ٹوائلٹ میں چھپ کر جانیں بچائیں، عینی شاہد کی کہانی

جمعہ 13 جون 2014 23:52

ٹوائلٹ میں چھپ کر جانیں بچائیں، عینی شاہد کی کہانی

کراچی: اتوار کی رات کراچی ایئر پورٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے کے دوران چھبیس سالہ علی رضا بھی اسی کولڈ سٹوریج میں چھپ سکتے تھے جہاں سے اگلے روز کم از کم سات افراد کی جھلسی ہوئی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔لیکن علی اور ان کے سات ساتھیوں نے اپنے دفتر کے پیچھے واقع ٹوائلٹ میں چھپنے میں ہی عافیت جانی۔ڈان نیوز کے مطابق پاک ایوی ایشن کارگو کے لئے کام کرنے والے علی اپنی شفٹ ختم ہونے کے بعد گھر روانہ ہو رہے تھے کہ جب انہیں دفتر کے باہر ایک دوست مل گیا۔

دونوں دوست باتیں کر رہے تھے کہ اچانک علی کو دور سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ علی کے مطابق، پہلے پہل ہلکی فائرنگ ہوئی لیکن بعد میں انہیں محسوس ہونے لگا کہ آوازیں ان کے قریب آتی جا رہی ہیں۔'میں یہاں پر پچھے دو سال سے کام کر رہا تھا اور میرے خیال میں ائیر پورٹ وہ آخری مقام تھا جہاں ایسا حملہ ہوتا'۔

(جاری ہے)

علی کادفتر کولڈ سٹوریج کے قریب ہی واقع تھا لیکن رات کو ہی آئے موبائل فونز، کیمیکل اور گاڑیوں کے سپیئر پارٹس وغیرہ پر مشتمل ایک بڑی کھیپ کے وہاں ہونے سے دفتر کا راستہ جزوی جبکہ کولڈ سٹوریج کا مکمل بلاک ہو گیا تھا۔

'میں اور میرے ساتھی جیسے ہی ٹوائلٹ کی جانب بھاگے تو ہمیں راکٹ فائر ہونے کی آواز آئی اور دو جنگجو ہمارے دفتر کی چھت پر پوزیشن سنبھال چکے تھے'۔علی نے ٹیلی فون کے ذریعے ڈان سے مزید گفتگو میں بتایا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے گھیرے میں آنے کے بعد تمام آٹھ افراد اس گندے اور چار آدمیوں کے گنجائش والے ٹوائلٹ میں چھپ گئے۔رات گیارہ بجے سے صبح ساڑھے چار بجے تک یہ لوگ اندھیرے میں گولیوں کے گھن گرج سنتے رہے۔

'ہم نے سب سے پہلے اپنے موبائل فون بند کر دیئے۔ ہم وہاں سے نکلنے کے موقع کے منتظر تھے لیکن فائرنگ مسلسل جاری تھی۔ یہ سلسلہ اتنی شدت سے جاری تھا کہ ہم میں سے کچھ رونے لگے۔ ہم ایسے میں بالکل بے بس تھے'۔ٹوائلٹ کے بائیں جانب اصفہانی ہینگر، ایک طرف کنٹین جبکہ دائیں جانب 'پان' گیٹ موجود ہے۔سب سے کم سیکورٹی والے اس گیٹ پر ہر وقت صرف دو سیکورٹی اہلکارہی موجود ہوتےہیں اور جنگجو اسی گیٹ سے ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہوئے۔

'یہ صرف وقت کی بات تھی کیونکہ اگر میں پانچ منٹ پہلے نکل جاتا تو شاید اس گیٹ پر عسکریت پسندوں سے آمنا سامنا ہو جاتا '۔ٹوائلٹ میں پھنسے آٹھ لوگوں کو کنٹین مالک کے یرغمال بنانے کی آوازیں صاف آ رہی تھیں۔' ہمیں ان کے لڑنے اور پھر کسی کے زخمی ہونے کے بعد چیخ و پکار کی آوازیں آئیں جس کے بعد مکمل خاموشی ہو گئی'۔'پان گیٹ کے قریب سب سے زیادہ عرصے تک سیکورٹی گارڈ کے فرائض ادا کرنے والا ایک بوڑھا شخص بھی موجود تھا، جو عسکریت پسندوں سے لڑا اور ان میں سے کچھ کو بھگانے میں کامیاب رہا'۔

ٹوائلٹ کے باہر ہر گزرتے منٹ کے ساتھ بہت تیزی سے واقعات پیش آ رہے تھے، جس کی وجہ سے آٹھوں افراد الجھن کا شکار ہو گئے۔علی نے بتایا کہ انہوں نے شخص کو سنا جو دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ 'ہاں کتنے مار گرائے؟'علی کے مطابق انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ گفتگو کرنے والے سیکورٹی اہلکار یا پھر جنگجو تھے اور ایسے میں کیا مدد کے لیے پکارنا بہتر تھا یا نہیں۔

رات ساڑھے بارہ بجے رینجرز اور پولیس اہلکار ایئر پورٹ کے اندر عسکریت پسندوں سے لڑنے کے لیے پہنچ گئے تھے۔علی کا مزید کہنا تھا 'میرے دل میں کسی کو مدد کے لیے پکارنے کا خیال آیا کیونکہ ٹائلٹ کا تعفن میرے دماغ پر اثر انداز ہونے لگ گیا تھا'۔'ہم کسی نہ کسی طرح زمین پر بیٹھ گئے اور اس وقت میرے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ ہم مر جائیں گے'۔علی نے بتایا کہ اس وقت وہ اپنا چہرہ کسی نہ کسی طرح محفوظ رکھنا چاہتے تھے تاکہ مرنے کے بعد ان کے اہل خانہ انہیں شناخت کر لیں۔

'ایسے میں جب دہشت گرد اپنے پاس موجود دستی بم پھینک اور فائرنگ کر رہے تھے، میں نے اپنا منہ چھپا لیا کہ کہیں چھت گرنے کی صورت میں یہ مسخ نہ ہو جائے۔ میں چاہتا تھا کہ میرے اہل خانہ مجھے مردہ خانے میں باآسانی پہچان لیں'۔رات ایک بجے تک فوج کا سپیشل سروسز گروپ بھی منظرنامے میں شامل ہو گیا اور علی اور ان کے ساتھیوں کو مزید فائرنگ اور اللہ و اکبر کے پر جوش نعرے سنائی دینے لگے۔

علی نے بتایا کہ جب تھوڑی دیر کے لیے دوبارہ خاموشی ہوئی توان سب کو باہر کسی کے اپنی جان بخش دینے کی التجائیں سنائی دیں۔'دوسرے جانب سے کوئی ردعمل نہیں آ رہا تھا، پھر اچانک چھ گولیاں چلیں اور کسی کے زمین پر ڈھے جانے کی آواز آئی'۔علی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ شخص کون تھا لیکن انہیں ایسا لگا کہ جنگجوؤں کو ان کی موجودگی کا پتہ چل چکا ہے۔

علی نے بتایا کہ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگیں گے ۔اس وقت تک علی اور ان کے ساتھیوں کو ٹوائلٹ میں دو گھنٹے سے زائد ہو چکے تھے۔'میرے دل میں دوبارہ مدد کے لیے پکارنے کا خیال آیا۔ لیکن ائیر پورٹ پر حملے کرنے والے اور اس کا دفاع کرنے والے ایک دوسرے پر حملے کے دوران اللہ کا نام لے رہے تھے اور ایسے میں باہر سے آنے والی آوازوں کی پہچان اور اس پر بھروسہ کرنا بہت مشکل تھا'۔

لڑائی کو مزید دو گھنٹے گزرے تو انہیں ایک بڑے دھماکے کی آواز آئی۔ٹوائلٹ کی چھت سے سیمنٹ اکھڑ کر اندر موجود لوگوں پر گرا اور ایک تیکھی بو ہر جانب پھیل گئی۔علی کے مطابق انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ جیری کے ڈی ناٹا دفتر میں ایک خود کش حملہ آور نے دھماکے سے اڑا لیا تھا۔آدھے گھنٹے بعد علی کو فائر بریگیڈ کے سائرن بجنے کی آواز آئی ،جس کے بعد ٹوائلٹ کے دروازے کو زور سے بجایا گیا۔

تقریباً 3.45 پر رینجرز اور پولیس کو دوسرے بچ جانے والوں سے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ٹوائلٹ میں اپنی جان بچانے کے لیے چھپے بیٹھے ہیں۔ایسے میں علی کی اپنے ایک دوست کی بھی آوازیں آئیں جو انہیں پکار رہا تھا۔'مجھے ایسا لگا کہ وہ کوئی شدت پسند ہے۔ ٹوائلٹ میں موجود ایک ساتھی کو لگا کہ شدت پسند میرے دوست کو یرغمال بنا کر ہم سب کو تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں'۔

علی نے بتایا کہ ایسے میں رینجرز اہلکار نے کرخت آواز میں سب کو قمیضیں اتار کر اور ہاتھ اٹھا کر باہر آنے کا حکم دیا۔باہر موجود افسر یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ٹوائلٹ میں موجود لوگوں میں کوئی خود کش بمبار نہ چھپا ہو۔ ایک کے بعد ایک علی اور ان کے ساتھی ہاتھ اٹھائے اور قمیضیں منہ پر ڈالے باہر آئے۔'ہمیں رن وے کی جانب لے جایا گیا اور ایک جگہ بیٹھ جانے کا حکم دیا گیا۔

ہم دو گھنٹوں تک بیٹھے رہے۔ میں اپنے گھر والوں کو فون کرنا چاہتا تھا لیکن ہمیں کچھ دیر تک فون بند رکھنے کو کہا گیا'۔بعد میں سیکورٹی فورسز کو اطلاع ملی کہ کچھ لوگ جیری ڈی ناٹا کے دفتر کے قریب ایک چھوٹے کولر روم میں چھپے ہوئے ہیں۔علی نے بتایا کہ ان کے ایک ساتھی کو کہا گیا کہ وہ اندر موجود لوگوں کو باہر بلائیں کیونکہ اس عمارت میں شدید آگ بھڑک رہی تھی۔

علی کے مطابق، اندر چھپے لوگوں کو باہر بلانے کی کوششوں میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔بلاخر صبح پونے چھ بجے، علی اور ان کے ساتھوں کو اپنے رشتہ داروں کو کال کرنے اور جانے کی اجازت دے دی گئی۔علی نے بتایا کہ اپنی جان بچ جانے پر ان کے بہت سے ساتھی رو پڑے۔علی نے جب اپنے گھر پر فون کیا تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے والد جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے مردے خانے میں ان کی لاش وصول کرنے گئے ہیں۔'میں نے اپنے والد کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ میں خیریت سے ہوں اور گھر آ رہا ہوں'۔