سپریم کور ٹ نے جہانگیر ترین کی زرعی آمدن پر ادا کردہ ٹیکس او ردیگر تفصیلات طلب کردیں

جمعہ 6 اکتوبر 2017 00:08

سپریم کور ٹ نے جہانگیر ترین کی زرعی آمدن پر ادا کردہ ٹیکس او ردیگر ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اکتوبر2017ء) سپریم کور ٹ نے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی اہلیت کے حوالے سے مقدمہ میں جہانگیر خان ترین کی زرعی آمدن پر ادا کردہ ٹیکس او ردیگر تفصیلات طلب کرتے ہوئے مزید سماعت منگل 10اکتوبر تک ملتوی کردی ہے اورکہاہے کہ الیکشن کمیشن میں جمع کاغذات نامزدگی میں آمدن کم جبکہ ایف بی آر میں جمع ٹیکس گوشواروں میں آمدن زیادہ بتائی گئی ہے کہیں ایسانہ ہوزرعی آمدن کو زیادہ بتا کر کالے دھن کو سفید کیا گیا ہے، ٹیکس ادا کرنے والوں کو تحفظ ملنا چاہیے، لیکن جہانگیر ترین پر کالا دھن سفید کرنے کا الزام ہے۔

جمعرات کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے حنیف عباسی کی جانب سے دائردرخواست کی سماعت کی ، اس موقع پر جہانگیر خان ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے پیش ہوکردوسرے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھے اور موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے اپنی زرعی آمدن میں سے کچھ نہیں چھپایا ، آمدن میں تضاد کے بارے میں متعلقہ فورم نے جہانگیرترین کی وضاحت تسلیم کی تھی ،درخواست میں بھی کہ ان کے موکل کے بارے میں صرف شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے ،کاغذات کے ساتھ ٹیکس گوشواروں کی تفصیل موجود تھی، اس حوالے سے ہم نے مکمل ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا ہے، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے موکل نے الیکشن کمیشن میں کیوں آمدن کم ظاہر کی ہے ، اس ملک میں کسی کی زرعی آمدن اتنی نہیں ہو سکتی جتنی جہانگیر ترین نے ظاہر کی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ زرعی آمدن کو زیادہ بتا کر کالے دھن کو سفید کیا گیا ہے جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے الیکشن کمیشن میں انتخابی گوشوارے جمع کراتے وقت، ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ بھی ساتھ منسلک کیا تھا ، اور الیکشن کمیشن کو اپنی ذاتی طورپرہونے والی زرعی آمدن بھی بتائی تھی اس کے ساتھ انہوں نے ٹیکس حکام کو نہ صرف ذاتی زرعی آمد ن سے آگاہ کیا بلکہ لیز پر لی گئی اراضی کی آمدن بھی بتائی تھی ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جہانگیر ترین نے ڈیڑھ ارب روپے زرعی آمدن ظاہر کی تھی، جبکہ انہوں نے اٹھارہ ہزار ایکڑ زمین لیز پر حاصل کی تھی،ہمیں ان مالکان کو ادائیگیوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے جن سے زمین لیز پر لی گئی تھی ،جس پر فاضل وکیل نے یقین دہانی کرائی کہ وہ عدالت کو متعلقہ ریکارڈ پیش کردیں گے ،چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ جہانگیرترین کی زرعی زمین پر کونسی فصل کاشت کی جاتی تھی ہمیں یہ بھی بتایاجائے کہ زمین کا مالک کون ہے اورلیز پرلی گئی زمین پر کاشت کاری کون کر رہا ہی یہ تمام ریکارڈ خسرا گرداوری اور جمع بندی میں محفوظ کیا جا تا ہے ، وہ ریکارڈ عدالت کو پیش کیاجائے ،فاضل وکیل نے مزید کہا کہ ٹیکس حکام نے ان کے موکل کے گوشواروں میں زرعی آمدن میں تضاد پر گزشتہ سال نوٹس لے کر شو کاز نوٹس جاری کیا تھا اور بعد میںجہانگیر ترین کی وضاحت کو درست تسلیم کیا گیا تھا ، جس کے بعد اپیلیٹ اتھارٹی نے ماتحت فورم کی فائینڈنگ کو کالعدم قرار دیا اور جہانگیر ترین کو دوبارہ شوکاز نوٹس جاری کیا ، جس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے، 2011ء کی زرعی آمدن کے معاملے پر ٹیکس حکام نے جہانگیر ترین کے خلاف فیصلہ دیا تھا ، اس حوالے سے اس وقت ایک مقدمہ لاہور ہائی کورٹ جبکہ دوسرا سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے میراکہنا یہ ہے کہ جب تک کسی عدالت سے ان کے موکل کے خلاف کوئی ڈیکلریشن نہ آجائے ان کے خلاف نااہلی کی درخواست دائر نہیں کی جا سکتی، جس پرچیف جسٹس نے ان سے کہاکہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل(3) 148 کے مقدمہ میں تحقیقات کرانے کا اختیار رکھتی ہے کیونکہاگر کسی رکن پارلیمنٹ کے انتخابی گوشواروں میں غلط بیانی کی گئی ہو تو اس کی تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں، جسٹس عمر عطا بندیا ل کاکہناتھا کہ جہانگیر ترین پر کالا دھن سفید کرنے کا الزام ہے۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ وہ جہانگیر ترین کا نام نہیں لیں گے، لیکن عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ زرعی آمدن زیادہ بتا کر کالے دھن کو سفید کیا جاتا ہے ،آپ کے موکل نے بھی زرعی آمدن بہت زیادہ بتائی ہے جس سے شکوک و شہبات پیدا ہوتے ہیں، لوگ عمومًاکالے دھن کی آمدن کو بعد میں کسی طریقے سے قانونی شکل دے دیتے ہیں، جہانگیر ترین بھی تین سال وفاقی وزیر رہ چکے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ ٹیکس حکام کے احکامات کی پابند نہیں، عدالت نے اس معاملے کو صداقت اور ایمانداری کے اعتبار سے پرکھنا ہے ہم دیکھیں گے کہ کہیں زیادہ آمدن بتا کر کالا دھن تو سفید نہیں کیا گیا ہے فاضل وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے مزید سماعت ملتوی کر دی۔