کینسر کی دیگر اقسام کے مقابلے میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص سب سے آسان اور علاج میں کامیابی کی شرح سب سے زیادہ ہے،

بروقت تشخیص ہو جائے تو علاج سے 100فیصد تک خواتین کی جان بچانا ممکن ہے،ڈاکٹر نیلم صدیقی

منگل 9 اکتوبر 2018 16:54

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اکتوبر2018ء) شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈریسرچ سینٹرکی سینئر کنسلٹنٹ میڈیکل انکالوجی ڈاکٹر نیلم صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرطان کی بیماری میں مبتلا افراد میں سب سے زیادہ تعداد چھاتی کے سرطان سے تعلق رکھتی ہے۔منگل کو ’’اے پی پی‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر نیلم صدیقی نے کہاکہ چھاتی کے سرطان کا تناسب باقی تمام اقسام کے مقابلے میں 14فیصد زیادہ ہے۔

اسی امر کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ کینسر کی دیگر اقسام کے مقابلے میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص سب سے آسان اور علاج میں کامیابی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اگر اس کی تشخیص بیماری کے پھیلنے سے قبل ہو جائے تو علاج سے 100فیصد تک خواتین کی جان بچانا ممکن ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ بیماری کی پہلی سٹیج میں تشخیص کے بعد 98% فیصداور دوسری سٹیج میں88% فیصدخواتین کی جان آسانی سے بچانا ممکن ہوتا ہے۔

جبکہ تیسری سٹیج پر یہ تناسب 52% تک اور آخری یعنی چوتھی سٹیج پر پہنچنے کے بعد 16%فیصد تک رہ جاتا ہے۔بڑھتی عمر کے ساتھ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے امکانات بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔انھوں نے کہاکہ خواتین میں سنیاسی کے دور(حیض بندی)کے شرو ع ہونے کے بعد چھاتی کے سرطان کے لاحق ہونے کا خطرہ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے،حیض کا 12سال کی عمر سے قبل آنا،یا 50 سال کی عمر کے بعد ختم ہونا، دیر سے شادی ہونا اور 30سال عمر کے بعد بچوں کی پیدائش ہونا ، بانجھ پن کی صورت میں بچوں کا پیدا نہ ہونا، یا اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا بھی چھاتی کے سرطان کے امکانات کو بڑھانے والے عوامل میں شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سرطا ن کی قابلِ تصحیح وجوہات میںایسے عوامل شامل ہیں جن پر عمل کرکے بریسٹ کینسر کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ باقاعدگی سے ورزش کرنا اور وزن کو قد کے تناسب سے رکھنا بہت ضروری ہے۔ چھاتی کے سرطان میں مبتلا افراد کو اپنا وزن کم کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے بیماری کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی اور الکوحل (شراب) سے بھی اس بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

نسوانی ہارمون یاکھانے والی مانع حمل ادویات کا زیادہ عرصہ تک استعمال نہ کریں، خاص طور پر وہ خواتین جن کے خاندان میں پہلے کسی کو بریسٹ یا رحم کا کینسر ہوچکاہو۔ اچھی خوراک جسم کو صحت مند رکھ کر اس کی قوت ِ مدافعت بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔جسم میں قوتِ مدافعت بڑھانے کے لیے تازہ سبزیوں، پھلوں خشک میوہ جات اور مچھلی وغیرہ کو اپنی خوراک کا حصہ ضرور بنایں۔

انھوں نے کہا کہ اس سرطان کی طبی سطح پر تشخیص کے لیئے سب سے موثر طریقہ میموگرام مشین کے ذریعے میموگرافی کروانا ہے۔ تشخیص کی صورت میں علاج میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ اسکے علاج میں آپریشن، کیمیوتھراپی ریڈییشن اور ہارمونز تھراپی شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ آج جتنی سرعت کے ساتھ سرطان کا مرض پاکستان میں پھیل رہا ہے، اسکی ایک اہم وجہ اس مرض کے متعلق معلومات کا فقدان ہے۔

ہماری عوام نہ تو اس مرض کی وجوہات سے مکمل طور پر آشنا ہے نہ اس کی پہچان اور علاج سے۔ علاج کے ساتھ ساتھ شوکت خانم ہسپتال کینسر کی تشخیص و علاج کے حوالے سے آگاہی پھیلا نے کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ کینسر کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اور بروقت تشخیص کے بارے میں آگاہی سے مجموعی طور پر ملک کے ہیلتھ سیکٹر پر بوجھ بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر کی جانب سے گزشتہ دس سالوں سے بریسٹ کینسر کے بارے میں ملک گیر آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت ملک بھر کے سرکاری اور نجی تعلیمی اور کاروباری اداروں میں اس مرض کے حوالے سے آگاہی سیشنز کروائے جاتے ہیں۔ان سیشنز میں شوکت خانم ہسپتال کے ماہرین اور ڈاکٹرز کی ٹیم سکول کالجز اور یونیورسٹیوں کی طالبات اور ورکنگ لیڈیز کو بریسٹ کینسر کی تشخیص اور علاج کے بارے میں بتاتے ہیں۔

گزشتہ دس سالوں میں شوکت خانم ہسپتال کی جانب سے تقریباً 10 لاکھ خواتین کو براہ راست آ گاہی دی گئی ہے۔ سمینارز کے علاوہ شوکت خانم ہسپتال کی جانب سے اخبارات ، ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ملک بھر میں لاکھوں افراد تک اس بیماری کے حوالے سے درست معلومات پہنچائی جاتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ چھاتی کے سرطان سے متعلق معلومات کو زیادہ سے زیادہ افراد تک پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریںکیونکہ ہر 9 میں سے وہ کینسر کا شکار ایک عورت آپ کے بہت قریب بھی ہو سکتی ہے۔