اب گلیشیئرز کا تجربہ گاہوں اور عجائب گھروں میں مشاہدہ کیا جاسکے گا

جمعہ 30 جون 2017 16:22

اب گلیشیئرز کا تجربہ گاہوں اور عجائب گھروں میں مشاہدہ کیا جاسکے گا
واشنگٹن۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جون2017ء)سائنس دانوں نے الیمانی کے پہاڑی سلسلے سے 18 ہزار سال پرانی برف کے 75 نمونے اکھٹے کیے ہیں اور انہیں انٹارکٹکا لے جایا جا رہا ہے۔بولیویا کے دارالحکومت لاپاز سے الیمانی کی پہاڑی چوٹیوں پر جمی ہوئی سفید اجلی برف ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔ یہ منظربڑادلکش اور من موہ لینے والا ہوتا ہے جس کامقامی زبان آئمارا کے گیتوں، شاعری، قصے کہانیوں اور ادب میں اس کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔

الیمانی کا گلیشیئر تیزی سے پگھل رہا ہے اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چند ہی برسوں میں یہ علاقہ برف سے خالی ہو جائے گا۔سائنس دان فی الحال گلیشیئر کو تو پگھلنے سے نہیں بچا سکتے البتہ انہوں نے اس کے کچھ ٹکڑے محفوظ کرنے شروع کر دیے ہیں۔

(جاری ہے)

اپنے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے، جو گلیشیئر کو تو نہیں دیکھ سکیں گی لیکن اس کے ٹکڑوں پر یہ تحقیق کر سکیں گی کہ ہزاروں سال پرانی برف کے ختم میں اصل کردار کس کا ہے۔

ان دنوں الیمانی کے پہاڑی سلسلے میں سائنس دانوں کی نگرانی میں گلیشیئر پر کھدائی کا کام ہو رہا ہے اور برف کے ٹکڑوں کو مخصوص قسم کے ٹرکوں میں لادا جا رہا ہے۔بین الاقوامی سائنس دانوں کا ایک 15 رکنی گروپ اینڈیر کے علاقے میں گلیشیئر کی کھدائی کی نگرانی کر رہا ہے۔ انہوں نے قدیم برف کے نمونے اکھٹے کرنے کے لیے 130 میٹر سے زیادہ کھدائی کی ہے۔

سائنس دانوں نے اس علاقے سے 18 ہزار سال پرانی برف کے 75 نمونے اکھٹے کیے ہیں اور انہیں انٹارکٹکا لے جایا جا رہا ہے۔سائنس دان برف کے ان قدیم ٹکڑوں کو مستقبل کی تحقیقی سرگرمیوں کے لیے محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہاں ایک خصوصی لیبارٹری قائم کرنا چاہتے ہیں۔گلیشیئروں کے ایک ماہر پیٹرک گیناٹ نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ ہم گلیشیئر کے ان ٹکڑوں کو اس لیے محفوظ کررہے ہیں کیونکہ یہ ہماری آب و ہوا اور ماحولیات کے انسائیکلوپیڈا کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آپ گلیشیئر کے ان ٹکڑوں سے دنیا کی تاریخ کا کھوج لگا سکتے ہیں۔گلیشیئرز کی تحقیق سے متعلق گروپ نے بتایا کہ وہ اس سے پہلے اپیلس کے ماونٹ بلینک سے بھی برف کے نمونے اکھٹے کر چکا ہے اور اس کے بعد گروپ کے سائنس دان روس اور نیپال جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔پہاڑوں کی برف کا مستقبل سائنسی لیبارٹریاں بن رہی ہیں