قدرت اور جنگلی حیات کو سمگلنگ سے خطرہ لاحق، یو این او ڈی سی

یو این منگل 14 مئی 2024 01:00

قدرت اور جنگلی حیات کو سمگلنگ سے خطرہ لاحق، یو این او ڈی سی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 مئی 2024ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے بتایا ہے کہ دنیا میں ہر سال جنگلی حیات کی 4,000 قیمتی انواع کی غیر قانونی تجارت ہو رہی ہیں جس سے فطرت، روزگار اور صحت عامہ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

'یو این او ڈی سی' کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق ہاتھیوں اور گینڈوں سمیت بعض جانوروں کو تحفظ دینے کی موثر کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔

تاہم اس حوالے سے دنیا بھر کی مجموعی صورتحال اب بھی پریشان کن ہے۔ ہر سال ہزاروں ایسے جاندار اور پودے مختلف مقاصد کے لیے سمگل کیے جا رہے ہیں جن کی انواع کو معدومیت کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔

Tweet URL

ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ والے نے کہا ہے کہ جنگلی حیات سے متعلق جرائم کے باعث موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے زمین کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

معدومیت کا 'نظرانداز کردہ' سبب

'یو این او ڈی سی' نے بتایا ہے کہ2015 اور 2021 کے درمیان 162 ممالک میں جانوروں اور پودوں کی غیرقانونی تجارت سے ان کی تقریباً چار ہزار انواع کو نقصان پہنچا۔ ان میں سے 3,250 ایسی ہیں جن کا 'معدومیت کے خطرے سے دوچار جنگلی جانوروں اور پودوں کی تجارت کے خلاف بین الاقوامی کنونشن' (سی آئی ٹی ای ایس) میں بھی تذکرہ ہے۔

اس عرصہ میں ان انواع سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ 30 لاکھ جانور اور پودے قبضے میں لیے گئے جن کا مجموعی وزن 16 ہزار ٹن تھا۔

آرکیڈ اور رس بھرے پودوں، رینگنے والے جانوروں، مچھلیوں، پرندوں اور میمالیہ کی متعدد نایاب اقسام کی معدومیت میں ان کی سمگلنگ کا اہم کردار ہے۔ تاہم، جانداروں کی معدومیت کے اسباب کا تجزیہ کرتے وقت عموماً اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

دنیا کے جنوبی حصوں میں رس بھرے پودوں کی متعدد اقسام اس لیے معدوم ہو رہی ہیں کہ انہیں تجارتی مقاصد کے لیے غیرقانونی طور پر جمع کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی سرگرمیوں کے باعث آرکیڈ کی نایاب اقسام بھی ختم ہونے کو ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر اور گاہک ان کی نئی انواع کو بھی فوری طور پر نشانہ بناتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ پھیلنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔

طاقت ور دشمن

2015 سے 2021 کے درمیان پکڑی جانے والی جنگلی حیات کی ایک لاکھ 40 ہزار انواع کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سمگلنگ میں منظم جرائم سے وابستہ طاقت ور گروہ ملوث تھے جو ایمازون سے گولڈن ٹرائی اینگل (شمال مشرقی میانمار، شمال مغربی تھائی لینڈ اور شمالی لاؤ) تک دنیا بھر میں ماحولیاتی نظام کا استحصال کر رہے ہیں۔ جنگلی حیات کی برآمد، درآمد، دلالی، انہیں ذخیرہ کرنے، ان کی نسل کشی اور فروخت سمیت ان کی تجارت کے کئی مراحل میں ان گروہوں کا نمایاں کردار ہے۔

'یو این او ڈی سی' کے مطابق، جنگلی حیات کے سمگلر پکڑے جانے اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے اپنے طور طریقے اور راستے متواتر تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ قانون اور نفاذ قانون میں خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

پودوں اور جانوروں کے استحصال میں بدعنوانی کا بھی اہم کردار ہے کیونکہ حکام اکثر ایسے جرائم سے صرف نظر کرتے ہیں۔

جنگلی حیات کی سمگلنگ جیسے جرائم پر کم ہی قانونی کارروائی ہوتی ہے جس کے باعث ان کا ارتکاب کرنے والے سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

© UNDP/Gregoire Dubois
یوگنڈا کے ایک وائلڈ لائف پارک میں گینڈا ماں اور اس کا بچہ سائے کے نیچے سستا رہے ہیں۔

صحت کے لیے خطرات

'یو این او ڈی سی' کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات سے متعلق جرائم کے دنیا بھر میں گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کے نتائج کو عموماً درست طور سے سمجھا نہیں جاتا۔

ان کی سمگلنگ سے نایاب انواع کو ناصرف براہ راست خطرات لاحق ہیں بلکہ اس سے ماحولیاتی نظام اور اس کے افعال میں بھی خلل آ رہا ہے۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلی کو محدود رکھنے کے لیے اس کی صلاحیت کمزور پڑنے لگی ہے۔

مزید برآں، انسانی و حیوانی صحت کے ماہرین حالیہ دہائیوں میں جنگلی حیات کی تجارت کے نتیجے میں بیماریاں پھیلنے کے خطرات سے متواتر خبردار کرتے آئے ہیں۔ ان میں جانورں، پودوں اور جنگلی جانوروں کے گوشت سے انسانوں کو امراض کی براہ راست منتقلی اور جنگلی حیات کی آبادی، ماحولیات اور خوراک کی تیاری کے نظام کو لاحق وسیع تر خطرات شامل ہیں۔

امید کی کرن

غادہ والے کا کہنا ہے کہ اس جرم پر قابو پانے کے لیے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کے ذریعے جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کرنے والوں کو نت نئے طریقے اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔ اس کے لیے جنگلی حیات کی طلب و ترسیل کے حوالے سے ایسے مضبوط و مخصوص اقدامات کرنا ہوں گے جن سے مجرمانہ ترغیبات اور منافع کا خاتمہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ معلومات کے حصول، ان کے تجزیے اور نگرانی کی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی درکار ہے۔

ہاتھیوں اور گینڈوں کے جسمانی اعضا کی سمگلنگ کے حالیہ تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طلب و رسد کو روکنے کی جامع حکمت عملی اختیار کرنے کے نتیجے میں حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ تاہم اس طریقہ کار کے ساتھ پالیسی، مارکیٹ کے کڑے ضوابط اور بڑے سمگلروں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی ضرورت ہے۔

'یو این او ڈی سی' نے بتایا ہے کہ گزشتہ دہائی میں ان دونوں جانوروں کے غیرقانونی شکار اور ان کے جسمانی اعضا کی قیمت فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے۔