برطانیہ میں ’ترسیل انصاف میں بدترین غلطیوں میں سے ایک‘ پر معذرت

DW ڈی ڈبلیو بدھ 22 مئی 2024 20:20

برطانیہ میں ’ترسیل انصاف میں بدترین غلطیوں میں سے ایک‘ پر معذرت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2024ء) لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق برٹش پوسٹ آفس کی سابقہ چیف ایگزیکٹو پاؤلا وینلز نے یہ بات بدھ 22 مئی کو ایک بہت بڑے اسکینڈل کی چھان بین کے لیے ہونے والی ایک پبلک انکوائری میں اپنا شہادتی بیان دیتے ہوئے کہی۔

ساتھ ہی وینلز نے ان سینکڑوں متاثرہ اہلکاروں سے معافی بھی مانگ لی، جنہیں ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک ناقص کمپیوٹر سافٹ ویئر کی وجہ سے غلطی سے سزائیں بھی سنا دی گئی تھیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں اس پورے معاملے کو برطانوی 'نظام انصاف کی بدترین غلطیوں میں سے ایک‘ بتایا ہے۔

سالہا سال تک جاری رہنے والی غلطی

برطانیہ میں 1999ء اور 2015ء کے درمیانی عرصے میں برٹش پوسٹ آفس کے 700 سے زائد اہلکاروں کو اپنے خلاف ایسے عدالتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جن میں انہیں مجرم قرار دے کر سزائیں سنا دی گئی تھیں۔

(جاری ہے)

یہ تمام اہلکار ایسے سب پوسٹ ماسٹرز تھے، جو مختلف علاقوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے مقامی ڈاک خانے چلاتے تھے۔ وہ اپنے ڈاک خانوں میں اکاؤنٹنگ کے لیے ہورائزن نامی ایسا کمپیوٹر سافٹ ویئر استعمال کرتے تھے، جس میں نقص تو تھا، مگر جس نقص کا تب کسی کو علم نہیں تھا۔

اس خامی کی باعث ہورائزن کی طرف سے دکھایا یہ جاتا تھا کہ جیسے ان ڈاک خانوں کے اکاؤنٹس میں جمع رقوم غائب ہو جاتی تھیں۔

ایسے 'انکشافات‘ کے بعد ان سب پوسٹ ماسٹرز کے خلاف مختلف اوقات میں رقوم چوری کرنے اور فراڈ کے الزامات میں عدالتی کارروائیاں کی گئیں اور انہیں سزائیں بھی سنائی جاتی رہیں۔

سزائیں سنائے جانے کے بعد ان پوسٹ آفس اہلکاروں میں سے کئی دیوالیہ ہو گئے تھے۔ بہت سے اپنی اپنی برادریوں میں مذمت اور نفرت کا نشانہ بنے۔ متعدد کو قید کی سزائیں بھی سنائی گئیں اور کم از کم چار افراد نے تو خود کشی بھی کر لی تھی۔

اعلیٰ شاہی اعزاز واپس کرنے کا اعلان

بدھ کے روز اس اسکینڈل سے متعلق ایک پبلک انکوائری میں اپنا تحریری شہادتی بیان پڑھ کر سناتے ہوئے برٹش پوسٹ آفس کی سابق سربراہ پاؤلا وینلز نے کہا، ''مجھے ان تمام سب پوسٹ ماسٹرز اور ان کے خاندانوں کے حوالے سے شدید افسوس ہے، جنہوں نے ایسے معاملات کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھائیں، جن کی وضاحت کے لیے اب یہ پبلک انکوائری مکمل کی جا رہی ہے۔

‘‘

قبل ازیں 2019ء میں لندن ہائی کورٹ کی طرف سے ایک مقدمے کی سماعت کے بعد سنائے جانے والے فیصلے میں کہہ دیا گیا تھا کہ برسوں تک مقامی ڈاک خانوں سے غائب ہو جانے والی رقوم کا سبب کمپیوٹر سسٹم اور سافٹ ویئر کی غلطیاں تھیں، نہ کہ متعلقہ افراد کے مجرمانہ اقدامات۔

اس اسکینڈل کے سینکڑوں متاثرین کی طرف سے پاؤلا وینلز کو ہی اپنے مصائب کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے، کیونکہ وہی تب برطانوی محکمہ ڈاک کی سربراہ تھیں۔

لندن ہائی کورٹ کے 2019ء کے فیصلے کے برسوں بعد اور موجودہ پبلک انکوائری سے قبل اسی سال جنوری میں جب وینلز اور برٹش پوسٹ آفس پر ہونے والی عوامی تنقید بہت شدید ہو گئی تھی، تو وینلز نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ اپنا کمانڈر آف برٹش ایمپائر یا سی بی ای نامی وہ اعلیٰ شاہی اعزاز واپس کر دیں گی، جس سے انہیں 2018ء میں نوازا گیا تھا۔

حکومت کی ادا کردہ تلافی رقوم

بدھ کے روز ہونے والی سماعت وہ پہلا موقع تھی کہ پبلک انکوائری کمیٹی نے وینلز سے اس اسکینڈل میں ان کے کردار کے بارے میں سوالات پوچھے۔

ایک سوال کے جواب میں پاؤلا وینلز نے کہا، ''ایسی معلومات تھیں، جو مجھے نہیں دی گئی تھیں، اور یہ دوسروں کو بھی نہیں ملی تھیں۔‘‘

انہوں نے کہا، ''اس پورے معاملے کے بارے میں میری سوچ اب یہ ہے کہ میں بہت زیادہ اعتماد کرنے والی تھی۔ مجھے اب جس بات پر گہرا صدمہ ہے، وہ یہ ہے کہ بہت سے افراد سے، جن میں میں بھی شامل ہوں، غلطیاں ہوئیں۔

‘‘

پاؤلا وینلز اس انکوائری کمیٹی کے سامنے تین روز تک پیش ہوں گی۔

لندن حکومت کے مطابق ان واقعات کے 700 سے زائد متاثرین کے مصائب اور مشکلات کے ازالے کے لیے حکومت اب تک جو اقدامات کر چکی ہے، ان میں 179 ملین پاؤنڈ (225 ملین ڈالر) کی وہ رقوم بھی شامل ہیں، جو متاثرین اور ان کے اہل خانہ کی تلافی کے لیے ادا کی گئیں۔

م م / ع ت (اے ایف پی، اے پی)