کاشت کاروں کے مسائل کاحل حکومت کی اولین ترجیح ہے‘ کاٹن پیدا کرنے والے ممالک کاٹن کی پیداوار بڑھانے اور اس کے مسائل کے حل کیلئے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں

صدر ممنون حسین کاآئی سی اے سی کے ارکان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے سے خطاب

منگل 1 نومبر 2016 21:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 نومبر2016ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ کاشت کاروں کے مسائل کاحل حکومت کی اولین ترجیح ہے‘ کاٹن پیدا کرنے والے ممالک کاٹن کی پیداوار بڑھانے اور اس کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں تاکہ صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو اورملک کی معیشت بھی مضبوط ہو۔ وہ منگل کو یہاں ایوان صدر میں انٹر نیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی (آئی سی اے سی) کے ارکان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے سے خطاب کررہے تھے جس میں ملکی اور غیرملکی مندوبین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

صدر مملکت نے کہا کہ کاشت کاروں کو زراعت کے شعبے سے متعلق کی جانے والی جدید تحقیقات سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔

(جاری ہے)

اس سے نہ صرف ملکی زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا بلکہ کاشت کاروں کی اپنی حالتِ زار بھی بہتر ہو سکے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران کپاس کی فصل اور اس سے وابستہ صنعتوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔

اس عرصے میں کپاس کی بے شمار نئی اقسام متعارف ہو ئیں جن کی وجہ سے کپاس کی کاشت سے لے کر پیداوار تک ٹیکنیک میں کئی تبدیلیاں آ چکی ہیں جن سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ کپاس سے وابستہ صنعتوں نے بھی غیر معمولی ترقی کی ہے اورجدید ترین ٹیکنالوجی نے پورا نظام ہی بدل دیا ہے جس سے اس شعبے سے وابستہ لوگوں کے اندازِ کار اور معیارِ زندگی میں بھی مثبت طور پر نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ زراعت کے بعض شعبوں میں کاشت کاروں کومسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے‘جس کے خاتمے کے لیے کاشت کار سے صنعت کار تک تمام مسائل کو زیر غور لا کر ان کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت نے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایڈوائزری کمیٹی کاشت کاروں کے مسائل کے حل کے لیے قابلِ عمل سفارشات مرتب کرے تاکہ حکومت کاشت کاروں کو مزید سہولیات فراہم کرنے کے لیے بہتر اقدامات کرسکے۔

صدر مملکت نے کہا کہ کپاس کی فصل کے لیے کاٹن لیف کرل وائرس (Cotton Leaf Curl Virus) ایک مہلک خطرے کے طور پر ابھرا ہے جس نے کپاس کی پیداوار کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ خود پاکستان میں صرف ایک سال کے دوران چالیس لاکھ گانٹھیں اس مرض کی نذر ہوئیں جس سے کاشت کار سے لے کر صنعت کار تک سب کے سب متاثر ہوئے۔ قومی معیشت کے لیے خطرہ بننے والے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے سائنسدانوں کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ اس مسئلے کی نوعیت مقامی سے زیادہ بین الاقوامی ہے اس لیے ان مسائل کے تدارک کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ عالمی منڈی میں کپاس کی قیمتوں کے اتار چڑھائو ‘ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کے فرق٬ ٹیکسٹائل کی صنعت میں لاگت کے مسائل اور تجارت کی دنیا میں برانڈنگ جیسے پیچیدہ اور مہنگے معاملات بھی اس شعبے میں چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت اورکوٹہ جیسے مسائل نے بھی پیچیدگی پیدا کی ہے جن سے نمٹنے کیلئے کاٹن برادری کی طرف سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہایڈوائزری کمیٹی ان مسائل کے جائزے اور حل کے لیے موثر تجاویز پیش کرے۔

متعلقہ عنوان :