سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پرآنے والے افسران کی اپنے محکموں میں واپسی سے متعلق مقدمہ میں متاثرہ افراد سے تحریری جواب طلب

جمعرات 14 اپریل 2016 22:43

اسلام آباد ۔ 14 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔14 اپریل۔2016ء) سپریم کورٹ نے سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پرآنے کے بعد وہاں ضم ہونے والے افسران کی اپنے محکموں میں واپسی سے متعلق مقدمہ میں متاثرہ افراد سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ ڈیپوٹیشن پرآئے افسران کے ضم ہونے سے سی ڈی اے افسران کی ترقی رک جاتی ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر اپنے محکموں میں واپس بھیجے جانے والے متاثرہ افسران کی جانب سے ایڈووکیٹ عبدالرحمن صدیقی نے پیش ہوکرعدالت کوبتایاکہ عدالتی احکامات کی روشنی میں ڈیپوٹیشن پرآنے کے بعد ضم ہونے والے تمام افسران کومتعلقہ محکموں میں واپس بھیجنے کاحکم جاری کردیاگیاہے جس سے ادارے کی کارکردگی متاثرہورہی ہے،ہماری استدعاہے کہ تمام افراد کوواپس بھیجنے کی بجائے کوئی پیمانہ مقررکیاجائے اورپھر کیس ٹوکیس معاملے کودیکھاجائے جومعیارپرپورااترے اسے سی ڈی اے میں کام کرنے کاموقع دیاجائے۔

(جاری ہے)

جسٹس امیرہانی مسلم نے کہاکہ ڈیپوٹیشن پرافسران کوبلاکرسی ڈی اے کے افسران کودوسرے محکموں میں بھیجا جاتارہا، بتایاجائے کہ سی ڈی اے کاکوئی افسر کس طرح کسی دوسرے محکمے میں کام کرسکتاہے۔ ان کاکہناتھاکہ سندھ حکومت نے اتنی گڑ بڑھ نہیں کی جتنی سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کوضم کر کے کی گئی ہے، ایک شخص گریڈ سترہ میں بھرتی ہوکرسی ڈی اے میں سالہاسال ترقی کا انتظار کرتا ہے جبکہ دوسرا ڈیپوٹیشن پر آ کرمختصرمدت میں گریڈ 21 پر پہنچ جاتا ہے ڈیپوٹیشن والے ترقی کرتے رہے اور ادارے کے اپنے ملازمین کودوسری جگہو ں پرڈیوٹی کیلئے بھیجاجاتارہا ،کیاسی ڈی اے میں کام کرنے والوں کوترقی دینا ان کاحق نہیں بنتا، سی ڈی اے کے وکیل منیرپراچہ نے عدالت کوآگاہ کیاکہ عدالتی احکامات کی روشنی میں ڈیپوٹیشن کے بعد ضم ہونے والے 35 افسران کواپنے محکموں میں واپس بھیجدیاگیاہے جبکہ مختلف صوبوں میں کام کرنے والوں کوواپس آنے کیلئے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیپوٹیشن پرآنے والے افسران سے عدالت کو مسئلہ نہیں بلکہ ادارے کے اپنے ملازمین ہی ان سے متاثرہوتے ہیں جووہیں بیھٹے ہیں جبکہ باہرسے آنے والوں کو ترقی ملی، یہاں جلدازجلد ترقی کرنے کیلئے ڈیپوٹیشن کا راستہ اختیار کرنا ایک کلچر بن گیا ہے ۔ سماعت کے دوران سی ڈی اے کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی جانب سے ڈاکٹربابراعوان نے پیش ہوکرکہاکہ سی ڈی اے ہسپتالوں میں کام کرنے والے 18,18 سال سے کام کررہے ہیں، کچھ ڈیپوٹیشن پرآکریہاں ضم ہوگئے ہیں جس کے بعد ان کیلئے الگ رولزبنائے گئے، اب ان کی اپنے محکموں میں واپس بھیجنے سے صرف سی ڈی اے نہیں بلکہ دس ہزار سے لوگ متاثرہوں گے۔

جسٹس امیرہانی مسلم نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ چیزیں ایک حد تک ہی رہیں، ہم نے سندھ میں پانچ ہزارملازمیں کواپنے محکموں میں واپس بھیجوادیاہے، یہاں کے ضم ہونے والوں کوبھی واپس بھیجوائیں گے۔ سماعت کے دوران ایک متاثرہ افسرکے وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ میں بھی ایک لائبریرین کوضم کردیاگیاہے، کیس ٹوکیس جائزہ لے کرفیصلہ کیاجائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارامقصد کسی کی دل آزاری ہے نہ ملازمین کوپریشان کرناہے اورکسی مخصوص طبقہ کونشانہ بنایاجارہاہے، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں سے سی ڈی اے کے ملازمین ہی متاثر ہوئے ہیں جوترقی کاانتظارکرتے کرتے ریٹائرہوجاتے ہیں تاہم اگرکسی کوعدالتی فیصلے پراعتراض ہے کووہ عدالت میں نظرثانی کی اپیل دائرکریں۔

عدالت نے ڈیپوٹیشن پرآنے والے ڈاکٹر ز کو اصل محکموں میں واپس بھیجنے سے متعلق حکم امتناہی جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :