ہم صوبے ہزارہ کو خیبر پختونخوا کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں،میاں افتخارحسین،ہزارہ کو کسی طور خیبر پختونخوا سے الگ نہیں ہونے دینگے،صوبے میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے ،آج دہشت گردوں سے مذاکرات ہو رہے ہیں،میڈیا سے گفتگو

پیر 24 مارچ 2014 20:27

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24مارچ۔2014ء) سابق وزیراطلاعات اورعوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء میاں افتخارحسین نے کہا ہے کہ ہم صوبے ہزارہ کو خیبر پختونخوا کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔ ہم کسی طور اس کو خیبر پختونخوا سے الگ نہیں ہونے دیں گے باچاخان مرکز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات اور اے این پی کے رہنما میاں افتخارحسین نے ہزارہ صوبے کا الگ قرارداد اور خیبر پختونخوا کے نام کی تبدیلی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین میں صوبے کے نام کی تبدیلی اور الگ صوبے بنانے کا طریقہ کار موجود ہے ۔

یعنی کوئی بھی قراداد کے حق میں یا مخالفت میں اپنے رائے کا اظہار کر سکتے ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی نے اس کی مخالفت کی ۔ ہم صوبے ہزارہ کو خیبر پختونخوا کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم کسی طور اس کو خیبر پختونخوا سے الگ نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک میں بہت بڑے بڑے مسائل پہلے سے موجود ہیں، سب سے پہلے سرفہرست مسئلہ امن وامان کا قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے جبکہ سندھ میں خصوصی طور پر کراچی میں بگڑتی ہوئی صورتحال آخری حد کو چھو رہی ہے نہ وہاں پر کوئی امن قائم ہو سکا یہاں تک کہ وہاں پر الگ صوبہ ،ملک سے جدائی کی اور جناح پور کی باتیں ہو رہی ہیں ۔

بلوچستان میں صورتحال اس حد تک ناگفتہ بہ ہے کہ وہاں کے لوگوں نے اپنے حق کیلئے بندوق اُٹھائی ہے اور آئین ماننے سے انکار کیا۔ جھنڈے اور ترانے کے حوالے سے اُن کے اپنے تحفظات ہیں، جبکہ پورے ملک میں دہشت گردی اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور آج دہشت گردوں سے مذاکرات ہو رہے ہیں جو کسی طور آئین اور قانون کو نہیں مانتے جبکہ خیبر پختونخو ا کے لوگوں نے پاکستان کی بقاء کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ۔

حقیقت تو یہ ہے ک اس دھرتی کا نام ہم نے تبدیل کرکے انگریزوں کا دیا ہوا توک گلے سے نکالا۔ اور پاکستان کے نقشے میں اس دھرتی کا نام شامل کیا ۔ پاکستان کے دُشمنوں کو یہ گوارا نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام کی احساسی محرومی ختم ہو، اس نام سے ہزارہ کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں آیا ۔ جب انگریزوں کا دیا ہوا نام این ڈبلیو ایف پی اس صوبے کا نام تھا تو بھی ہزارہ کا اپنا یہی نام تھا اور جب اس صوبے کا نام خیبر پختونخوا پڑا تو بھی ہزارہ کا اپنا نام اب بھی برقرار ہے ۔

اس کی شناخت پر کوئی حرف نہیں آیا ۔ نہ جانے کون سے ایسے لوگ ہیں جو ہر صورت میں اس صوبے کے عوام کو لڑانا چاہتے ہیں اور نفرتوں کی دیوار کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا آئین میں گنجائش ہوتے ہوئے بھی اس کا استعمال بڑے محتاط اور سنجیدگی سے ساتھ ہونی چاہئے۔ تاکہ لوگوں میں احساسی محرومی نہ بڑھے ، سندھ اور بلوچستان کی طرح خیبر پختونخوا کے عوام بھی اُن کی طرح بولی، بولنے نہ لگے۔

جبکہ صوبے کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے چونکہ خیبرپختونخوا سے اگر خیبر کو الگ کرنے کی بات کی گئی تو وہاں پر ایک سوال اُٹھے گا کہ کیا قبائلی اس دھرتی کے باسی نہیں اس سے بہت غلط پیغام جائے گا ۔ تاہم ایسی باتوں کو نہیں چھیڑنا چاہئے جس سے نفرت اور احساسِ محرومی پیدا ہو۔ لہٰذا عوامی سطح پر ہم اس قرارداد کو مسترد کرتے ہیں اور خیبر پختونخوا کو کسی طور ٹکڑے ٹکڑے ہونے نہیں دیں گے ۔

پہلے بھی پختون کافی حصوں میں بٹ چکے ہیں لہٰذا پاکستان کی بقاء کی خاطر پختونوں کو یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اگر صوبوں کو ازسرنو تشکیل دینی ہیں تو خیبرپختونخوا کے ساتھ میانوالی ، حضرو، شادی خان اور جہلم تک کا حصہ جو تاریخی طور پر خیبر پختونخوا کا حصہ رہے ہیں ، تو ان علاقوں کو خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :