شام میں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا- جنگی جہازوں نے حملے کا نشانہ بننے والے افراد کا علاج کرنے والے مقامی کلینکس پر راکٹس داغے -امدادی کارکن

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 5 اپریل 2017 11:11

شام میں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر اقوام متحدہ کی ..
واشنگٹن (اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05اپریل۔2017ء) شام میں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں سے کیے گئے حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور طبی عملے کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد جنگی جہازوں نے حملے کا نشانہ بننے والے افراد کا علاج کرنے والے مقامی کلینکس پر راکٹس داغے جبکہ شامی فوج نے حکومت کی جانب سے ایسے کسی بھی ہتھیار کے استعمال کی تردید کی ہے۔

دوسری جانب برطانیہ، اقوامِ متحدہ اور فرانس نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔اگر اس حملے کی تصدیق ہو گئی تو یہ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران سب سے مہلک کیمیائی حملہ ہوگا۔حزب اختلاف کے حمایتی ادارے ادلب میڈیا سینٹر نے تصاویر جاری کی ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگوں کا علاج ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ان تصاویر میں سات بچوں کی لاشیں بھی نظر آ رہی ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ان تصاویر کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔ادھر امریکہ نے شام میں ایک مبینہ کیمیائی حملے میں درجنوں افراد کی ہلاکت کاالزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے حملے قابل مذمت ہیں تاہم صدر بشار الاسد شام میں ایک سیاسی حقیقت ہیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہائٹ ہاﺅس کے ترجمان شون اسپائسر کا کہنا تھا کہ عورتوں اور بچوں سمیت شام کے معصوم لوگوں پر کیمیائی حملہ ایک قابلِ مذمت کارروائی ہے جس سے مہذب دنیا چشم پوشی نہیں کرسکتی۔

شام کے شمالی صوبے ادلب میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے پر ایک فضائی حملے میں لگ بھگ 100 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔برطانیہ میں قائم تنظیم سیرین آبزرویٹری نے دعویٰ کیا ہے کہ فضائی حملہ شام یا روس کے فوجی طیاروں نے کیا تھا جنہوں نے علاقے پر کیمیائی بم گرایا۔آبزرویٹری کے مطابق زہریلی گیس سے ساڑھے تین سو سے زائد افراد متاثر بھی ہوئے ہیں۔

نشریاتی اداروں کے مطابق حالیہ حملہ شام میں 2013ءکے بعد سب سے ہلاکت خیز کیمیائی حملہ ہے۔ اس سے قبل 2013ءمیں دارالحکومت دمشق کے ایک نواحی علاقے میں زہریلی گیس کے حملے کے نتیجے میں 1500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس حملے کو اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے سرخ لکیر قرار دیتے ہوئے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف فضائی حملوں کی دھمکی دی تھی لیکن وہ اپنی اس دھمکی پر عمل درآمد میں ناکام رہے تھے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہائٹ ہاﺅس کے ترجمان شون اسپائسر نے موقف اختیار کیا کہ حملے پر اوباما حکومت کی کمزوری کو موردِ الزام ٹہرانا چاہیے۔ترجمان نے الزام عائد کیا کہ اگر صدر اوباما کیمیائی حملوں کو سرخ لکیر قرار دینے سے متعلق اپنے بیان پر عمل درآمد کرتے تو دوبارہ ایسا حملہ نہ ہوتا۔ایک سوال کے جواب میں وہائٹ ہاﺅس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ماضی میں امریکہ کو شام میں حکومت کی تبدیلی کے کئی مواقع ملے تھے لیکن اب شام کی صورتِ حال بالکل مختلف صورت اختیار کرچکی ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے ایک بیان میں کیمیائی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ صدر بشار الاسد کھلی جارحیت اور وحشت پر اتر آئے ہیں۔ٹلرسن نے اپنے بیان میں روس اور ایران پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بشار الاسد کو لگام ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔بیان میں امریکی وزیرِ خارجہ نے ایران اور روس سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ ایسا خوف ناک حملہ دوبارہ نہ ہو۔

متعلقہ عنوان :