قومی اسمبلی میں مالی سال 2016-17ء کیلئے وفاقی بجٹ پیش،وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 4394ارب 70کروڑروپے ہے

ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3621ارب روپے مقرر کیاگیاجبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 960ارب روپے رکھا گیاہے،مالی سال 2016-17 ء کیلئے وفاقی حکومت کے مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ4915.5 ارب روپے لگایا گیا،بجٹ میں مالی سال کے کل اخراجات 4,395 ارب روپے رکھے گئے ہیں،ملازمین کی 2013-2014کےایڈہاک ریلیف کوبنیادی تنخواہ میں شامل،جبکہ ملازمین کی تنخواہ میں 10فیصد ایڈہاک ریلیف فراہم کیا جارہا ہے،یکم جولائی 2016 سےیوریا کی فی بوری قیمت 1400 روپے کی جارہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعہ 3 جون 2016 17:42

قومی اسمبلی میں مالی سال 2016-17ء کیلئے وفاقی بجٹ پیش،وفاقی بجٹ کا مجموعی ..

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔03جون۔2016ء) :قومی اسمبلی میں مالی سال 2016-17ء کیلئے وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا ہے،وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 4394ارب 70کروڑروپے ہے،ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3621ارب روپے مقرر کیاگیاجبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 960ارب روپے رکھا گیاہے۔بجٹ میں نئے ٹیکس بھی لگائے گئے ہیں۔

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ 2016-17ء پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج جب میں اس حکومت کا چوتھا بجٹ پیش کر رہا ہوں تو اس وقت وزیراعظم پاکستان اور قائد ایوان اپنی کامیاب اوپن ہارٹ سرجری کے بعد روبہ صحت ہو رہے ہیں۔ اس ایوان، پوری قوم اور دنیا بھر سے کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں کہ وہ جلد مکمل صحت یاب ہوں اور وطن عزیز واپس آ کر اپنی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب ہم جون 2013ء میں درپیش معاشی چیلنجز کو یاد کرتے ہیں اور گزشتہ تین سال میں ہم نے وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں جو سفر طے کیا اس کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی رحمتوں کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں جو اس نے ہم پر کیں، الحمدللہ معیشت کو درپیش خطرات ٹل چکے ہیں اور ملک استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کے جون 2014ء تک دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کرنے والے ناکام ہوگئے اور ہم نے ملک کو نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ معیشت کو اتنا مستحکم کیا کہ آج بین الاقوامی ادارے پاکستان کا نام عزت اور وقار سے لے رہے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے معاشی چیلنجز کے مقابلے کیلئے 2013ء کے جنرل الیکشن سے پہلے ایک واضح حکمت عملی تیار کی جس کا اعلان ہمارے منشور میں کیا گیا اور جس کی بنیاد پر ہم نے انتخابات 2013ء میں کامیابی حاصل کی۔ آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ملک کا چوتھا بجٹ پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ ہر بجٹ میں ہماری کارکردگی پچھلے سال سے بہتر رہی ہے اور تمام اقتصادی اشاریے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔

2012-13ء اور 2015-16ء کی معاشی کارکردگی کا موازنہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ معزز ایوان کے سامنے گزشتہ 9,10 ماہ کی معاشی کارکردگی کی بنیاد پر مکمل مالی سال 2015-16ء کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے جون 2013ء میں پائی جانے والی صورتحال سے موجودہ معاشی حالت کا موازنہ پیش کرتا ہوں۔معاشی ترقی گزشتہ دو سال میں ترقی کی شرح کئی سالوں کے بعد چار فیصد سے اوپر رہنے کے بعد رواں مالی سال 2015-16ء میں معاشی ترقی کا تخمینہ 4.71 فیصد ہے جو کہ پچھلے 8 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔

یہ کاکردگی مزید بہتر ہوتی اگر کپاس کی فصل میں 28 فیصد کا نقصان نہ ہوتا جس کی وجہ سے قومی پیداوار میں 0.5 فیصد کمی واقع ہوئی۔فی کس آمدنجو مالی سال 2012-13ء میں 1,334 ڈالر تھی 2015-16ء میں بڑھ کر 1,561 ڈالر ہوگئی۔ ڈالرز میں یہ 17 فیصد اضافہ جبکہ روپوں میں 24 فیصد اضافہ ہے۔ افراط زر یا مہنگائی کی شرح کا بتایا گیا کہ جو کہ 2008-13ء کے دوران 12 فیصد رہی مالی سال 2012-13ء میں 7.4 فیصد پر تھی۔

مالی سال 2015-16ء میں جولائی- مئی کے عرصے کے دوران افراط زر کی اوسط شرح 2.82 فیصد ریکارڈ کی گئی جو کہ پچھلے 10 سالوں میں مہنگائی کی کم ترین شرح ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ معاشی ترقی کی نہ صرف بحالی ہوئی ہے بلکہ اس کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ بھی نہیں ہوا۔ٹیکسوں کی وصولی میں مالی سال 2012-13ء میں 3.38 فیصد اضافہ کے ساتھ 1,936 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا گیا۔

موجودہ مالی سال 2015-16ء میں 3,104 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور اب تک ہونے والی وصولیوں کی بنیاد پر یہ نظر آ رہا ہے کہ جون کے اختتام تک انشاء اللہ یہ ہدف پورا ہو جائے گا۔ اس طرح تین سالوں میں محصولات میں 60 فیصد اضافہ ہوگا جو تاریخی ہے۔ Tax to GDP کی شرح جو 2012-13ء میں 8.5 فیصد تھی اب بڑھ کر 10.5 فیصد ہوگئی ہے۔مالیاتی خسارہ جو 2012-13ء میں 8.2 فیصد تھا اس کو 3 سال میں کم کر کے 4.3 فیصد کیا جارہا ہے۔

نجی شعبے کو کریڈٹ جو مالی سال 2012-13 میں منفی 19 ارب تھا ، مئی 2016ء تک رواں مالی سال میں 312 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔وزیرخزانہ نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا پالیسی ریٹ جو مئی 2013ء میں 9.5 فیصد تھا، مئی 2016ء تک کم ہو کر 5.75 فیصد پر آچکا ہے جو کہ پچھلے 40 سال میں کم ترین شرح ہے۔برآمدات جو کہ جولائی، اپریل 2012-13میں 20.5 ارب ڈالر تھیں، مالی سال 2015-16ء کے اسی عرصے میں 11 فیصد کمی کے ساتھ 18.2 ارب ڈالر رہیں۔

برآمدات میں ہونے والی اس کمی کی بڑی وجہ Decline in Globle Comodities Prices ہے۔درآمدات جو کہ جولائی - اپریل 2012-13ء میں 33 ارب ڈالر تھیں 2015-16ء کے اسی عرصے میں 32.7 فیصد ارب ڈالر رہیں۔ تیل کی درآمدات کی مد میں 40 فیصد بچت ہوئی لیکن ہم نے اس کو مشینری اور صنعتی خام مال کی درآمدات میں اضافے کیلئے استعمال کیا جس کی بنا پر معاشی ترقی میں مزید بہتری آئے گی۔ پچھلے تین سال میں مشینری کی درآمدات میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بیرونی ترسیلات زر جولائی- اپریل 2012-13ء میں 11.6 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو موجودہ مالی سال کے اسی عرصے میں 16 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور رواں مالی سال کا ہدف 19 ارب ڈالر ہے۔ جس کیلئے سمندر پار پاکستانیوں کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرح مبادلہ گزشتہ تین سالوں میں مستحکم رہی۔ جون 2013ء کے 99.66 روپے فی ڈالر کے مقابلے میں موجودہ شرح مبادلہ 104.70 روپے فی ڈالر ہے۔

پاکستان جیسی معیشت میں شرح مبادلہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ تمام اقتصادی اشاریوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شرح مبادلہ میں اس طرح کا استحکام پچھلے کئی برس سے دیکھنے میں نہیں آیا اور اس سے لوگوں کا ہماری معیشت پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر جو کہ جون 2013ء میں SBP کے پاس 6 ارب ڈالر تھے جو ماضی کے Swap اور فوری واجب الادا رقوم کے بعد فروری 2014ء میں 2.8 ارب ڈالر کی تشیوشناک حد تک گر چکے تھے وہ 30 مئی 2016ء کو بڑھ کر 16.8 ارب ڈالر ہوچکے ہیں جبکہ کمرشل بنکوں کے پاس موجود 4.8 ارب ڈالر ذخائر شامل کرکے الحمد لللہ 21.6 ارب ڈالر پر پہنچ گئے ہیں جو کہ ایک نیا تاریخی ریکارڈ ہے اور یوں ہم نے ملکی معیشت کو بیرونی اتار چڑھاؤ سے بڑی حد تک محفوظ کر لیا ہے۔


Current Account Deficit پچھلے تین سالوں میں کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو اوسطاً مجموعی قومی پیداوار کے 1 فیصد کے برابر رکھا گیا ہے۔ سٹاک ایکسچینج انڈیکس جو کہ 11 مئی 2013ء کو 19,916 کی سطح پر تھا اب تک 36 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی عرصے میں Market Capitalization 5.049 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 7.391 ٹریلین روپے اور 51.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ پچھلے 15 سال سے لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد سٹاک ایکسچینجز کا Pending Merger‘ 11 جنوری 2016ء کو مکمل کرلیا گیا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ عنقریب پاکستان سٹاک ایکسچینج Emerging Markets میں شامل ہو جائے گا۔

اس مختصر جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نے نہ صرف ٹھوس بنیادوں پر Macro Economic Stability حاصل کرلی ہے بلکہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ عالمی ماہرین اقتصادیات‘ اہم اقتصادی جریدوں اور بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی اس کارکردگی کو سراہا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم اس معاشی ترقی کے سفر کو مزید تیز کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں جس کا عکس اس بجٹ میں نظر آئے گا۔

بجٹ حکمت عملی کے اہم عناصربتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مالیاتی خسارے میں کمی‘ مالی سال 2016-17ء میں مالیاتی خسارے کو 4.3 فیصد سے کم کرکے 3.8 فیصد کیا جائے گا۔مالیاتی نظم و ضبط میں بہتری : ہم مالیاتی خسارے میں کمی سے حاصل ہونے والے فوائد کو مزید بڑھائیں گے۔ مالی سال 2017ء میں مالیاتی خسارے کو 4.3 فیصد سے کم کرکے 3.8 فیصد کیا جائے گا۔ Fiscal Responsibility and Debt Limitation Act 2005 میں ترمیم کے ذریعے ہم مالیاتی انتظام میں دو اہم اصلاحات کریں گے۔

اس سلسلے میں ایک تو وفاقی حکومت کے مالیاتی خسارے کی حد مقرر کی جارہی ہے۔ 2017-18ء سے وفاقی خسارہ مجموعی پیداوار کے 4 فیصد تک کم کیا جائے گا اور آئندہ برسوں میں اس کی حد 3.5 فیصد ہوگی۔ علاوہ ازیں قرضے اور مجموعی قومی پیداوار کی شرح کو کم کرکے آئندہ دو برسوں میں 60 فیصد تک لایا جائے گا اور پندرہ سال میں اسے مزید کم کرکے 50 فیصد کردیا جائے گا۔

ٹیکس محصولات میں اضافہ۔ تقریر کے دوسرے حصہ میں ٹیکس سفارشات بیان کی جائیں گی تاہم اس موقع پر یہ واضح کرتا چلوں کہ مالیاتی خسارے میں مجوزہ کمی ٹیکس محصولات میں بہتری اور اخراجات میں نظم و ضبط لانے سے ہی ممکن ہوگی۔توانائی پر مسلسل توجہ: توانائی کا شعبہ شروع ہی سے ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ جون 2013ء میں ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا تھا۔

ہم نے اس بحران سے مستقل بنیادوں پر نمٹنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی بنائی جس سے لوڈشیڈنگ میں واضح کمی ہوئی اور اب لوڈشیڈنگ ایک باضابطہ نظام کے مطابق ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے بنائے ہوئے جامع منصوبے پر عملدرآمد کی وجہ سے مارچ 2018ء تک 10,000 میگاواٹ سے زیادہ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائے گی جس سے انشاء اللہ ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔

مارچ 2018ء کے بعد داسو‘ دیامر بھاشا‘ کراچی سول نیو کلیئر انرجی اور CPEC کے تحت دیگر Coal کے منصوبے زیر تعمیر ہوں گے۔برآمدات کا فروغ (Exports Promotion) : اس بجٹ میں ہم برآمدات میں سہولت دینے‘ کاروباری لاگت کم کرنے اور Regulatory Regime کو بہتر بنانے کے لئے مختلف اقدامات کا اعلان کریں گے۔غربت اور بے روزگاری : ہماری مربوط پالیسیوں کے نتیجے میں دیہی اور شہری علاقوں میں غربت اور بیروزگاری میں کمی آئی ہے۔

حال ہی میں عالمی بنک کے اشتراک سے کئے گئے (PSLM) Measurment Pakistan Social and Living Standard سروے کے مطابق Cost of Basic Needs فارمولے کے تحت 2001-02 میں غربت کی شرح 64.2 فیصد سے کم ہو کر 2013-14ء میں 29.5 فیصد ہوگئی ہے جبکہ Food Energy Intake فارمولے کے تحت یہ اسی دورانیے میں 34.6 فیصد سے کم ہو کر 9.31 فیصد پر آچکی ہے۔ اسی طرح بیروزگاری (Unemployment) کی شرح بھی 2012-13ء میں 6.2 فیصد سے کم ہو کر 2014-15ء میں 5.9 فیصد پر آگئی ہے۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ Benazir income Support Programe(BISP) اس پروگرام کے تحت معاشرے کے کمزور طبقے کو سہارا دیا جارہا ہے جوکہ ہم سب کی ذمہ داری اور ان کا حق ہے اس پروگرام کے اہم خدوخال یہ ہیں۔جن میں مالی سال 2012-13ء کے 40 ارب کے بجٹ کو بتدریج بڑھا کر موجودہ مالی سال تک 102 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ 2016-17ء کے بجٹ میں اسے مزید بڑھا کر 115 ارب روپے کیا جارہا ہے۔

جون 2013ء میں اس پروگرام کے تحت رقم حاصل کرنے والے خاندانوں کی تعداد 37 لاکھ تھی جو بڑھ کر جون 2016ء تک 53 لاکھ ہو جائے گی۔ 2016-17ء کے مالی سال میں یہ تعداد مزید بڑھ کر 56 لاکھ کرنے کا ہدف ہے۔2013ء میں اس پروگرام کے تحت ایک خاندان کو سال بھر میں 12 ہزار روپے کا وظیفہ دیا جاتا تھا جو بڑھا کر 18,800 روپے کردیا گیا ہے۔ پاکستان بیت المال کے بجٹ کو دو گنا کرکے چار ارب روپے کردیا گیا ہے۔

آئی ٹی کے شعبے کی ترقی و ترویج: آئی ٹی کے شعبے کی ترقی و ترویج کے لئے گزشتہ بجٹ میں بہت سے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان اقدامات پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے جس کی وضاحت میں یہاں کرنا چاہوں گا۔جس کے تحت دیہی علاقوں میں ٹیلی فون اور آئی ٹی کی سہولیات کا پروگرام: ٹیلی فون اور IT کی سہولیات دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لئے حکومت نے Universal Service Fund کے ذریعے 2016-17ء میں چار نئے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں جن کے تحت بلوچستان میں خاران‘ واشوق اور ڈیرہ بگٹی‘ خیبر پختونخوا میں کوہستان اور فاٹا میں وزیرستان کے علاقوں میں 2.43 ارب روپے کی لاگت سے نئی لائنیں بچھائی جارہی ہیں جبکہ پہلے سے جاری منصوبوں پر 9.52 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔

مالی سال 2016-17ء میں دیہی علاقوں کو ٹیلی فون کی سہولت فراہم کرنے کے لئے کل 11.94 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔انٹرنیٹ کی سہولت (Broadband Program) : مالی سال 2016-17ء میں ملک کے جنوبی علاقوں میں 56 ہزار نئے صارفین کو تیز رفتار انٹرنیٹ (Broadband) کی سہولت میسر کی جائے گی۔ اس کے علاوہ 125 تعلیمی اداروں اور 55 سماجی مراکز (Community Centers) کو بھی یہ سہولت مہیا کی جائے گی جس پر 48 کروڑ 25 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔

Optic Fiber Cable منصوبے کے تحت مالی سال 2016-17ء میں بلوچستان میں جاری منصوبوں کی تکمیل کیلئے 63 کروڑ 40 لاکھ روپے اور خیبر پختونخوا‘ بلوچستان‘ سندھ اور پنجاب میں تین نئے منصوبوں کے لئے 1.9 ارب روپے خرچ ہوں گے۔اس کے علاوہ پاکستان بیت المال کے تحت خواتین مراکز میں کمپیوٹر لیبارٹری کا قیام‘ وزیراعظم کا انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی‘ سکالر شپ‘ وزیراعظم کا سکالر شپ برائے ہونہار طلبہ بلوچستان پروگرام اور وزیراعظم کا قومی ICT انٹرن شپ پروگرام پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے جن پر مالی سال 2016-17ء میں تقریباً ایک ارب روپیہ خرچ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے چین اور پاکستان کے مابین Cross-Border Optic Fiber Project کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان نئے تعاون کا آغاز ہوگا۔وزیرخزانہ نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی ہماری بجٹ کی حکمت عملی تین سالہ وسط مدتی تناظر میں بنائی گئی ہے جوکہ 2016-19ء تک کا احاطہ کرتی ہے جس کے اہم نکات یہ ہیں۔GDP Growth کو مالی سال2018-19ء تک بتدریج 7فیصد تک لے جایا جائے گا۔

افراط زر کو Single Digit تک رکھا جائے گا۔Investment to GDP Ratioکو21فیصد تک بڑھایا جائے گا۔مالی خسارہ(Fiscal Deficit) کم کرکے GDP کے 3.5فیصد تک لایاجائے گا۔Tax to GDP Ratioکو14فیصد تک بڑھایا جائے گا۔زرمبادلہ کے ذخائر کو30ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ہماری نظر میں حالیہ3 سالہ کارکردگی کے تناظر میں یہ ایک قابل عملMacroeconomic Framework ہے۔انہوں نے ترقیاتی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بجٹ خسارے پر قابو پانے کیلئے ہمیشہ ترقیاتی اخراجات میں کمی کی گئی۔

ہماری حکومت نے بڑی کامیابی سے اس روش کوختم کیا اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کئے بغیر مالی نظم وضبط قائم کیا۔ہماری حکومت کے تیسرے سال کے اختتام پر ترقیاتی اخراجات348ارب روپے سے بڑھ کر661 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے اور مالی سال2016-17ء کیلئے اس کا ہدف800 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ترقیاتی پروگرام کا مقصد تعلیم وصحت کی بلا تفریق فراہمی ، خواتین کو با اختیار بنانے اورغربت کے خاتمہ کے ذریعہ انسانی و سماجی ترقی کو مزید بہتر بنانا ہے تاکہ نوجوان آبادی کے اچھے تناسب کا فائدہ اٹھایا جاسکے اورمعیشت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو۔

ترقیاتی عمل میں سرکاری اورنجی شعبے کی شراکت داری(Public Private Partnership)کو بڑھانے کیلئے بھی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ٹرانسپورٹ، مواصلات، مالیات، صنعت اورخدمات جیسے زیادہ ترقی کی صلاحیت رکھنے والے شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ نتیجتاً ان شعبہ جات کی شرح ترقی (Growth Rate) اورGDP میں ان کی شراکت کو بڑھانے کیلئے جامع عملی منصوبہ جات مرتب کرلئے گئے ہیں۔

عوامی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ نجی سرمایہ کاری میں اضافہ کیلئے بھی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں جن میں سرکاری اورنجی شراکت داری میں اضافہ ، براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری اور مالی سہولیات کے ساتھ ساتھ خصوصی معاشی علاقوں(Special Economic Zones) کا قیام شامل ہے۔ اب میں ترقیاتی بجٹ کے ان چیدہ چیدہ حصوں کا ذکر کروں گا جن میں ان شعبہ جات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جو کہ معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

وزیرخزانہ اسحاق دار نے آبی وسائل کا بتایا کہ ترقیاتی پروگرام میں پانی کے شعبہ پر بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے جس کے تحت ہم ملک کے مختلف علاقوں میں جاری منصوبوں پر32ارب روپے کی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ دیامر بھاشا ڈیم جو پاکستان کے مستقبل کیلئے اہم ہے جس میں 4.7ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور 4500میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی۔

بجٹ میں اس منصوبہ کیلئے 32ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ پن بجلی کا ایک اور اہم منصوبہ داسو ڈیم ہے جوPhase-1 میں 2160میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، ابتدا میں اس منصوبہ کیلئے 42ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔بلوچستان میں پانی کے منصوبے اس شعبے میں حکومت کی دوسری اہم ترجیح ہے جس کے تحت Flood Dispersal Structures,Delay Action Damsنہروں اورپانی ذخیرہ کرنے والے چھوٹے ڈیموں کی تعمیرعمل میں لائی جائے گی، اس سلسلے میں بنیادی توجہ ان منصبوں پر ہوگی جنہیں آئندہ دو سال میں مکمل کیا جاسکتا ہے، ان میں کچھی کینال (ڈیرہ بگٹی اورنصیرآباد) ، نولنگ ڈیم (جھل مگسی) ، پٹ فیڈرکینال کی ڈیرہ بگٹی تک توسیع اور شادی خور ڈیم (گوادر) شامل ہیں۔

حال ہی میں گوادرمیں بسول ڈیم پرکام کا آغاز ہوچکا ہے، اس سال کئی چھوٹے ڈیموں کی تعمیرکے منصوبے پر مزید پیشرفت کی جارہی ہے۔اسی طرح سندھ میں رینی کینال (گھوٹکی اورسکھر) اورRBOD کی سیہون شریف سے سمندر تک توسیع اور دارموت ڈیم کے منصوبے بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب میں پاپین ڈیم (راولپنڈی) پر تعمیرکاآغاز ہوگا۔ داسوکے علاوہ خیرپختونخوا میں ضلع مانسہرہ میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیرکیلئے فنڈز مہیا کئے جائیں گے اورچشمہ رائٹ بینک کینال پر1st Lift Cum Gravity کا اہم منصوبہ شروع ہوگا۔

فاٹا میں کرم تنگی ڈیم (شمالی وزیرستان) اور گومل زام ڈیم(جنوبی وزیرستان) پرکام جاری رکھا جائے گا۔ ا س کے علاوہ پنجاب ، سندھ اورخیبرپختونخوا میں سیلاب سے تحفظ اورپانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے کھالوں کی پختگی اورملک بھرمیں نکاسی آب کے منصوبوں پرکام جاری رکھا جائے گا۔ وزیرخزانہ نے توانائی منصوبوں کے حوالے سے بتایا کہ میں نے پہلے بھی توانائی کے شعبے پر حکومت کی توجہ کا ذکرکیا ہے۔

ہم نے شعبے کی اصلاحات کیلئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جن میں ترسیل کے دوران بجلی کے ضیاع میں کمی ، وصولیوں میں بہتری ، چوری کے خاتمے اورگردشی قرضہ(Circular Debt) کا خاتمہ شامل ہے تاہم ہماری اصل توجہ توانائی کے نئے وسائل پیدا کرنے پر ہے تاکہ مستقل بنیادوں پربجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ماضی کی طرح اس سال بھی ہم نے توانائی کے شعبہ میں اضافی اور سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کیلئے سب سے زیادہ رقوم مختص کی ہیں، اس شعبے میں سرمایہ کاری رواں مالی سال کے 287 ارب روپے سے بڑھا کراگلے مالی سال کیلئے 380 ارب روپے کی جارہی ہے۔

اس مد میں اس سال 130 ارب روپے سرکاری ترقیاتی پروگرام (PSDP) میں سے دیئے جائیں گے جبکہ گذشتہ برس PSDP میں سے توانائی کے شعبے کو112ارب روپے دیئے گئے ۔ اس سال PSDP میں توانائی کے شعبے میں داسواور دیامر بھاشا ڈیم کے علاوہ بڑے منصوبے یہ ہیں۔969میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کیلئے 61ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

تربیلا چوتھے توسیعی پن بجلی منصوبے کیلئے 16.5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، اس کی استعداد1410میگاواٹ ہے۔بلوکی اورحویلی بہادر شاہ میں 2ایل این جی توانائی منصوبوں کیلئے 60ارب روپے رکھے جائیں گے ، ان کی مجموعی طور پربجلی پیدا کرے کی صلاحیت2400 میگاواٹ ہوگی۔اس کے علاوہ کئی اورمنصوبے جیسا کہ چین کے تعاون سے دو عددکراچی نیوکلیئر پاور پراجکیٹس (2200میگاواٹ) ، چشمہ سول نیوکلیئرمنصوبہ(600میگاواٹ)، گولن گول پن بجلی منصوبہ(106میگاواٹ) ، جھم پیراورگھارو میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے اورچشمہ نیوکلیئرپاور پلانٹ IIIاورIV جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔

پانی، کوئلے ، ہوا اورنیوکلیئرتوانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کے اضافے سے پاکستان کے عوام کو سستی بجلی مہیا ہوگی جبکہ ترسیل و تقسیم کے نظام میں بہتری سے بجلی کے ضیاع پر قابو پایا جاسکے گا۔ بجلی چوری کے خلاف اقدامات سے عام آدمی پربوجھ مزید کم ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے پورے خطے کو آپس میں ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس قدرتی نعمت کا بھرپور فائدہ اٹھانے اور اسے معاشی بہتری میں بدلنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم مواصلاتی نظام میں سرمایہ کاری کریں۔ لہذا ہم نے سڑکوں، شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر کیلئے 188 ارب روپے رکھے ہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے میں یہ 18 فیصد کا ضافہ ہے۔ شاہراہوں کے شعبے میں لاہور۔کراچی موٹر وے کی تکمیل ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ شاہراہ ملک کی تقدیر بدل دے گی۔

اس سے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا، کھیت سے مارکیٹ تک رسائی آسان ہوگی اور اقتصادی اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ 2016-17 ء میں ہم نے 230 کلومیٹر طویل لاہور۔عبدالحکیم سیکشن کے لئے 34 ارب روپے رکھے ہیں اسی طرح 387 کلومیٹر طویل ملتان۔سکھر سیکشن کیلئے 19 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 296 کلومیٹر طویل سکھر ۔حیدرآباد سیکشن کیلئے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام psdp میں 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

یہ منصوبہ نجی شعبے کی شراکت سے زیرتعمیر ہے۔کراچی۔ لاہور موٹر وے کے کئی حصوں کی تکمیل کے علاوہ ہم نے پاک چین اقتصادی راہداری کے دیگر حصوں پر کام شروع کرنے کیلئے بھی رقوم مختص کی ہیں۔ مزید برآں 118 کلومیٹر طویل تھاکوٹ۔حویلیاں رابطہ شاہراہ پر بھی کام جاری ہے اور اس سال ہم اس ضمن میں 16.5 ارب روپے رکھیں گے۔ برہان ہکلہ (Burhan-Hakla) موٹروے M-1 تا ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ کی تعمیر کیلئے بجٹ میں مجموعی طورپر 22 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

اس بجٹ میں شاہراہیں تعمیر کرنے کیلئے بہت سے منصوبوں کیلئے رقوم مختص کی گئی ہیں۔ جن میں فیصل آباد۔ خانیوال ایکسپریس وے ، لواری ٹنل اور رابطہ سڑکیں، قلعہ سیف اللہ۔ لورالائی۔ویگم روڈ اور ژوب۔مغل کوٹ روڈ شامل ہیں۔ پاکستان ریلوے کا بجٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریلوے مسافروں اور سامان کی سستی،تیز رفتار اور آرام دہ ترسیل کا ذریعہ ہے۔

لہذا اس کی ترقی ہماری اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ اسلا م اور کراچی کے درمیان حال ہی میں چلائی گئی گرین لائن ٹرین وزارت ریلوے کی شبانہ روز کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک تابندہ مستقبل کا آغاز ہے۔ پاکستان ریلوے انجنوں، بوگیوں، پٹڑیوں (Tracks)،سگنل سسٹم اور ریلوے اسٹیشنوں کی بہتری میں سرمایہ کاری کرے گا۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں مندرجہ ذیل منصوبے ہماری ترجیح ہوں گے:
# خانپور اور لودھراں کے درمیان پٹڑی کی بحالی کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔

اس سال ہم پورٹ قاسم تا بن قاسم اسٹیشن موجودہ پٹڑی کو دورویہ/مزید بہتر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم CPECمنصوبہ ہے۔ پاکستان ریلویز کو انجنوں اور بوگیوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس لئے ہم نے نئے انجنوں کی خریداری کیلئے 14 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اس کے علاوہ بوگیوں کی بہتری وبحالی کیلئے بھی اقدامات جاری رہیں گے۔ تقریباً 800 کوچز اور دو ہزار Wagons کا مرمتی کام اس سال کے آخر تک مکمل کرلیا جائے گا۔

حالیہ بجٹ میں ہم نے ریلوے کیلئے 78 ارب روپے مختص کئے ہیں جن میں 41 ارب روپے سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (PSDP)میں شامل 40 ترقیاتی سکیموں کیلئے اور 37 ارب روپے ریلوے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کیلئے رکھے گئے ہیں۔ اس شعبے میں آئندہ مالی سال میں نجی شعبے اور بیرون ممالک سے مزید سرمایہ کاری ہونے کی توقع ہے۔ اسھاق ڈار نے کہا کہ انسانی ترقی کسی بھی قوم کیلئے اس کے لوگ سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔

اس لئے انسانی ترقی پر ہونے والے اخراجات کو ہم سرمایہ کاری کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ مستقبل کی ترقی کی رفتار تیز کرنے کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اس شعبے کی ترقی کیلئے کئے جانے والے اقدامات کچھ یوں ہیں۔جیسے ہائرایجوکیشن کمیشن کے 122 منصوبوں کیلئے 21.5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس سے ملک بھر میں مختلف یونیورسٹیوں کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مدد ملے گی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جاری اخراجات کی مد میں بھی 58 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم کیلئے مجموعی طور پر 79.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ رقم پچھلے برس کی نسبت 11 فیصد زیادہ ہے۔ صحت کے شعبے میں خدمات کی فراہمی مکمل طورپر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ سال 2010 میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے تحت وفاقی حکومت نے موجودہ سال تک صحت اور بہبود کے قومی پروگراموں کیلئے رقوم فراہم کی ہیں۔

اس سال وفاقی حکومت Vertical Health Programs کی مد میں 22.4 ارب روپے رکھے گی۔ وزیراعظم کے قومی صحت انشورنس پروگرام (Prime Ministers National Health Insurance Program)پر عملدرآمد جاری رہے گا۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ ملکی امن اور سلامتی کو درپیش خطرات کا قلع قمع کرنے میں آپریشن ضرب عضب انتہائی کامیاب اور موثر ثابت ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں قومی امن عامہ کی صورتحال میں بہتری آئی ہے اور ملکی وغیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ سب ہماری بہادر افواج کے بے لوث جذبہ کے سبب ممکن ہوا جنہوں نے دہشت گردوں کی کھلی پناہ گاہوں کے خاتمے کیلئے عظیم قربانیاں دی ہیں جس کے لئے قوم ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ آپریشن کے علاقوں میں عارضی طورپر بے گھر ہونے والے لوگوں کو باقی ملک میں ٹھہرایا گیا تھا۔ ان لوگوں کی منتقلی اور بحالی کا عمل جاری ہے۔ TDPs کے انتظامات، ان کی واپسی اور بحالی کے علاوہ Security Enhancement Development program کیلئے 100 ارب روپے کی رقم مالی سال 2016-17 میں فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے
پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں بتایا کہ سی پیک ایک تاریخی منصوبہ ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز کرے گا اور ان کو دنیا کے دیگر ممالک سے جوڑنے میں مدد دے گا۔ اس منصوبے کے تحت تقریباً 46 ارب ڈالر کے منصوبوں پرسرمایہ کاری ہوگی جن میں سڑکوں کی تعمیر، ریلویز کا جال، ٹیلی کمیونیکیشن گوادر پورٹ کی ترقی ، بجلی کی اضافی پیداوار اور ترسیلی نظام کے بڑے منصوبے شامل ہیں، جن سے پاکستان میں چاروں صوبوں اور خصوصی علاقوں کی ترقی میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی آنے والے دنوں میں گوادر پاکستان کی معاشی ترقی میں انتہائی اہم کردارادا کرے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اس علاقے کی ترقی کیلئے بہت سنجیدہ ہے۔ چنانچہ ہم اپنے وسائل کا ایک خاطر خواہ حصہ بہت سے ایسے منصوبوں کیلئے مختص کررہے ہیں جو گوادر کی ترقی کیلئے اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کو 3سال میں حاصل کرنے کے بعد یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کامیابیوں کو مزید مستحکم بنائیں، اصلاحات کے عمل کو تیز کریں اور پیچھے رہ جانے والے شعبوں کی ترقی کے لئے ضروری اقدامات اٹھائیں۔

اس سلسلے میں اب میں چند اقدامات کا ذکر کرتا ہوں۔جیسے برآمدات کی قدر میں کمی جیسے عالمی مسائل اور ہماری برآمدی اشیاء کی محدود لسٹ کی بناء پر پاکستان کی برآمدی کارکردگی اپنی صلاحیت سے کہیں کم ہے۔ برآمدات کے شعبہ کو پھر سے متحرک کرنے اور Exportersکو درپیش مشکلات کے خاتمے کے لئے بجٹ 2015-16ء میں بہت سے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان میں مندرجہ ذیل اقدامات شامل ہیں۔

وسط مدتی تجارتی حکمت عملی (Strategic Trade Policy Framework)کی منظوری،ایکسپورٹ/ امپورٹ بینک(EXIM Bank) کا قیام،Drawback on Local Taxes and Leviesکے تحت Exportersکے لئے 1.4ارب روپے کا اجراء،Export Refinance Facility (ERT)اور Long Term Finance Facility (LTFF)کے مارک اپ میں کمی،مالی سال 2016-17ء میں Exportsبڑھانے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں۔تجارتی پالیسی کے تحت اسکیموں کے نفاذ کے لئے 6ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔

رواں مالی سال کے لئے جاری Drawbak of Local Taxes and Leviesسکیم اگلے مالی سال میں بھی جاری رہے گی۔Export Refinance Facilityجس کا مارک اپ جون2013ء میں 9.5فیصد تھا اس کو یکم جولائی 2016ء سے 3فیصد پر لایا جا رہا ہے۔چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی حوصلہ افزائی اور خصوصاً ان کو نئی ٹیکنالوجی کے لئے سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرنے اور غیر روایتی برآمدات Non Traditonal Exports کی ترغیب دینے کے لئے ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ قائم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی صنعتی برآمدات 5بڑے شعبوں یعنی ٹیکسٹائل، چمڑے، قالین بافی، کھیلوں کی مصنوعات اور سرجری کے آلات پر مشتمل ہیں۔ ان پانچ شعبوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یکم جولائی 2016ء سے ان شعبوں کو Zero Rated Sales Tax کے نظام کے تحت کر دیا جائے گا۔زیرو ریٹنگ کی سہولت خام مال Intermediate goodsاور توانائی مثلاً بجلی، گیس، تیل اور کوئلے کی خریداری کے لئے میسر ہو گی۔

ان شعبوں کی مقامی طور پر بیچی جانے والی Finished Goodsپر موجود 5فیصد سیلز ٹیکس لاگو رہے گا۔30اپریل 2016ء تک تمام واجب الاداSales Tax Refundsجن کے RPOsمنظور ہو چکے ہیں ان کو 31اگست 2016ء تک ادائیگی کر دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل پاکستان کی اہم ترین صنعت ہے اور اس کی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے بجٹ 2016-17ء میں مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔رواں مالی سال کے لئے جاری Drawbak of Local Taxes and Leviesسکیم اگلے مالی سال میں بھی جاری رہے گی۔

ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ: ٹیکسٹائل کے شعبے کے لئے ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن اسکیم تیارہو گی ہے اور یکم جولائی 2016ء سے اس کا نفاذ ہو گا۔ اس اسکیم سے SMEsکو خصوصی فائدہ ہو گا جو نئی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے عالمی سطح پر مقابلے کے قابل ہو سکیں گے۔مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد، SRO 809کے فوائد مالی سال 2016-17میں بھی حاصل ہوں گے جس کے تحت ٹیکسٹائل مشینری بغیر ڈیوٹی کے درآمد کی جا سکتی ہے۔

مالی سال 2016-17ء میں اس اسکیم میں گارمنٹس بنانے والی مزید مشینری بھی شامل کی جا رہی ہے۔ مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد اور LTFFاور TUFکے تحت دی جانے والی مراعات ٹیکسٹائل کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں گی جس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔Man Made Fibersپر کسٹم ڈیوٹی جو Man Made Fibersپاکستان میں تیار نہیں ہوتے، ان کی Importپر رعایتی کسٹم ڈیوٹی برقرار رہے گی۔

Plant Breaders Rights Actکاشتکاروں کو معیاری بیج کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ نیا بیج تیار کرنے والے سائنسدانوں کی مناسب عزت افزائی ہو۔ اس قانون کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جس کو پارلیمنٹ سے منظور کروا کر نافذ کیا جائے گا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ زراعت پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ 44فیصد آبادی کو براہ راست روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا جی ڈی پی میں 21فیصد حصہ ہے۔

قومی غذائی تحفظ کا انحصار بھی زراعت پر ہی ہے لہٰذا زرعی شعبے کی کارکردگی میں بہتری سے جی ڈی پی اور زرعی پیداوار میں اضافہ دیہی آبادی کی آمدنی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔اجناس کے بڑھتے ہوئے ذخائر، کم ہوتی ہوئی قیمتیں اور غیر موزوں موسمی حالات کی وجہ سے زراعت کا شعبہ عالمی طور پر بحران کا شکار رہا ہے جس کے نتیجے میں زرعی آمدن میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے زرعی پیداوار کے لئے سستی کھاد، بیج، قرضے اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ستمبر 2015ء میں 341ارب روپے کے تاریخی کسان پیکج کا اعلان کیا تھا جس کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔40ارب روپے کی کیش (Cash)مالی امداد،وفاق اور صوبوں کے اشتراک سے ڈی اے پی پر 20ارب روپے کی Subsidyجس سے ڈی اے پی کی قیمت 500روپے فی بوری تک کم ہو گئی۔

یوریا کی قیمتیں کم رکھنے کے لئے Subsidy،زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی کے رعایتی نرخ،رواں مالی سال میں زراعت کے شعبے کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے مزید خصوصی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔محصولات میں کمی کے سلسلے میں بجٹ 2015-16میں اعلان کی گئی رعایتوں کو بجٹ 2016-17 میں اعلان کی گئی رعایتوں کو بجٹ 2016-17ء میں بھی جاری رکھا جائے گا۔

یہ تقریباً 15ارب روپے کی رعایت ہے جو کہ زرعی شعبے کی ترقی میں معاون ہو گی۔کھاد کی قیمتوں میں کمی،زرعی شعبے پر ہونے والے اخراجات میں کھاد کا بڑا حصہ ہے۔ حکومت نے پچھلے چند مہینوں میں Fertilizer Industryکو گیس کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے یوریا کھاد کی قیمت کو 2050روپے فی بوری سے 1800روپے کروایا۔ حکومت سے حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں Industryنے اس قیمت میں مزید 50روپے کم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یکم جولائی 2016ء سے یوریا کی قیمت کو مزید کم کر کے 1400روپے کیا جائے۔اس سلسلہ میں ماضی کی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں سبسڈی کی رقم ،جس کا اندازہ 36 ارب روپے ہے، برابر برابر ادا کریں گی۔ڈی اے پی کھاد کا استعمال پیداوار کو بڑھانے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ ڈی اے پی کی بوری کی موجودہ قیمت 2800 روپے ہے، حکومت سے حالیہ مذاکرات کے نتیجہ میں انڈسٹری نے اس قیمت میں بھی 50 روپے کم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم جولائی 2016ء سے ڈی اے پی کی قیمت کو 2500 روپے پر لایا جائے۔ اس سلسلہ میں ماضی کی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں سبسڈی کی رقم جو 10 ارب روپے ہو گی، برابر برابر ادا کریں گی،زرعی قرضوں کی فراہمی میں اضافہ،کاشتکاروں خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو زرعی قرضوں کی سہولیات میں اضافہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ گذشتہ 3 سالوں میں زرعی قرضوں کا حجم 2012-13ء میں 336 ارب روپے سے بڑھ کر 2015-16ء میں 600 ارب روپے ہو رہا ہے۔

اگلے مالی سال 2016-17ء کیلئے اس حجم کو بڑھا کر 700 ارب روپے کیا جا رہا ہے،قرضوں کے نرخ میں کمی،حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے زرعی ترقیاتی بینک، نیشنل بینک آف پاکستان، بینک آف پنجاب اور پنجاب کوآپریٹو بینک کے مارک اپ کو 2 فیصد تک کم کرنے کیلئے حکمت عملی تشکیل دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سکیم کے تحت حکومت چھوٹے کسانوں کو دیئے جانے والے قرضہ جات کی عدم واپسی کی صورت میں متعلقہ مالی اداروں کو 50 فیصد تک کی ضمانت دے رہی ہے۔

چھوٹے کسانوں نے اس سکیم میں بے حد دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا حکومت اگلے مالی سال 2016-17ء میں اس سکیم کے تحت ایک ارب روپے مختص کر رہی ہے۔زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کے رعایتی نرخ،زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے Off-peak موجودہ 8.85 روپے فی یونٹ ریٹ کو یکم جولائی 2016ء سے کم کرکے 5.35 روپے فی یونٹ کیا جا رہا ہے۔ اس خصوصی رعایت کے نتیجہ میں حکومت تقریباً 27 ارب روپے کے اخراجات برداشت کرے گی،ڈیری، لائیو سٹاک اور پولٹری کے شعبہ جات میں کسٹم ڈیوٹی پر رعایت،ڈیری، لائیو سٹاک اور پولٹری کے شعبہ جات میں سرمایہ کاری اور ترقی کیلئے یہ سفارشات دی جا رہی ہیں۔

ڈیری، لائیو سٹاک اور پولٹری کے شعبہ جات کی درآمد پر عائد 5 فیصد کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو کم کرکے 2 فیصد کیا جا رہا ہے۔Incubators, Brooders اور مویشیوں کے چارہ کیلئے استعمال ہونے والی مشینری پر عائد موجودہ کسٹم ڈیوٹی کو بھی5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کیا جا رہا ہے،ماہی پروری پر عائد کسٹم ڈیوٹی میں رعایت،ماہی پروری کو فروغ دینے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کئے جا رہے ہیں جن میںFish Feed Pellet Machines اور Water Aerators کی درآمد پر عائد کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کی جا رہی ہے۔

مچھلی کی خوراک پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد ہے جبکہ کیکڑے/جھینگے کی خوراک پر یہ ڈیوٹی 20 فیصد ہے۔ ان دونوں کی خوراک کی درآمد پر عائد ڈیوٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح زندہ چھوٹی مچھلیوں کی درآمد پر عائد 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔اسحاق ڈار نے بتایا کہ فوڈ پروسیسنگ کی صنعت کیلئے Cool Chain Storage اور اس سلسلہ کے Capital Goods کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گے۔

کیڑے مار ادویات پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ،اس وقت کیڑے مار ادویات اور ان کے اجزاء پر 7 فیصد کے رعایتی نرخوں پر سیلز ٹیکس واجب الادا ہے۔ اس 7 فیصد سیلز ٹیکس کو ختم کیا جا رہا ہے۔اجناس کو ذخیرہ کرنے کی سہولیات میں استعمال ہونے والی مشینری اور آلات کے ساتھ Silos پر بھی سیلز ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ ہماری صنعت نے 6.8 فیصد کی شرح ترقی سے موجودہ سال میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ Large Scale Manufacturing نے 4.6 فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے۔

ملک میں صنعتی سرمایہ کاری کے عمل میں مزید اضافہ بہت ضروری ہے جس کیلئے مندرجہ ذیل مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ملازمتوں کی دستیابی اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے کیلئے جون 2018ء تک روزگار کے مواقع فراہم کرنے والی صنعتوں کو 50 ملازموں پر واجب الادا ٹیکس پر دیا جانے والا Tax Credit ایک فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے اور یہ رعایت جون 2019ء تک قائم ہونے والی صنعتوں کو 10 سال کیلئے حاصل ہو گی۔

Registered Persons کو مصنوعات کی فروخت پر Tax Credit،سیلز ٹیکس کے تحت درج شدہ خریداروں کو 90 فیصد سے زیادہ فروخت کرنے کی صورت میں رجسٹرڈ کارخانہ دار کو واجب الادا ٹیکس پر 2.5 فیصد Tax Credit دیا جاتا ہے۔ اس Tax Credit کو اڑھائی فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔پلانٹ اور مشینری کی جدت کیلئے Tax Credit کی فراہمی اس وقت 30 جون 2016ء تک BMR کی مد میں کی گئی سرمایہ کاری کے 10 فیصد کی شرح پر واجب الادا ٹیکس پر دو سال کیلئے Tax Credit دیا جا رہا ہے۔

100 فیصد نئی سرمایہ کاری کی صورت میں BMR پر دیا جانے والا Tax Credit سرمایہ کاری کے 20 فیصد کی شرح پر واجب الادا ٹیکس پر 5 سال کیلئے دیا جا رہا ہے۔ اس مدت میں 30 جون 2019ء تک توسیع دینے کی تجویز ہے۔ 30 جون 2016ء تک نئے حصص کے اجراء کے ذریعے نئی صنعتوں کے قیام کیلئے کی جانے والی 100 فیصد نئی سرمایہ کاری پر واجب الادا ٹیکس پر 5 سال کیلئے 100 فیصد Tax Credit دستیاب ہے۔

اس سلسلہ میں 100 فیصد نئی سرمایہ کاری کی موجودہ شرط کو کم کرکے 70 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ مدت کو بھی بڑھا کر 30 جون 2019ء تک توسیع کی تجویز ہے۔ 30 جون 2016ء تک نئے حصص کے اجراء کے ذریعے نئے پراجیکٹ پر کی جانے والی 100 فیصد نئی سرمایہ کاری یا موجودہ پلانٹ کی توسیع کی صورت میں واجب الادا ٹیکس میں 5 سال کیلئے 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔

اس سلسلہ میں 100 فیصد نئی سرمایہ کاری کی موجودہ شرط کو کم کرکے 70 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ مدت کو بھی بڑھا کر 30 جون 2019ء تک توسیع کی تجویز ہے۔وزیراعظم کے سرمایہ کاری پیکیج میں Greenfield Industrial Undertaking میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر دیئے جانے والے استثنیٰ کی 30 جون 2017ء کو ختم ہونے والی مدت میں 30 جون 2019ء تک اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی بچت اور متبادل ذرائع کو فروغ دینے کیلئے درج ذیل اقدامات تجویز کئے جارہے ہیں۔

اسحاق دار نے کہاکہ قابل تجدید توانائی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی درآمد کی حوصلہ افزائی موجودہ قوانین کے مطابق قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے آلات کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی اجازت ہے۔ چند نئے آئٹم بھی اس لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز ہے جن میں LED بلب، Off grid Portable Solar Home System وغیرہ شامل ہیں۔سولر پینل کی درآمد پر دی جانے والی رعایت میں توسیع ،ہر سطح کے Solar Panels اور ان کے حصوں پر 30 جون 2016 ء تک کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے ۔

تجویز کیا جاتا ہے کہ یہ چھوٹ 30 جون 2017 تک بڑھا دی جائے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہیلتھ انشورنس سکیم کے تحت وفاقی وزارت صحت نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر وزیراعظم ہیلتھ انشورنس سکیم کا آغاز کیا ہے۔ اس کا مقصد غریب طبقے کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ اس سکیم کے تحت متعدد موذی امراض کے علاج اور ہسپتال داخل ہونے کیلئے بیمہ کی سہولت مہیا کی جائے گی۔

2015-18 ء کے دوران اس سکیم کے تحت 9 ارب روپے پریمیم ادا کیا جائے گا۔ ابتدا میں یہ سکیم 23 اضلاع میں شروع کی جارہی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کار معاشرے کے غریب ترین طبقے تک پھیلایا جائے گا۔ آئندہ مالی سال میں سکیم میں شریک ہسپتالوں کی طبی سہولتیں بہتر بنانے کیلئے نرم شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں گے۔ ان قرضوں کی مدد سے شریک ہسپتال صحت کی سہولیات بشمول ماں اور بچے کیلئے طبی سہولیات کو بہتر بنانے پر توجہ دے سکیں گے۔

قرضہ رعایتی نرخوں پر دستیاب ہوں گے جس کیلئے مارک اپ پر Subsidy دی جائے گی اور قرضہ کے رسک میں شراکت کی جائے گی۔بیشتر سکیمیں مکمل طور پر شروع کی جاچکی ہیں اور ان کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ رواں مالی سال میں ان سکیموں پر 19 ارب روپے کے اخراجات ہوئے۔ آئندہ مالی سال ان کیلئے 20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ ساری سکیمیں جاری ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عورتوں کی سماجی ومعاشی بہتری کے لئے پالیساں اور اقدامات مرتب اور عملدرآمد کرنے میں مصروف عمل ہے۔

اس ضمن میں بجٹ مختص کرنا ایک اہم عمل ہے ہم نے اس سلسلے میں ایک اصلاحاتی عمل شروع کیا ہے۔ وفاقی سطح پر Gender Responsive Budgeting Tools (GRB) کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس عمل میں ہم صوبائی حکومتوں کو شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں جو 18 ویں ترمیم کے بعد ان شعبوں کی ذمہ دار ہیں جہاں خواتین کو زیادہ مواقع حاصل ہیں۔ مثلاً تعلیم اور صحت بجٹ تخمینہ جات کے تحت اب میں آئندہ مالی سال کے محاصل اور اخراجات کے تخمینہ جات کی طرف آتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2016-17 کیلئے وفاقی حکومت کے مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ4915.5 ارب روپے لگایا گیا ہے جوکہ 2015-16 کے 4,332.5 ارب روپے کے مقابلے میں 13.5 فیصد زیادہ ہے۔ ہم نے ٹیکس وصولی کیلئے ایک بڑا ہدف رکھا ہے کیونکہ معاشی ترقی کیلئے ضروری سمجھے جانے والے ترقیاتی اخراجات میں اضافہ زیادہ ٹیکس وصولی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ صوبائی حکومتوں کا ان ٹیکسوں میں حصہ اضافے کے ساتھ 2,136 ارب روپے ہے جو گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ 1,852 ارب روپے کے مقابلے میں 15.3 فیصد رہا ہے۔

جبکہ وفاقی حکومت کے پاس باقی ماندہ وسائل 2,780 ارب روپے رہ جائیں گے جو گزشتہ سال کے 2,481 ارب روپے سے 12.1 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ نئے انتظامات کے تحت صوبائی حکومتوں کی سماجی شعبے میں Service Delivery کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ لہذا ہم صوبائی حکومتوں کو پاکستان کے لوگوں کے لیے سماجی خدمت اور امن عامہ کی ذمہ داری بہتر طور پر ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے صوبوں کو دی جانی والی رقوم میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔

بجٹ میں مالی سال 2016-17ء کے کل اخراجات 4,395 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ 2015-16 کے 4,096 Revised Esitmates ارب روپے سے صرف 7.3 فیصد زیادہ ہیں۔ محصولات میں بتدریج اضافے اور اخراجات میں کمی سے ہماری معیشت مستحکم ہوئی ہے۔ 2015-16ء کے 3,400 ارب روپے کے مقابلے میں 2016-17 کے جاری اخراجات کا تخمینہ 3,282 ارب روپے ہے جوکہ Nominal Terms میں اخراجات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم دفاعی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے افواج پاکستان کے دفاعی بجٹ کے لیے 2015-16 کے 776 ارب روپے کے مقابلے میں 2016-17 میں 860 ارب مختص کیے ہیں جوکہ 11 فیصد کا اضافہ ہے۔

ایک ترقی پذیر معیشت کی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ کے لیے مناسب رقوم رکھی گئی ہیں۔ 2015-16 کے نظرثانی شدہ 661 ارب روپے کے مقابلے میں 2016-17 میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 800 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جوکہ 21 فیصد کا اضافہ ہے۔ اس میں سیکورٹی بڑھانے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام اور TDPs کی واپسی اور بحالی کے لیے بھی رقوم رکھی گئی ہیں۔

جیساکہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ہم بجٹ 2015-16 میں بجٹ خسارے کو کم کرکے 4.3 فیصد پہ لا رہے ہیں۔ آئندہ سال اسے مزید کم کرکے 3.8 فیصد پر لانے کا ہدف رکھا ہے۔وزیرخزانہ نے بتایا کہ اب میں تقریر کے حصہ دوئم کی طرف آتا ہوں جوکہ ٹیکس تجاویز پر مشتمل ہے۔ میں نے اپنی تقریر کے پہلے حصے میں معزز ایوان کے سامنے معیشت کے مختلف شعبوں کی ترقی اور ٹیکس ریلیف کے حوالے سے مجوزہ اقدامات سامنے رکھے ہیں۔

اب میں ایوان کے سامنے بجٹ میں ٹیکسوں میں ریلیف کی مد میں مزید اقدامات رکھنا چاہوں گا۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقدامات کی تجاویز ہیں۔جس کے تحت گورنمنٹ کی پالیسی کے مطابق کارپوریٹ کلچر کو فروغ دینے کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں ہر سال ایک فیصد کمی کی جا رہی ہے جوکہ 2013 میں 35فیصد سے شروع ہوئی تھی اور 2018 تک کم ہوکر 30 فیصد تک ہوجائے گی۔

2017 کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 31 فیصد ہوگی۔ اس وقت سٹاک ایکسچینج میں enlistment کے لیے قابل ادائیگی ٹیکس پر ٹیکس کریڈٹ 20 فیصد شرح پر ایک سال کے لیے دستیاب ہے۔ اس منظم سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کریڈٹ کی مدت کو ایک سال سے بڑھا کر دو سال کرنے کی تجویز ہے۔ مکانات کی تعمیر کے شعبے کی ترقی اور ملک میں مکانات کی قلت دور کرنے کے لیے قرضہ پر Deducitible Allowance کی ایک ملین کی انتہائی حد کو بڑھا کر دو ملین کرنے کی تجویز ہے۔

تعلیمی اخراجات کی مد میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے ایسے افراد جن کی قابل ٹیکس آمدنی ایک ملین روپے سالانہ سے کم ہے‘ انہیں فی بچہ یا بچی 60,000روپے سالانہ تک سکول فیس ادائیگی پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔ اس وقت approved پنشن فنڈ میں کنٹری بیوشن کے لیے زیادہ سے زیادہ 20 فیصد تک قابل ٹیکس آمدنی پر ٹیکس کریڈٹ دستیاب ہے۔ علاوہ ازیں 41سال سے زائد عمر کے افراد کے پنشن فنڈ میں 2 فیصد اضافی کنٹری بیوشن کی اجازت ہے جوکہ ان کی قابل ٹیکس آمدنی کے زیادہ سے زیادہ 50 فیصد تک دیا جائے گا‘ یہ سہولت فی الوقت 30 جون 2016ء تک دستیاب ہے۔

تجویز ہے کہ اس سہولت کو 30 جون 2019 تک اس شرط کے ساتھ بڑھا دیا جائے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس کریڈٹ پچھلے سال کی قابل ٹیکس آمدنی کے 30 فیصد تک ہی محدود رہے گا۔ کم آمدنی والے طبقے کی سہولت کے لیے تجویز ہے کہ لائف انشورنس ایجنٹس کو 5 لاکھ روپے تک دیئے گئے کمیشن پر ٹیکس ریٹس کو فائلرز کے لیے کم کرکے 8 فیصد تک لایا جائے۔ ملازم کے پراویڈنٹ فنڈ میں آجر کا حصہ ملازم کی تنخواہ کا دسواں حصہ یا ایک لاکھ روپیہ تک‘ جو بھی کم ہو‘ ٹیکس سے مستثنی ہے۔ آجر کی طرف سے اس سے زیادہ کنٹری بیشن ملازم کے لیے اس کی قابل ٹیکس آمدنی شمار ہوتی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے آجر کی طرف سے ملازم کے پراوڈنٹ فنڈ میں 100,000 روپے کنٹری بیوشن کی حد کو ب