ملک کا تجارتی خسارہ تاریخ میں پہلی مرتبہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ۔وفاقی ادارہ شماریات - بیرونی قرضوں میں بے پناہ اضافے کا تاثرغلط ہے - 2013 میں بیرونی قرضے 46 ارب ڈالر تھے آج 58 اعشاریہ 4 ارب ڈالر ہیں۔اسحاق ڈار-قومی اسمبلی نے وفاقی بجٹ کی منظوری دیدی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 13 جون 2017 23:14

ملک کا تجارتی خسارہ تاریخ میں پہلی مرتبہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ۔وفاقی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 جون ۔2017ء) ملک کا تجارتی خسارہ تاریخ میں پہلی مرتبہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق درآمدات اور برآمدات میں بڑھتا ہوا فرق گزشتہ جولائی سے لے کر اس سال مئی تک 29.99 ارب ڈالر رہا جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 42.1 فیصد یا 8.9 ارب ڈالر زیادہ ہے۔گزشتہ سہ ماہی میں بھی درآمدات کی شرح انتہائی بلند رہی اور اس مد میں پانچ ارب ڈالر خرچ ہوئے اور بظاہر یہی وجہ ہے کہ تجارتی خسارہ قابو میں نہیں آ رہا۔

رواں مالی سال کے آغاز پر وفاقی وزیر خزانہ نے تجارتی خسارے کا ہدف ساڑھے بیس ارب ڈالر رکھا تھا لیکن اس کے برعکس سامنے آنے والے اعدادوشمار اس ہدف سے بھی ساڑھے نو ارب ڈالر زیادہ کے خسارے کو ظاہر کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

بتایا جاتا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری سے درآمدی سامان نسبتاً سستا پڑتا ہے لیکن یہ تجارتی خسارے میں اضافے کا سبب بنا ہے رواں ماہ اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے دوران برآمدات 3.1 فیصد کمی کے ساتھ صرف 18.5 ارب ڈالر رہیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 59 کروڑ دس لاکھ ڈالر سے کم ہیں۔

تجارتی خسارے میں اضافے سے ملک میں اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ عام شہریوں کی آمدن اور اخراجات کا توازن بری طرح بگڑا ہے-دوسری جانب وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بیرونی قرضوں میں بے پناہ اضافے کا تاثرغلط ہے جبکہ ہم نے جی ڈی پی کا 5 اعشاریہ 3 کا مشکل ہدف حاصل کرلیا ہے۔قومی اسمبلی میں مالی سال 2017-18 کے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے بیرونی قرضوں میں بے پناہ اضافے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2013 میں بیرونی قرضے 46 ارب ڈالر تھے آج 58 اعشاریہ 4 ارب ڈالر ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح میں کمی آئی ہے اور جی ڈی پی گروتھ کا 5 اعشاریہ 3 کا مشکل ہدف حاصل کر لیا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی میں شرح نمو کا ہدف 6 فیصد رکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹ کی 276 تجاویز میں سے 75 کو کلی یا جزوی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے اور 137 تجاویز کو منصوبہ بندی کمیشن کو بھجوا دیا جائے گا۔

این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نوواں این ایف سی ایوارڈ کمیشن تشکیل دیا جا چکا ہے اور حکومت نئے این ایف سی ایوارڈ کی جلد از جلد تکمیل کی خواہش مند ہے لیکن صوبوں کی جانب سے تاخیر کی جارہی ہے۔وزیرخزانہ نے دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے سیکورٹی فورسز کے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر سال 90 سے 100 ارب کے اخراجات کیے جاتے ہیں اور آئندہ بھی عسکری آپریشنز کی کامیابی کے لیے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے بجٹ میں 90 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت کی جانب سے برآمدات میں اضافے کے لیے 22 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے اور یہ سبسڈی برآمدات میں 10 فیصد اضافہ سے مشروط ہے۔

ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے ہونے والی منصوبہ بندی پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ برآمد کنندگان کے لیے 180 ارب روپے کا پیکج لایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں کی حد 50 ہزار فی ایکڑ سے بڑھا کر 75 ہزار روپے فی ایکڑ کیا جا رہا ہے۔مزدور کی کم سے کم اجرت بھی دس فیصد کے حساب سے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور کم سے کم اجرت اب 15 ہزار کے بجائے 15 ہزار 400 کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے شعبے کی ترقی کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور ہول سیل بیٹری ڈیلرز کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بیٹری سے چلنے والے پنکھوں کے مقناطیس کی درآمد ڈیوٹی فری کی جا رہی ہے اور صنعتوں کو توانائی پر 22 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔اسحاق ڈار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 120 ارب روپے مختص کئے ہیں۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیرخزانہ ا سحاق ڈار نے مالی سال 2017-18 کا 47 کھرب 50 ارب روپے کا بجٹ کابینہ سے منظوری کے بعد 26 مئی کو پیش کیا تھا جو حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے دور حکومت کا پانچواں بجٹ تھا۔قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی گئی۔

متعلقہ عنوان :