا مقصد صوفیاء کرام کے چھوڑے ہوئے ورثہ کی حفاظت اور اہمیت کے بارے ملک و قوم کو متوجہ کرنا اور ان کے ادب و تعلیمات سے لوگوں کو فیض یاب کرانا ہے۔ انہوں نے سیمینار کے انعقاد کے ضمن میں رئیس جامعہ ڈاکٹر کامران کی طرف سے بھرپور مالی معاونت کرنے پر ان کا بھرپور شکریہ ادا کیا۔

متعلقہ عنوان :