پرتشدد جرائم سے وابستہ جین دریافت۔۔۔۔ فن لینڈ میں نو سو مجرموں کے ڈی این اے کے تجزیے سے پرتشدد جرائم سے وابستہ دو جین سامنے آنے کا انکشاف
بدھ 29 اکتوبر 2014 12:51
ہیلسنکی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29 اکتوبر۔2014ء)فن لینڈ میں نو سو مجرموں کے ڈی این اے کے تجزیے سے پرتشدد جرائم سے وابستہ دو جین سامنے آئے ہیں۔جن لوگوں میں یہ جین پائے جاتے ہیں ان میں بار بار پرتشدد جرائم کرنے کا رجحان عام لوگوں کے مقابلے پر 13 گنا زیادہ ہوتا ہے۔مالیکیولر سائیکیٹری نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ فن لینڈ میں ہونے والے کم از کم پانچ تا دس فیصد پرتشدد جرائم کے ذمے دار یہ جین ہیں۔
تاہم انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان جینز کی سکریننگ سے مجرموں کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔پرتشدد طرزِعمل میں ممکنہ طور پر کئی جین ملوث ہو سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ماحول بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔تحقیق کے مرکزی مصنف جاری تیہونن نے کہا: ’تاہم جن لوگوں میں یہ جین موجود ہوتے ہیں ان کی اکثریت کوئی جرم نہیں کرتی۔(جاری ہے)
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’عام آبادی میں سنگین اور پرتشدد جرائم کرنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل ہوتی ہے۔
اس لیے ایسے لوگوں سے وابستہ خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔اپنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق تقریباً نو سو مجرموں کا جائزہ لیا گیا۔ہر مجرم کا ان کے جرائم کی بنیاد پر ایک خاکہ تیار کیا گیا جس میں انھیں پرتشدد یا غیرپرتشدد قرار دیا گیا۔ ان میں سے 78 ایسے ’انتہائی پرتشدد مجرم‘پائے گئے جن کے طرزِ عمل اور جینز میں تعلق سب سے مضبوط تھا۔اس گروپ نے 1154 قتل، اقدامِ قتل یا مارپیٹ جیسے جرائم کیے تھے۔
ان سب میں MAOA جین کی ایک قسم موجود تھی، جسے اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں ’جنگجو‘ جین کہا گیا تھا کیوں کہ اس کا تعلق جارحانہ رویے سے ہے۔اس کے علاوہ ایسے لوگوں میں ایک اور جین کی ایک قسم بھی پائی گئی جسے CDH13 کہا جاتا ہے۔ اس جین کو سابقہ تحقیق میں منشیات کے استعمال اور توجہ میں کمی کی بیماری ADHD میں ملوث پایا گیا ہے۔جن لوگوں کو ’غیر پرتشدد‘ کے زمرے میں ڈالا گیا تھا ان میں ان اقسام کے جین موجود نہیں تھے۔کسی نہ کسی حد تک ہم سبھی جینیات اور ماحول کی پیداوار ہیں، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس سے ہم میں شخصی خود مختاری یا غلط اور صحیح کی تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے۔فن لینڈ میں پرتشدد جرائم کرنے والے اکثر مجرم نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔پروفیسر تیہونن نے کہا کہ کسی شخص کی جینیاتی معلومات کو عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا: ’ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو افراد کی ذہنی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اپنے فعل کے نتائج کو سمجھتا ہے یا نہیں اور کیا وہ اپنے رویے پر قابو پا سکتا ہے۔امریکی ریاست فلوریڈا کی سٹیٹسن یونیورسٹی کے کرسٹوفر فرگیوسن اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’ایک یا دو جین کسی کو مجرم نہیں بناتے۔ کسی نہ کسی حد تک ہم سبھی جینیات اور ماحول کی پیداوار ہیں، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس سے ہم میں شخصی خود مختاری یا غلط اور صحیح کی تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے۔مزید بین الاقوامی خبریں
-
سعودی عرب میں طوفانی بارشیں، مسجد کی چھت گر گئی
-
امریکہ کا بھارت سے گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کے کڑے احتساب کا مطالبہ
-
آسٹریلیا، امریکہ اور کینیڈا میں سفارتکاری کی آڑ میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایک اور نیٹ ورک بے نقاب
-
حریف کنزرویٹوامیدوارسوزن ہال خطرناک ہے، میئرصادق خان
-
غیرملکیوں کا ایپلیکیشن ٹیکسی سے منسلک ہونا غیرقانونی ہے، سعودی عرب
-
بغیر کارڈ کے حج پرپابندی،سعودی حکومت نے بڑی شرط عائد کردی
-
متحدہ عرب امارات میں شید بارش کے باعث فلائٹ آپریشن متاثر
-
راہول گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی کو ’جھوٹ کی مشین‘ قراردے دیا
-
بنگلہ دیش میں اپریل کے دوران گرمی کا 76 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
-
سعودی ولی عہد سے دیمتری کرکینٹز کی ملاقات، ایکسپو 2030 کی تیاریوں کا جائزہ
-
سعودی عرب کا دنیا کو پولیو فری بنانے کے لیے 60 کروڑ ڈالر کی امداد کا علان
-
اماراتی شاہی خاندان کی دولت بل گیٹس اور جیف بیزوز سے بھی زیادہ ،سات سو گاڑیوں کے مالک ہیں
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.