بچوں کو 'زہریلے الفاظ‘ سے بچائیے

DW ڈی ڈبلیو منگل 14 مئی 2024 13:40

بچوں کو 'زہریلے الفاظ‘ سے بچائیے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مئی 2024ء) مثل مشہور ہے کہ ''پہلے تولو، پھر بولو‘‘ اور ''قلم، قدم اور قسم‘‘ سوچ سمجھ کر اٹھاؤ لیکن اس کے باوجود ہم نہ صرف خوب بولتے ہیں بلکہ ایسی جگہوں پر بھی بے دھڑک بول دیتے ہیں کہ جہاں چپ رہنا بہ تر ہوتا ہے۔

اب ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے سماج میں یہ بیمار سوچ غیر اعلانیہ طور پر حاوی ہو چکی ہے کہ ہم عزت کا جائز مستحق صرف اپنی ذات کو ہی سمجھتے ہیں یا صرف اپنے سب بڑے اور برتر کو۔

اس لیے ہم سے چھوٹا چاہے وہ عمر میں ہو یا مرتبے میں، ہم کم ہی خاطر میں لاتے ہیں۔ حالانکہ غور کیا جائے تو کیسی بری بات ہے کہ انسان اپنے سے چھوٹے کی صرف اس لیے عزت نہ کرے کہ وہ اس سے بڑا ہے۔ اب یہ بڑا چاہے عمر میں ہو یا رتبے میں، دونوں صورتوں میں قابل فخر یا غرور کرنے کی جا ہرگز نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اس لیے ہمیں سب سے پہلے تو اس رویے کی اصلاح کر لینی چاہیے کہ اس دنیا میں سب لوگ عزت کے مستحق ہیں اور ہر شخص اپنے اپنے طور پر پوری عزت اور وقار کا حق دار ہے اور اسے بالکل ایسے ہی عزت دیں کہ جیسا اپنے لیے چاہتے ہیں۔

اپنے سے عمر میں چھوٹوں کی بات کیجیے تو اس عزت نفس کے حق دار کم سن بچے بھی ہوتے ہیں، جنہیں ہم کبھی عزت کے لائق سمجھتے ہی نہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہماری عزت کریں۔ یقین کیجیے کہ یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اگر حساس طبیعت کے کسی بچے کی عزت نفس کو چوٹ پہنچے تو یہ عمل اس کو عمر بھر کی ناکامی کی طرف دھکیل دینے کے مترادف ہے۔

ممکن ہے کہ وہ ذہنی طور پر شدید متاثر ہو جائے، اس کے سیکھنے کے عمل میں رکاوٹیں آ جائیں اور وہ خود کو چھوٹا سمجھ کر زندگی سے لڑنے کا حوصلہ ہی چھوڑ دے، اس لیے اس سے ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک ضرور کیجیے لیکن کبھی اگر یہ احساس ہو کہ اس مرحلے میں بھی کوئی زیادتی ہو گئی ہے اور بچہ اس سے اپنی بے عزتی محسوس کر رہا ہے تو ضروری ہے کہ رجوع کیا جائے اور اسے اس اثر سے نکالا جائے۔

اگر یہ عمل کوئی دوسرا کر رہا ہے تو اسے بھی آگاہی دی جائے اور کسی بھی دوسرے بچے سے ایسا عمل کرنے سے گریز کیا جائے کہ جس سے کسی بچے کے احساس کو ٹھیس پہنچے۔

بہت سے لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح بچوں کے نخرے اٹھانا اور ان کو سر پر بٹھا لینا ٹھیک نہیں لیکن انہیں سوچنا چاہیے کہ یہ سر پر بٹھا لینا تو واقعی ٹھیک نہیں لیکن ایسے راندہ درگاہ کرنا بھی کسی جیتے جاگتے وجود کے لیے غیر مناسب امر ہے۔

ایسی صورت میں بچے کی شخصی نشو و نما شدید متاثر ہو سکتی ہے اور اسے نفسیاتی علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے یا ممکن ہے کہ اس کی انتہائی کیفیت عیاں نہ ہو اور وہ اسی طرح کے رویوں کے سبب زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہنے لگے، کیوں کہ اسے اندر سے یہ احساس ہو چکا ہو گا کہ وہ نا لائق ہے، کچھ کر ہی نہیں سکتا، وہ تو احمق ہے، فلاں نے ٹھیک کہا ہے کہ اس کے نمبر ہمیشہ کم ہی آئیں گے یا اس کا ذہن کمزور ہے۔

اس طرح بہت زیادہ خدشہ ہے کہ وہ سماج میں کسی تخریبی یا باغیانہ سر گرمی کی طرف بھی راغب ہو سکتا ہے۔

یاد رکھیے کہ عزت نفس کو جھنجھوڑتے الفاظ بچے کے لیے کسی زہر سے کم نہیں ہوتے لہذا کوشش کیجیے کہ آپ سماج کے مستقبل میں یہ ذہن شامل کرنے سے باز رہیں، بچوں پر سختی بھی کیجیے لیکن اس انتہا سے دور رہ کر کہ جہاں آپ غصے میں دھیان بھی نہیں رکھتے کہ کون سے القابات آپ کے منہ سے ادا ہو کر بچے کے قلب و ذہن میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو رہے ہیں۔

یہ صرف آپ کے گرد و نواح کے بہتر ماحول کی بات نہیں بلکہ اس پورے سماج کے مستقبل کے صحت مند ماحول کا تقاضا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

متعلقہ عنوان :