جس معاشرے میں ثقافتی گھٹن ہوتی، اس میں نیا خیال پیدا نہیں ہوتا،پروفیسر انیس احمد زیدی

پیر 16 دسمبر 2019 23:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 دسمبر2019ء) سر سید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں سلور جوبلی تقریبات کے حوالے سے ایک تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمانِ خصوصی نیشنل کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر انیس احمد زیدی تھے جب کہ منصفین کے پینل میں خلیل اللہ فاروقی، انوار عزمی اور محترمہ طلعت شامل تھیں۔ اس مقابلے میں مختلف کالجوں اور جامعات کے طلبائ کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔

پروگرام کی میزبانی کے فراء ض پروفسیرنوشابہ صدیقی نے انجام دیئے۔ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر انیس احمد زیدی نے کہا کہ جس معاشرے میں ثقافتی گٹھن ہوتی، اس معاشرے میں نیا خیال پیدا نہیں ہوتا۔ جمود کا شکار معاشروں میں علم آپ کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتا ہے اورآپ کو آگے لے کر جاتا ہے۔

(جاری ہے)

معاشرے میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں اہلِ شہادت، اہلِ احسان اور اہلِ جمال۔ اہلِ شہادت وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصد، اپنی منزل، اپنی آدرش اور اپنے نصب العین کے لیے اپنی زندگی کی بازی لگا دیتے ہیں۔ عظیم فلسفی سقراط کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جس نے سچ کے لیے زہر کا پیالہ پی لیا۔۔ اٴْس نے اپنی جاں بخشی پرموت کو ترجیح دی۔ انھوں نے کہا کہ سماج ہمیشہ سوچنے اور سمجھنے سے آگے بڑھتا ہے۔

جب لو گ اپنی بات کہتے ہیں اوراس سے پہلے دوسرے کی بات سننے کا ہنرجان لیتے ہیں تب معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ آج کل ٹی وی چینل کے ٹاک شوز میں ترقی، علم اور اعلیٰ آدرش کی بات نہیں ہوتی بلکہ الزامات اور جوابی الزامات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ سر سید نے کہا تھا کہ دین جانے سے دنیا نہیں بلکہ دنیا کے جانے سے دین چلا جاتا ہے۔ سر سید نے جب تعلیمی درسگاہ قائم کی تو اس کو قائم کرنے کے لیے غیر مسلموں نے بڑی بڑی رق میں دی تھیں اور اس کے پہلے بیچ میں جو بارہ پندرہ لڑکے تھے ان میں ہندو بھی شامل تھے۔

یہی وجہ ہے تعلیم سے روشن خیالی پیدا ہوتی ہے۔ پروفیسر انیس زیدی نے کہا کہ آزادی ایک ایسا سکہ ہے جس کے پیچھے پابندی کی مہر لگی ہوتی ہے۔ کسی آدمی کو مکمل آزادی نہیں ملتی۔ ہر آزادی کسی نہ کسی ذمہ داری کی طرف لے جاتی ہے۔ انسانی معاشرے میں خیالات کی جگہ بہتر خیالات ہی لے سکتے ہیں۔ گفتگو اور مکالموں سے نئی جہت پیدا ہوتی ہے۔ سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر ولی الدین نے کہاکہ سرسید احمد خان نے اٴْس وقت کے حالات کے تناظر میں جو ویڑن دیا وہ موزوں اور درست تھا۔

ہ میں عملی قدم اٹھانا چاہے۔ جب بھی کوئی نیا آئیڈیا سامنے لایا جاتا ہے، بہت سارے لوگ اپ کے مخالف ہوجاتے ہیں اور آپ کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ ان سب چیلنجوں سے نبرد آزما ہوکر ہی آپ کو آگے بڑھنا ہے۔ منصفین کے فیصلے کے مطابق پہلا انعام کراچی یونیورسٹی کے حسن رضا نے حاصل کیا جبکہ دوسرا اور تیسر انعام بالترتیب ڈائ و میڈیکل یونیورسٹی کی مریم بتول اور این ای ڈی یونیورسٹی کی حافظہ کائنات نے حاصل کیے۔

سرسید یونیورسٹی کی سلور جوبلی کی تقریبات کے حوالے سے سرسید ٹاور میں ایک محفلِ غزل کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار سلمان علوی نے اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کیا۔ انھوں نے نئے اور پرانے شعرائ کے کلام سنا کر حاضرین محفل سے بے پناہ داد وصول کی۔ شبِ غزل میں لیفٹینٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار، رجسٹرار سید سرفراز علی، کموڈور سلیم صدیقی، ہمدرد یونیورسٹی کے عبدالحنان کے علاوہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے اعزازی سیکریٹری جنرل محمد ارشد خان و ممبران اوردیگر معززین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔#