احتساب عدالت نے نوازشریف‘مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کے خلاف نیب ریفرنسزکی سماعت بغیرکسی کاروائی کے7 نومبر تک ملتوی کر دی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 3 نومبر 2017 10:20

احتساب عدالت نے نوازشریف‘مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کے خلاف نیب ریفرنسزکی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03نومبر۔2017ء) احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف‘مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کے خلاف نیب ریفرنسزکی سماعت بغیرکسی کاروائی کے7 نومبر تک ملتوی کر دی ہے جبکہ نواز شریف کو عدالت سے حاضری کے لیے استثنیٰ کی درخواست منظور نہیں کی گئی۔ نواز شریف کی جانب سے عدالت میں دو الگ الگ ضمانتی مچلکے بھی جمع کروائے گئے۔

کمرہ عدالت میں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو پہلی لائن میں جگہ دی گئی جبکہ ان کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو تیسری لائن میں بٹھایا گیا ہے۔صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران نواز شریف نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے صرف چھ ماہ کا وقت ددیاایک ریفرنس پر ایک ماہ کا وقت بھی نہیں دیا جا رہا۔

(جاری ہے)

نیب میں دیگر زیر سماعت مقدمات میں ایک بھی نگراں جج مقرر نہیں کیا گیا یہ سب سمجھ سے باہر ہے-سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ زرداری صاحب مجھے گالیاں نہیں دے رہے کسی کو خوش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کیا اس بات کی سزا ہے کہ کراچی میں امن لایا، سی پیک بنایا۔مجھے لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کو ختم کرنے کی سزا دی گئی۔نواز شریف نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز نے کہا کہ کیسز کرپشن کے نہیں۔سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم صفدر اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر کی عدالت میں پیش ہوئے- نواز شریف کے خلاف3 جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایک ریفرنس زیرسماعت ہیں۔

اس موقع پر نون لیگی رہنما مشاہد اللہ خان اور ایم این اے ملک ابرار کو احتساب عدالت جانے سے روک دیا گیا ، جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اپنی ٹیم کے ہمراہ عدالت پہنچے۔سابق وزیر اعظم کی پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف سخت سیکورٹی انتظامات کے تحت ایک ہزار سے زائد پولیس اور ایف سی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں عام افراد کے داخلے پر پابندی ہے اور جوڈیشل کمپلیکس جانے والے راستے کشمیر ہائی وے سے عام ٹریفک کے لیے رکاوٹیں لگا کر بند کیے ہوئے ہیں۔

احتساب ریفرنس کی سماعت کیلئے نون لیگی رہنما پہلے سے عدالت پہنچنے ہوئے ہیں جن میں وزیر اعظم کے مشیر مصدق ملک اور طارق فاطمی کے علاوہ پرویز رشید، مریم اورنگزیب، طلال چوہدری اورمحسن شاہنواز رانجھا شامل ہیں۔عدالت نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں ایس ای سی پی کی سدرہ منصور جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز میں کمشنر ان لینڈ ریونیو جہانگیر احمد کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کر رکھا تھا۔

واضح رہے کہ نواز شریف، ان کے بچوں اور داماد کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور دیگر آف شور کمپنیوں، ایون فیلڈ کی جائیداد اور العزیزیہ کمپنی سے متعلق نیب کے تین ریفرنسز کا سامنا ہے۔ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو نااہل ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نیب کے تین ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کی تھی۔

عدالت عالیہ نے احتساب عدالت کا 19 اکتوبر کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے نظرثانی کا حکم دیا۔یاد رہے کہ احتساب عدالت نے ریفرنسز یکجا کرنے کے لیے نواز شریف کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی تھی۔3 نومبر کو جب احتساب عدالت میں ریفرنسز کی سماعت کا آغاز ہوا تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں ریفرنسز یکجا کرنے سے متعلق حکم پر نظر ثانی کی ہدایت کی ہے۔

جس پر احتساب عدالت نے کہا کہ انہیں کچھ ہی دیر میں ہائی کورٹ کے حکم کی کاپی موصول ہونے والی ہے جس کے بعد سماعت کچھ دیر کیے لیے ملتوی کردی گئی۔تاہم بعد ازاں شریف خاندان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سماعت کے لیے آئندہ کی تاریخ دے دی جائے کیونکہ ہائی کورٹ کے حکم نامے کی کاپی آنے میں وقت درکار ہے اور نہ ہی عدالت اور نہ ہی ان کے موکل کے پاس اتنا وقت ہے۔جس کے بعد احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف دائر ریفرنسز کی سماعت 7 نومبر 2017 تک کے لیے ملتوی کردی۔اس دوران ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی کے لیے عدالت نے 15منٹ کا وقفہ بھی کیامگر فیصلے کی کاپی احتساب عدالت کو موصول نہیں ہوئی ۔