80 کی دہائی میں ہزار روپے کے لیز پر پلاٹ دیئے جانے کاا نکشاف

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے معاملے کی انکوائری 15 دنوں میں مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی قومی خزانے کو اربوں روپے کے نقصان پر سی ڈی اے اور وزارت کیڈ پر برس پڑی سی ڈی اے نے لیز ختم ہونے سے 5 سال پہلے ہی اراضی لیز پر دے دی ، آڈٹ حکام کی پی اے سی کو بریفنگ پی اے سی کی تین سالہ کارکردگی رپورٹ کا خلاصہ کمیٹی اجلاس میں پیش ،200 اجلاسوں میں 10 ہزار آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے گئے

جمعرات 26 مئی 2016 22:31

80 کی دہائی میں ہزار روپے کے لیز پر پلاٹ دیئے جانے کاا نکشاف

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 مئی۔2016ء ) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اربوں روپے کے قومی خزانے کو لگنے والے ٹیکے پر کمیٹی سی ڈی اے اور وزارت کیڈ پر برس پڑی ، سی ڈی اے حکام نے انکشاف کیا کہ 80 کی دہائی میں ہزار روپے کی لیز پر پلاٹ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر خورشید احمد کو دیا گیا،انہوں نے لیز پر حاصل کی گئی عمارت کو کمرشل کردیا،یہ پلاٹ 33 سالہ لیز پر دیا گیا تھا اس وقت بیسمنٹ سمیت تین فلور بنے ہوئے ہیں ،آئی پی ایس نے بلڈنگ آگے یونین کنسٹرکشن کو بیچ دی ، شیخ روحیل اصغر نے کہا پروفیسر خورشید اسی جماعت کے ہیں جو کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کرہے ہیں،آ ڈٹ حکام نے پی اے سی میں انکشاف کیا کہ سی ڈی اے نے لیز ختم ہونے سے پانچ سال پہلے ہی اراضی لیز پر دے دی کمیٹی چیئرمین خورشید شاہ نے سی ڈی اے حکا م اور سیکرٹری کیڈ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے آئی نائن سیکٹر میں 29 صنعتی اور 13 کمرشل سیکٹر زکا ایک ہفتے میں قبضہ حاصل کرے ،شاہ اﷲ دتہ سے17 سالوں میں پانی لانے کے منصوبے میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر اظہار برہمی 80کروڑ روپے خرچ کردیے ہیں ۔

(جاری ہے)

ابھی تک منصوبہ مکمل نہیں ہوا اس منصوبے سے نو سیکٹرز کوپانی ملنا ہے کوئی حکم امتناعی نہیں ہے یہ انسانی ترقی کا منصوبہ ہے قبضہ نہ لینے پر ڈی جی لینڈ کی سرزنش کر دی نا اہل لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے 15 دنوں میں رپورٹ دی جائے نہیں تو سیکرٹری کیڈ کے خلاف کارروائی کریں گے،سید خورشید شاہ نے پی اے سی کی تین سالہ کارکردگی رپورٹ کا خلاصہ کمیٹی اجلاس میں پیش کر دی۔

تین سال میں کمیٹی کے دو سو اجلاس ہوئے۔ دس ہزار آڈٹ اعتراضات نمٹا دیا گیاتین سال میں ایک سو انیس ارب روپے کی وصولی کروائی کمیٹی کی تین رپورٹس تیار ہو کر آ گئی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پی اے سی عوامی پیسے کی محافظ ہے،آئندہ بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر ے کی کوشش کریں گے،پبلک اکا ؤنٹس کمیٹی نے سی ڈی اے کے ہاؤسنگ سوسایٹیز لینڈ ڈیپارٹمنٹ اور اسٹیٹ منیجمنٹ کا1988سے 2016 تک خصوصی آڈٹ کا حکم دے دیا،نیب نے بنیوولنٹ فنڈ کی غیر سرکاری اداروں میں سرمایہ کاری سے متعلق رپورٹ پیش کر دی بینوولنٹ فنڈز کے 1 ارب 41 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی، ایس ای سی پی کیساتھ مل کر تحقیقات کر رہے ہیں یہ سرمایہ کاری 2010 میں میں ہوئی،شاہدہ اخترعلی کمیٹی کی سربراہی میں بننے والی سی ڈی اے کمیٹی کو 15 دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس کمیٹی چیئرمین سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا اجلاس میں آڈٹ حکام کی جانب سے سی ڈی اے کے مالی سال 2013-14کے آڈٹ اعتراضات پیش کیے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز نے کمیٹی کو نیوولنٹ فنڈ کی غیر سرکاری اداروں میں سرمایہ کاری سے متعلق آگاہ کیا کہ سرمایہ کاری کا فیصلہ ادارے کے بورڈ نے کیا، بعد میں معلوم ہوا کہ منافع نہیں ہو رہا، اور رقم ڈوب گئی نیب حکام نے بتایا کہ معاملہ نیب یا عدالت میں جانے کے باوجود محکمانہ انکوائری پر کوئی قدغن نہیں، اس فنڈ کی سرمایہ کاری میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، اس وقت شئیرز کی قیمت بارہ روپے تھی لیکن پینتیس روپے میں خریدے گئے، کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے زمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی اورپی اے سی نے تمام وزرتوں اور محکموں سے وکلا کی فہرست طلب کرلی سی ڈی اے 115وکلا کو فوری فارغ کرے اگر ان وکلا کو فارغ نہ کیا تو سیکریٹری کو گرفتار کرواوں گا ملک ہے یا یتیم خانہ جس کو چاہیے دے دو ہر وزارت 200سو وکیل رکھ لیتی ہے اچھی وکلا کی اچھی فرم کو مقدمات کے لیے چنا جائے معاملہ پی اے سی میں نہ آئے تو انکوائری نہیں ہوتی یہ سی ڈی اے کی زیادتی ہے، سی ڈی حکام نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے وکیل کو پچاس ہزار ہائیکورٹ کے وکیل کو چالیس ہزار اور سول کورٹ کے وکیل کو بیس ہزار فیس دی جاتی ہے سی ڈی اے میں چھیانوے وکیل کام کررہے ہیں، کمیٹی رکن شفقت محمود نے کہا کہ آدھا سی ڈی اے تو لیگل ونگ ہونا چاہے، شیخ رشید نے کہا کہ سٹے آرڈر کے ذریعے کرائم ہورہا ہے ،سب وزارتوں سے سٹے آرڈر کے کیسز منگوائے جائیں چیئر مین کمیٹی خورشید شاہ نے سی ڈی اے کی جانب سے پلاٹ مفت میں دیے جانے پر کہا کہ مجھے بھی ایک فلاحی ادارے کیلئے دے دیں اور اسی طرح کنسٹرکشن کی بھی اجازت دے دیں کمیٹی نے لیز پر دیئے گئے پلاٹ کی انکوائری پندرہ دنوں میں مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ،لیز پر حاصل کیے گئے پلاٹ کو نہ آگے بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر کمرشل بلڈنگ بنائی جا سکتی ہے چیئرمین پی اے سی نے قواعد کے خلاف پلاٹ کو بیچنے اور کمرشل استعمال کرنے کے خلاف انکوائری کیلئے کمیٹی بنا دی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ جس افسر نے غیر قانونی پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی تھی اسے معطل کر دیا گیا ہے اور اس پر درج ایف آئی آر کے تحت کاروائی کی جائے گی، کمیٹی نے کہا کہ جو افسر عادتاً بدعنوان ہے اور 2013ء سے بدعنوانی میں ملوث ہے اور پھر بھی وہ اپنے عہدے پر موجود تھا یہ یقیناً بڑے دکھ کی بات ہے، اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور کل کو یہی افسر عدالت سے حکم امتناعی لے لے گا اور پھر چھوٹ جائے گا، اس کیلئے قابل وکلاء کا ہونا ضروری ہے، سی ڈی اے کے حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے کے پاس 115 وکلاء ہیں، ڈسٹرکٹ کورٹس میں 3ہزار کیسز زیر سماعت ہیں اور ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی تعداد 1000ہے اور 200 ارب روپے کے کیسز ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ تمام وزارتوں کے زیر سماعت کیسز اور حکم امتناعی کی تفصیلات سمیت وکلاء کی فہرست کمیٹی کو فراہم کی جائے اور وکلاء کیلئے ہائی کورٹ میں پریکٹس کا دس سالہ تجربہ ہونا لازمی ہے، سی ڈی اے سیکٹرز کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے حوالے سے 1999 میں شروع کئے گئے منصوبے کے حوالے سے سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ ابھی تک اس پر کام جاری ہے، سیکرٹری کیڈ حسن اقبال نے اعتراف کیا کہ 1999ء میں یہ منصوبہ ایکنک سے منظور ہوا تھا اور 17 سال سے لٹکا ہوا ہے، جس پر چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے کہا کہ بھون شریف کی ایک مسجد میں 40 سال سے کام نہیں رک رہا اور سی ڈی اے میں بھی اسی طرح سے کام ہو رہا ہے، ڈائریکٹر لینڈ سی ڈی اے کی سرزنش کرتے ہوئے کمیٹی نے کہا کہ لینڈ ڈائریکٹر سی ڈی اے کا حصہ ہیں، یہ کوئی اندھیر نگری ہے کہ سی ڈی اے کی زمین اور مالک بھی سی ڈی اے ہے اور اس کی تفصیلات موجود نہیں،122 کنال زیر قبضہ زمین کو اب تک واگزار نہیں کرایا گیا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ 1968ء میں کری گاؤں میں زمین لی گئی تھی اور 242 کنال پر ہاؤسنگ سوسائٹی اور 200 کنال پر کیرج وے بنایا گیا، زمین کی کل مالیت2 ارب 31 کروڑ سے زائد ہے، جس پر سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ 1500کنال ٹوٹل زمین پر قبضہ کیا گیا ہے ،مقامی لوگوں کے ذریعے حکم امتناعی لے لیا جاتا ہے، اسلام آباد میں واقع صفاء گولڈ مال کے ذمے 56 کروڑ 88 لاکھ سے زائد رقم واجب الادا ہے جو مختلف ٹیکسوں سمیت اس اراضی کی قیمت بھی اس میں شامل ہے، آڈٹ حکام نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ سی ڈی اے کو اسی صفاء گولڈ مال کی وجہ سے 55کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا ہے، جہاں غیر قانونی طور پر زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔

کمیٹی نے اس معاملے کو قائم کردہ سی ڈی اے سپیشل کمیٹی کو بھیج دیا جو کہ 15 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

متعلقہ عنوان :