کسانوں کو مہنگے بی کے ساتھ ساتھ آبپاشی، فی ایکڑ کم پیداوار جیسے مسائل کا سامنا ہے، ڈاکٹر یوسف ظفر

پاکستان زرعی ملک ہوتے ہوئے ہرسال اربوں روپے کی دالیں درآمد کرتا ہے ، مقامی طور پر کاشت اور فی ایکڑپیداوار میں اضافہ کرکے کثیرزرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے، چیئرمین پاکستان ایگریکچرل ریسرچ کونسل

ہفتہ 19 نومبر 2016 21:44

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 نومبر2016ء) چیئرمین پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل ڈاکٹر یوسف ظفر نے کہا ہے کہ پاکستانی کسان کو مہنگے و غیر معیاری زرعی مداخل کے ساتھ ساتھ آبپاشی اور فی ایکڑ کم پیداوار جیسے مسائل کا سامنا ہے جبکہ مارکیٹ میں اسکے ساتھ استحصالی رویہ بھی اس کی معافشی حالت میں بہتری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ،پاکستان ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے ہرسال اربوں روپے کی دالیں درآمد کرتا ہے جبکہ ان کی مقامی طور پر کاشت اور فی ایکڑپیداوار میں اضافہ کرکے کثیرزرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں گندم‘ مکئی‘ چاول‘ گنا اور آلوضرورت سے کہیں زیادہ مقدار میں موجود ہے تاہم بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زرعی اجناس خصوصی دالوںاور خوردنی تیل کی درآمد کو بھی گرفت میں لانا ہوگا تاکہ زمینی‘ آبی اور انسانی وسائل کے بہتر استعمال سے اپنی ضروریات مقامی طور پر پوری کی جا سکیںیہ باتیں انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آبا میں پاک امریکہ مرکز اعلیٰ تعلیم برائے خوراک و زراعت کے زیراہتمام تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس برائے پائیدار زرعی ترقی کے اختتام پذیر کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

(جاری ہے)

آن لائن کے مطابق کانفرنس میں زرعی ترقی کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کو ایک منافع بخش کاروبار کے طو رپر آگے بڑھانے کیلئے مختلف حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ کانفرنس میں پاکستان سمیت امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے واٹر ‘ انرجی اور غذائی استحکام‘ ماحولیاتی مسائل ‘ زمینی استعمال‘ مارکیٹنگ‘ رینج لینڈ اور پاسچرمینجمنٹ ‘ پری سیئن ایگریکلچر‘ پولٹری و فارم مینجمنٹ میں آئی سی ٹی کا استعمال اور پائیدار ترقی کیلئے بائیو ٹیکنالوجی کے کو بروئے کار لانے پر مقالے پڑھے گئے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں نے کہا کہ 2050ء میں ملکی آبادی دوگنا ہوجائے گی جس کیلئے دوسری ضروریات کے ساتھ ساتھ متوان اور نیوٹریشن سے بھرپور غذاء کی فراہمی اہم چیلنج ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ شہروں میںآبادی کے پھیلائوسے ذرخیز زرعی زمینیں رہائشی کالونیوں کی نذر ہو رہی ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور صحت و تعلیم کی سہولیات کا رخ دیہاتوں کی طرف موڑا جائے۔

انہوں نے خبردار کیاکہ آج جملہ وجوہات کی وجہ سے کسان کی اگلی نسل کاشتکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے دوسرے شعبہ جات کی طرف دیکھ رہی ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ زراعت میں معاشی کشش کو مزید بڑھایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی ہدایت پر وہ اپنی ٹیم کے ساتھ صوبے کیلئے نئی زرعی پالیسی کے خدوخال ترتیب دے رہے ہیں جس سے پورے زرعی شعبہ کی ترقی ممکن ہوگی۔

قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سید فخر امام نے کہا کہ ملک میں اربوں ڈالر مالیت کا پانی ہر سال ضائع کیا جا رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ نئے ڈیموں کی تعمیرمیں تاخیرہرگزملکی مفاد میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر سطح پر پانی کی بچت کو یقینی بناتے ہوئے فصلات میں کم پانی سے زیادہ پیداوار والی ورائٹیاں متعارف کروانا ہونگی۔ کینیڈا کی ڈلہوسی یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر قمر الزمان نے کہا کہ انفرمیشن و کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کا رلاتے ہوئے زرعی مداخل کاہر دانہ و قطرہ فصل کے کام آنا چاہئے جس سے ضائع ہونے والے پانی‘ کھادوں اور سپرے وغیرہ کو بچانے کے ساتھ ساتھ پیداوار میں بھی اضافہ ممکن ہوگا۔

کانفرنس سے سینیٹر نثار میمن‘ ڈائریکٹر جنرل توسیع پنجاب ڈاکٹر انجم علی بٹر‘ ڈاکٹر امان اللہ ملک‘ انجینئر پیٹر سونکلر‘ ڈاکٹر جان ڈبلیو ہوپمین‘ ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک‘ ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر‘ ڈاکٹر محمد سرور خاں‘ ڈاکٹر سدرہ اعجاز‘ ڈاکٹر ڈاگ لاس کک‘ حافظ محمد وصی‘ ڈاکٹر محمد سعید‘ ڈاکٹر جہانزیب امتیاز چیمہ‘ ڈاکٹر حماد بدر‘ ڈاکٹر بابرشہباز‘ ڈاکٹر عامر جمیل‘ڈاکٹر ایم قاسم علی‘ ڈاکٹر عثمان مصطفی‘ ڈاکٹر غضنفر علی خاں‘ ڈاکٹر آصف علی خان‘ ڈاکٹر شاہد الرحمن و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :